حدیث حاشیہ: 1۔
کچھ شارحین نے کہا ہے کہ مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے سمیع اور بصیر ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
اس کا جواب علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جنھیں دیکھا یا سنا جاتا ہے اس دعا کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان گناہوں کو دیکھتا اور سنتا ہے پھر بندے کی دعا کے مطابق اس کی مغفرت عمل میں آتی ہے۔
(فتح الباري: 459/13) 2۔
اس مقام پر حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جس ذات کو پکارے والا پکارتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سمیع ہوتا کہ پکارنے والےکی پکار کو ہر آن سنے اور وہ بصیر ہو۔
تاکہ اس کی حالت کو دیکھ کر اپنی قدرت کاملہ سے اس کے مطلوب کو اس تک پہنچائے اگر وہ ایسا نہیں ہو گا۔
تو دعا کرنے والے کی پکار ضائع اور بے کار ہے۔
بندے کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرف قبولیت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سمیع بصیر، قادر زندہ اور جاننے والا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسے معبودان باطلہ کی بے بسی بایں الفاظ میں بیان کی ہے جو سنتے یا دیکھتے نہیں ہیں۔
”اور اس شخص سے بڑھ کراور کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انھیں پکارے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے۔
اور وہ
(اس قسم کے معبودان باطلہ تو) ان کی دعا و پکار ہی سے بے خبرہیں۔
“ (الأحقاف: 5) نیز جس سے دعا کی جائے اس کے چند ایک لوازمات حسب ذیل ہیں۔
"وجود" کیونکہ جو موجود نہ ہو اس سے دعا نہیں کی جاتی۔
"غنی" کیونکہ فقیر و محتاج سے کوئی نہیں مانگتا۔
"سمیع" کیونکہ بہرے کوکوئی نہیں پکارتا۔
"کریم" کیونکہ بخیل سے کوئی سوال نہیں کرتا۔
"رحیم" کیونکہ سنگدل سے کوئی التجانہیں کرتا۔
"قادر" کیونکہ عاجز اور بے بس کوکوئی نہیں پکارتا۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 196/1) 3۔
ان حقائق کی بنا پر مذکورہ حدیث عنوان کے عین مطابق ہے کیونکہ اس دعا میں انسان اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر عرض کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہونا اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ سنتا دیکھتا اور حاضرہو۔
بصورت دیگر غائب کوکون مخاطب کرتا ہے۔
واللہ أعلم۔