اور خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ نے مرتے وقت کہا کہ یہ سب تکلیف اللہ کی ذات مقدس کے لیے ہے تو اللہ کے نام کے ساتھ انہوں نے «ذات» کا لفظ لگایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: Q7402]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عمرو بن ابی سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں تھے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عضل اور قارہ والوں کی درخواست پر دس اکابر صحابہ کو جن میں خبیب رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کے ہاں بھیجا۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی کہ حارث کی صاحبزادی زینب نے انہیں بتایا کہ جب لوگ خبیب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لیے آمادہ ہوئے (اور قید میں تھے) تو اسی زمانے میں انہوں نے ان سے صفائی کرنے کے لیے استرہ لیا تھا، جب وہ لوگ خبیب رضی اللہ عنہ کو حرم سے باہر قتل کرنے لے گئے تو انہوں نے یہ اشعار کہے۔ ”اور جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس کی پروا نہیں کہ مجھے کس پہلو پر قتل کیا جائے گا اور میرا یہ مرنا اللہ کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے گا تو میرے ٹکڑے ٹکڑے کئے ہوئے اعضاء پر برکت نازل کرے گا۔“ پھر ابن الحارث نے انہیں قتل کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اس حادثہ کی اطلاع اسی دن دی جس دن یہ حضرات شہید کئے گئے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7402]
بعث رسول الله عشرة منهم خبيب الأنصاري فأخبرني عبيد الله بن عياض أن ابنة الحارث أخبرته أنهم حين اجتمعوا استعار منها موسى يستحد بها فلما خرجوا من الحرم ليقتلوه قال خبيب الأنصاري ولست أبالي حين أقتل مسلما على أي شق كان لله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشأ يبا
بعث رسول الله عشرة رهط سرية عينا وأمر عليهم عاصم بن ثابت الأنصاري جد عاصم بن عمر بن الخطاب فانطلقوا حتى إذا كانوا بالهدأة وهو بين عسفان و مكة ذكروا لحي من هذيل يقال لهم بنو لحيان فنفروا لهم قريبا من مائتي رجل كلهم رام فاقتصوا آثارهم حتى وجدوا مأكلهم تمرا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7402
حدیث حاشیہ: بنو لحیان کے دو سو آدمیوں نے ان کو گھیر لیا۔ سات بزرگ شہید ہو گئے تین کو قید کر کے لے چلے۔ ان ہی میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ بھی تھے جسے بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک ان کو قید رکھ کر قتل کیا۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے ان اشعار کا ترجمہ یوں کیا ہے جب مسلماں بن کے دنیا سے چلو ں مجھ کو کیا ڈر ہے کسی کروٹ گروں میرا مرنا ہے خدا کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑوں پر وہ برکت دے فزوں
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7402
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7402
حدیث حاشیہ: 1۔ بنولحیان نے ان دس جاں نثار کو اپنے گھیرے میں لے کر سات کو شہید کر دیا اور تین کو قید کرکے لے گئے۔ ان قیدیوں میں حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جنھیں بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک انھیں قید رکھنے کے بعد شہید کیا۔ اس واقعے کی تفصیل خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المغازی میں بیان کی ہے۔ (صحیح البخار، المغازي، حدیث: 4086) 2۔ اس حدیث میں لفظ ذات اللہ کے اسم مبارک کے ساتھ بطور مضاف استعمال ہوا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا، اگر غلط ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انکار کر دیتے، اسی طرح احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی میں صرف تین دفعہ خلاف واقعہ بات کی، ان میں سے دو مرتبہ تواللہ کی ذات کے متعلق تھی۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء علیہم السلام، حدیث: 3358) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہرچیز کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے غوروفکر کرو لیکن اللہ کی ذات کے متعلق اس انداز سے غوروخوض نہ کرو۔ اس کی سند بھی جید ہے۔ (الأسماء والصفات للبیهقي: 420 و سلسلة الأحادیث الصحیحة: 346/4) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل اسلام اس مومن کا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اورافضل جہاد اس شخص کا ہے: (منْ جاهَدَ نَفْسَهُ فِي ذاتِ اللّٰہ) ”جس نے اللہ کی ذات کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔ ۔ ۔ “(بدائع الفوائد: 7/2) 3۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذات کا لفظ اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی صفات ہوں، پھر اسے ان صفات کی طرف مضاف کیا جاتا ہے۔ نحوی حضرات نے اگرچہ یہ اعتراض کیا ہے کہ لفظ ذات معرفہ استعمال نہیں ہوتا، تاہم اسے کسی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اسے معرفہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ متکلمین کی اپنی اصطلاح ہے جس کا لغت سے کوئی تعلق نہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 243/1) بہر حال لفظ ذات کا استعمال باری تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور اس سے مراد نفس شے کا بیان ہے، یعنی بذات خود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات اور صفات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 470/13) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ آیت کریمہ میں نفس سے مراد ذات مقدسہ ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 199/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7402
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3045
3045. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس صحابہ پر مشتمل ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے روانہ فرمائی۔ آپ نے اس جماعت کا امیر حضرت عاصم بن عمربن خطاب ؓکے نانا حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو مقرر فرمایا، چنانچہ وہ لوگ (مدینے سے)چلے گئے۔ جب وہ مقام "هداة" پر پہنچےجو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو کسی نے ان کی آمد کی خبر دی۔ اس قبیلے کے تقریباً دو سوتیرا نداز ان کی تلاش میں نکلے اور ان کے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگاتے ہوئے آخر ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ کرام ؓنے بیٹھ کرکھجوریں کھائی تھیں جو وہ مدینہ طیبہ سے اپنے ہمراہ لے کر چلے تھے۔ تعاقب والوں نے کہا: یہ تو یثرب کی کھجوریں معلوم ہوتی ہیں۔ بالآخر وہ ان کے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ جب عاصم اور ان کے ساتھیوں نے انھیں دیکھ لیا تو انھوں نے پہاڑ کی ایک چوٹی پر پناہ لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3045]
حدیث حاشیہ: عاصم بن عمر ؓ کی والدہ جمیلہ عاصم بن ثابت کی بیٹی تھیں۔ بعضوں نے کہا یہ عاصم بن عمر ؓ کے ماموں تھے اور جمیلہ ان کی بہن تھیں۔ خیر ان چھ آدمیوں کو آپﷺ نے عضل اور قارہ والوں کی درخواست پر بھیجا تھا۔ وہ جنگ احد کے بعد آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ چند صحابہ ؓ کو کر دیجئے جو ہم کو دین کی تعلیم دیں۔ آپ نے مرثد بن ابی مرثد اور خالد بن بکیر اور خبیب بن عدی اور زید بن دثنہ اور عبداللہ بن طارق ؓ کو ان کے ساتھ کر دیا‘ راستے میں بنو لحیان کے لوگوں نے ان پر حملہ کیا‘ اور دغا سے مار ڈالا۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3045
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3045
3045. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس صحابہ پر مشتمل ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے روانہ فرمائی۔ آپ نے اس جماعت کا امیر حضرت عاصم بن عمربن خطاب ؓکے نانا حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو مقرر فرمایا، چنانچہ وہ لوگ (مدینے سے)چلے گئے۔ جب وہ مقام "هداة" پر پہنچےجو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو کسی نے ان کی آمد کی خبر دی۔ اس قبیلے کے تقریباً دو سوتیرا نداز ان کی تلاش میں نکلے اور ان کے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگاتے ہوئے آخر ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ کرام ؓنے بیٹھ کرکھجوریں کھائی تھیں جو وہ مدینہ طیبہ سے اپنے ہمراہ لے کر چلے تھے۔ تعاقب والوں نے کہا: یہ تو یثرب کی کھجوریں معلوم ہوتی ہیں۔ بالآخر وہ ان کے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ جب عاصم اور ان کے ساتھیوں نے انھیں دیکھ لیا تو انھوں نے پہاڑ کی ایک چوٹی پر پناہ لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3045]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت خبیب ؓ کو شہید کرنے والے ابو سروعہ عقبہ بن حارث ہیں۔ (صحیح البخاري، المغازی، حدیث: 3989) یہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے نیز یہ وہی عقبہ بن حارث ہیں جنھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ پھر ایک سیاہ فام عورت نے بتایا کہ میں نے تجھے اور تیری بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے تو انھوں نے مسئلے کی تحقیق کے لیے مکہ سے مدینہ طیبہ کا سفر کیا بالآخر انھوں نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 88) 2۔ امام بخاری ؒ کا عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے ایک یہ کہ کیا انسان خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر سکتا ہے؟ اس کے ثبوت کے لیے حضرت خبیب ؓ اور حضرت ابن دثنہ ؓ کا واقعہ ہے کہ انھوں نے خود کو کفار کے سامنے گرفتاری کے لیے پیش کیا بالآخرجام شہادت نوش فرمایا۔ دوسرا یہ کہ انسان خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرنے کی بجائے اپنی جان پر کھیل جائے اور سرد ھڑکی بازی لگا دے ایسا کرنا بھی جائز بلکہ بہتر ہے کیونکہ حضرت عاصم بن ثابت ؓنے گرفتاری دینے کی بجائے اپنی جان پر کھیلنے کو ترجیح دی اور اپنے ساتھیوں سمیت میدان کار زار میں کام آئے۔ تیسرا یہ ہے کہ عین شہادت کے موقع پر دورکعت پڑھنا۔ اس کے ثبوت کے لیے حضرت خبیب ؓ کا کردار پیش کیا کہ انھوں نے رب سے حقیقی ملاقات سے قبل روحانی ملاقات کی خواہش کی اور اسے عملی جامہ پہنایا۔ 3۔ ہمارے نزدیک عزیمت یہ ہے کہ انسان گرفتاری دینے کی بجائے خود کو اللہ کے حضور قربانی کے لیے پیش کردے کیونکہ گرفتاری دینے سے ممکن ہے کہ اس سے کوئی ملکی یا قومی راز حاصل کیے جاسکیں جو ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں ہاں اگر حضرت خبیب ؓ جیسا مستقل مزاج مجاہد ہو تو گرفتاری دینے کی اجازت ہے البتہ عزیمت کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکے گا۔ واضح رہے کہ اس واقعے سے خود کش حملوں کا جواز کشیدہ کرنا محل نظر ہے۔ 4۔ مقام غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عاصم بن ثابت ؓ کے جسم کی بھڑوں کے ذریعے سے حفاظت کی لیکن کفار کے ہاتھوں انھیں قتل ہونے سے محفوظ نہ کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ شہادت تو مومن کا مقصود مطلوب ہے لیکن مرنے کے بعد ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹنا ان کی توہین تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسا بند و بست فرمایا کہ کافروں کو ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹنے کی جرات نہ ہوئی۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3045