ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ «استوى إلى السماء» کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ «فسواهن» یعنی پھر انہیں پیدا کیا۔ مجاہد نے کہا کہ «استوى» بمعنی «على العرش.» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ «مجيد» بمعنی «كريم» ۔ «الودود» بمعنی «الحبيب.» بولتے ہیں۔ «حميد»، «مجيد» ۔ گویا یہ فعیل کے وزن پر ماجد سے ہے اور «محمود»، «حميد.» سے مشتق ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: Q7418]
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے جامع بن شداد نے، ان سے صفوان بن محرز نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنو تمیم! بشارت قبول کرو۔ انہوں نے اس پر کہا کہ آپ نے ہمیں بشارت دے دی، اب ہمیں بخشش بھی دیجئیے۔ پھر آپ کے پاس یمن کے کچھ لوگ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اہل یمن! بنو تمیم نے بشارت نہیں قبول کی تم اسے قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قبول کر لی۔ ہم آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور تاکہ آپ سے اس دنیا کی ابتداء کے متعلق پوچھیں کہ کس طرح تھی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تھا اور کوئی چیز نہیں تھی اور اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ پھر اس نے آسمان و زمین پیدا کئے اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی (عمران بیان کرتے ہیں کہ) مجھے ایک شخص نے آ کر خبر دی کہ عمران اپنی اونٹنی کی خبر لو وہ بھاگ گئی ہے۔ چنانچہ میں اس کی تلاش میں نکلا۔ میں نے دیکھا کہ میرے اور اس کے درمیان ریت کا چٹیل میدان حائل ہے اور اللہ کی قسم میری تمنا تھی کہ وہ چلی ہی گئی ہوتی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سے نہ اٹھا ہوتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7418]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7418
حدیث حاشیہ: اللہ کاعرش پرمستوی ہونا برحق ہے، اس پر بغیر تاویل کےایمان لانا ضروری ہے اور تاویل سے بچنا طریقہ سلف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7418
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7418
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: Q7418 کا باب: «بَابُ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ}، {وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ}:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے عرش کا ذکر فرمایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بڑے دقیق الفاظ میں اس کا مخلوق ہونا بھی ثابت فرمایا ہے اور یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اس پر ایمان لانا بغیر تاویل کے لازمی ہے، اور تاویل کے طریقہ سے بچنا سلف کا طریقہ ہے۔ تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے دس احادیث کا ذکر فرمایا ہے، پہلی حدیث سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں عرش کا ذکر موجود ہے، دوسری حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر ہے، تیسری حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں «فوق سبع سموات» کے الفاظ ہیں، جس سے عرش کی طرف اشارہ موجود ہے، چوتھی حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی آسمان کا ذکر ہے، پانچویں حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں عرش کا ذکر ہے، چھٹی حدیث بھی انہی سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر موجود ہے، ساتویں حدیث جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بظاہر عرش کے الفاظ موجود نہیں ہیں مگر صحیح بخاری میں ہی دوسری جگہ عرش کے الفاظ موجود ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مکمل کتاب بدء الخلق «باب صفة الشمس و القمر»(رقم الحدیث: 3199) میں ذکر فرمائی ہے، وہاں یہ الفاظ موجود ہیں: «قال النبى صلى الله عليه وسلم لأبي ذر حين غربت الشمس: ”أتدري أين تذهب؟“ قلت: الله و رسوله أعلم؛ قال: فإنها تذهب حتى تسجد تحت العرش فستأذن ويؤذن لها . . . . .» ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”جب سورج غروب ہوتا تو کہاں جاتا ہے؟“ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جاتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔“ لہٰذا اس حدیث کی مطابقت بھی باب سے عرش کے الفاظ کے ساتھ قائم ہوتی ہے، ساتویں حدیث میں سورۃ توبہ کی آیت نقل فرمائی ہے جس کے آخر میں عرش کا ذکر ہے، آٹھویں حدیث جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل فرمائی ہے اس میں بھی عرش عظیم کا ذکر ہے، نویں حدیث جو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر ہے، دسویں حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر موجود ہے، مگر باب کے تحت جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی ہے کہ «المجيد» بمعنی کریم کے ہیں۔ تحت الباب تمام احادیث میں لفظ «المجيد» وارد نہیں ہوا، پھر کس طرح سے احادیث کا باب سے مطابقت ہو گی؟ کیونکہ باب میں «المجيد» کا ذکر موجود ہے۔ اس الجھن کو دور کرتے ہوئے علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جو کچھ ذکر کیا ہے، وہ ذکر عرش پر مشتمل ہے ماسوائے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کے، لیکن ان کے ساتھ ایک پرلطف بات پر متنبہ کیا ہے، وہ یہ کہ آیت میں «المجيد» قرأت کسر پر عرش کی صفت نہیں، تاکہ یہ تخیل نہ ہو کہ وہ (بھی) قدیم ہے بلکہ (کسر کے ساتھ بھی) یہ اللہ کی صفت ہے بدلیل نافع کی قرأت کے۔“[المتوري: ص 429]، [فتح الباري لابن حجر: 235/14] لہٰذا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کا تعلق عرش کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت کے ساتھ ہے، پس یہی بتلانا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ہے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7418
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں (هَذَا الأَمرُ) سے مراد کائنات کی ہر وہ چیز ہے جس کا روز مرہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں یعنی اہل یمن نے مشاہدات کائنات کے متعلق سوال کیا تھا کہ اس کا مبدا کیا ہے؟ سوال کے ظاہری مفہوم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔ (فتح الباری: 346/6) اگرچہ انھوں نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ جنس مخلوقات میں سے پہلی مخلوق کے متعلق سوال تھا لیکن جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ احتمال بہت بعید ہے کیونکہ اس حدیث میں زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے حالانکہ ایک حدیث کے مطابق پہلےاللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اسے لکھنے کا حکم دیا۔ اس نے عرض کی: کیا لکھوں؟ حکم ہوا قیامت تک پیدا ہونے والی ہر چیزکی تقدیر لکھ دے۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4700) نیز ایک دوسری حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزارسال پہلے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تقدیر لکھ دی تھی اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748(2653) اللہ تعالیٰ کا عرش اور پانی دونوں اللہ تعالیٰ کے پیدا کیےہوئے ہیں جو تقدیریں لکھتے وقت موجود تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ “(ھود 11۔ 7) 2۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہو چکی تھی اور زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر موجود تھا تخلیق کے بعد یہ عرش ساتوں آسمانوں اور کرسی کے بھی اوپر ہے۔ زمین و آسمان کی پیدائش کا مادہ دھواں تھا جو اس وقت موجود پانی سے بخارات کی شکل میں جمع تھا۔ اس کا اشارہ سورہ حم السجدہ آیت: 11 میں ہے پھر اس دھویں کو پھاڑ کر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان سورج چاند اور ستارے وغیرہ بنائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”بے شک تمام آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انھیں پھاڑ کر الگ الگ کیا۔ “(الأنبیاء: 21۔ 30) 3۔ اس حدیث سے مقصود اللہ تعالیٰ کےعرش کی عظمت اور رفعت و بلندی شان کو بیان کرنا ہے کہ اس کی قدر و منزلت زمین و آسمان کی قدر و منزلت سے کہیں بڑھ کر ہے اور اس کا وجود زمین و آسمان کے وجود سے بہت پہلے کا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7418
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3191
3191. حضرت عمران بن حصین ؓہی سے رویت ہے، انھوں نے کہا: میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی اونٹنی کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا تھا۔ آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: ”اے بن تمیم! بشارت قبول کرو۔“ انھوں نے دو مرتبہ کہا: آپ نے ہمیں خوشخبری دی ہے، اب ہمیں مال بھی دیں۔ اس دوران میں یمن کے چند لوگ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ان سے بھی یہی فرمایا: ”اے یمن والو! خوشخبری قبول کرلو، بنو تمیم نے اسے مسترد کردیا ہے۔“ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم نے آپ کی بشارت قبول کی ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس عالم کی پیدائش کے حالات پوچھیں۔ آپ نے فرمایا: ”اول اللہ کی ذات تھی اس کے سوا کوئی چیز نہیں تھی اور اس کاعرش پانی پر تھا اور لوح محفوظ میں اس نے ہر چیزلکھ دی تھی اور اسی نے ہی زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔“ ابھی یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3191]
حدیث حاشیہ: 1۔ اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پانی کو پیدا کیا۔ پھر عرش کو اس کے اوپر پیدا کیا اور عرش کے نیچے صرف پانی تھا دوسری کوئی چیز نہ تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی اور عرش زمین وآسمان سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں ہے۔ ”اللہ کے سوا کوئی چیز نہیں تھی۔ “ اس کے معنی ہیں کہ اللہ قدیم اور ازل سے ہے۔ اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی نہ پانی نہ عرش اور نہ روح کیونکہ یہ سب اشیاء غیر اللہ ہیں۔ بہر حال آغاز تخلیق کی ترتیب اسی طرح معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پانی پھر عرش کو پیدا فرمایا اس کے بعد دیگر کائنات کی تخلیق فرمائی۔ 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا عرش بھی مخلوق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا محتاج نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3191