51. باب: تورات اور اس کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں کی تفسیر اور ترجمہ عربی وغیرہ میں کرنے کا جائز ہونا۔
حدیث نمبر: Q7541
لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں «فأتوا بالتوراة فاتلوها إن كنتم صادقين» کہ ”پس تم توریت لاؤ اور اسے پڑو اگر تم سچے ہو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: Q7541]
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھے ابوسفیان بن حرب نے خبر دی کہ ہرقل نے اپنے ترجمان کو بلایا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا۔ شروع اللہ کے نام سے جو بہت نہایت رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہرقل کی جانب۔ پھر یہ آیت لکھی تھی «يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم» کہ ”اے کتاب والو! اس بات پر آ جاؤ جو ہم میں تم میں یکساں مانی جاتی ہے“ آخر آیت تک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7541]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7541
حدیث حاشیہ: اس سےامام بخاری نے ترجمہ کا جواز نکالا۔ آنحضرت ﷺ نے ہرقل کوعربی زبان میں خط لکھا حالانکہ آپ جانتے تھےکہ ہرقل عربی نہیں سمجھتا اوراس لیے اس نےترجمان بلایا تو گویا آپ نے ترجمہ کی اجازت دی۔ اس باب سے حضرت امام بخاری نےان بیوقوفوں کا رد کیا جو آسمانی کتابوں یا اوردوسری کتابوں کا ترجمہ دوسری زبان میں کرنا بہتر نہیں حانتے اوراس آیت سےاس پراس طرح استدلال کیا کہ تورات اصل عبرانی زبان میں تھی اورعربوں کو لاکرسنانے کا جواللہ نےحکم دیا تو یقیناً اس کا مطلب یہ ہوا کہ عربی میں ترجمہ کرکے سناؤ کیونکہ عرب لوگ عبرانی نہیں سمجھتے تھے اور ترجمہ اور تفسیر کے جواز پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7541
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7541
حدیث حاشیہ: آیت کریمہ میں تورات لانے اور اسے پڑھ کر سنانے کا حکم ہے حالانکہ تورات عبرانی زبان میں تھی اور جنھیں پڑھ کر سنانا تھا اور وہ عربی تھے اور عبرانی زبان نہیں جانتے تھے اس سے خود بخود تورات کا عربی زبان میں ترجمہ کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ تورات اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسے عربی میں ترجمہ کرنا یہ مترجم کا فعل ہے اوربندے کا یہ فعل اختیاری لیکن اللہ تعالیٰ کا تخلیق کیا ہوا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم ہرقل کو عربی زبان میں خط لکھا اور اس نے ترجمان کے ذریعے سے اپنی زبان میں سنا۔ یہ خط ایک آیت کریمہ پر مشتمل تھا اس کا بھی ترجمہ کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو تفسیر وتوضیح اور اس کا ترجمہ مفسر اور مترجم کا اپنا فعل تھا اور مکتوب آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مقصد کے پیش نظر مذکور عنوان قائم کیا ہے اور احادیث ذکر کی ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7541