الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
9. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا} :
9. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور اللہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے“۔
حدیث نمبر: 7387
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي، قَالَ: قُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مِنْ عِنْدِكَ مَغْفِرَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عمرو نے خبر دی، انہیں یزید نے، انہیں ابوالخیر نے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! مجھے ایسی دعا سکھائیے جو میں اپنی نماز میں کیا کروں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يغفر الذنوب إلا أنت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاغفر لي من عندك مغفرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنك أنت الغفور الرحيم‏"‏‏.‏» اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے سوا گناہوں کو اور کوئی نہیں بخشتا، پس میرے گناہ اپنے پاس سے بخش دے، بلاشبہ تو بڑا مغفرت کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7387]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7387 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7387  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ بات سے مشکل ہے۔
بعضوں نے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے دعا کرنا اسی وقت فائدہ دے گا جب وہ سنتا دیکھتا ہو تو آپ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ دعا مانگنے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ وہ سنتا دیکھتا ہے۔
میں کہتا ہوں سبحان اللہ امام بخاری کی باریکی فہم اس دعا میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا ہے بہ صیغہ امر اور بکاف خطاب اور اللہ تعالیٰ کا مخاطب کرنا اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ سنتا دیکھتا اور حاضر ہو ورنہ غائب شخص کو کون مخاطب کرے گا پس اس دعا سے باب کا مطلب ثابت ہو گیا۔
دوسرے یہ کہ حدیث میں وارد ہے جب کوئی تم میں سے نماز پڑھتا ہے تو اپنے پروردگار سے سر گوشی کرتا ہے اور سر گوشی کی حالت میں کوئی بات کہنا اسی وقت مؤثر ہوگی جب مخاطب بخوبی سنتا ہو تو اس حدیث کو اس حدیث کے ساتھ ملانے سے یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کا سمع بے انتہاء ہے وہ عرش پر رہ کر بھی نمازی کی سر گوشی سن لیتا ہے اور یہی باب کا مطلب ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7387   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7387  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7387 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا}
باب اور حدیث میں مناسبت:
حدیث کا ترجمۃ الباب سے مناسبت انتہائی مشکل ہے کیوں کہ حدیث میں اس صفت کا کوئی ذکر نہیں ہے جن صفات کا ذکر باب میں کیا گیا ہے، باب میں السمیع اور البصیر کا ذکر ہے، تحت الباب میں ان صفات کا ذکر نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وأشار ابن بطال إلى أن مناسبة للترجمة أن دعاء أبى بكر لما علمه النبى صلى الله عليه وسلم يقتضي أن اللفه سمع لدعائه و مجازيه عليه، و قال غيره حديث أبى بكر ليس مطابقة للترجمة إذ ليس فيه ذكر صفتي السمع و البصر لكنه ذكر لاذمهما من جهة أن فائدة الدعاء إجابة الداعي لمطلوبة فلو لا أن سمعه سبحانه يتعلق بالسر كما يتعلق بالجهر . . . . .» [فتح الباري لابن حجر: 320/14]
ابن بطال رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا اشارہ اس طرح دیا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعا جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تعلیم دی تھی وہ مقتضی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا کا سمیع ہے یعنی سننے والا ہے اور اس پر ان کا مجازی ہے، ان کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ حدیث سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا باب سے مناسبت نہیں ہے کیوں کہ اس حدیث میں سمع اور بصر کی صفوں کا ذکر نہیں ہے لیکن ان کے لازم کا ذکر موجود ہے اس جہت سے کہ فائدہ دعا والی کے مطلوب کی استجابت ہے تو اگر اللہ تعالیٰ کا سمع سر کے ساتھ متعلق نہ ہو، جیسا کہ اس کا متعلق جہر کے ساتھ ہے تو یہ فائدہ حاصل نہ ہو، یا پھر اسے باہر بالدعا کے ساتھ مقید کیا ہوتا۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«حديث أبى بكر الصديق، قيل: ليس هذا الحديث مطابقًا للترجمة، إذ ليس فيه ذكر صفتي السمع و البصر، و قيل: مناسبة الحديث للترجمة من جهة أن تعليم النبى صلى الله عليه وسلم الدعاء أبا بكر الصديق يقتضي أن الله تعالي سميع بصير.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 257/5]
حدیث سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بابت یہ کہا گیا ہے کہ اس کا باب سے تعلق نہیں ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت سمع و بصر کا ذکر نہیں ہے . . . . .۔ (جواباً) یہ کہا گیا ہے کہ حدیث کی مناسبت ترجمۃ الباب سے اس جہت کے ساتھ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تعلیم دے دی اور یہ تعلیم دینا اس کا متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے۔ (اگر وہ ان صفات کا حامل نہ ہوتا تو پھر دعا کی تعلیم دینا کوئی فائدہ مند نہ ہوتا)۔
علامہ عبدالحق رحمہ اللہ کی تطبیق کے مطابق جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دعا کی تعلیم دی وہ اس لیے دی تھی کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نمازوں میں اس دعا کو پڑھیں، جس سے بخوبی یہ اشارہ ملتا ہے کہ کوئی شخص چاہے سرا پڑھے یا جہرا ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے۔ یہیں سے حدیث کی باب سے مطابقت ہو گی، ابن المنیر رحمہ اللہ نے بھی یہی قریب قریب مناسبت دی ہے۔ [المتوري: ص 422]

علامہ کرمانی رحمہ اللہ مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«فان قلت: ما وجه تعلقه بالترجمة؟ قلت: بعض الذنوب مسموع و فى بعضها مبصر فلا يمكن مغفرته إلا بعد السماع و الأبصار، و قال بعضهم: موضع الترجمة علمني دعاء لأنه يقتضي اعتقاد كونه سميعًا لدعائه.» [الكواكب الدراري: 87/25]
اگر آپ کہیں کہ باب سے حدیث کا تعلق کس طرح سے ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو مسموع اور مبصر ہوتے ہیں، جس کی مغفرت اسی وقت ممکن ہے جب ان گناہوں کو سنا جائے یا دیکھا جائے (یعنی دعا مانگنے والا ہر دو طرح کے گناہوں کا شکار ہوتا ہے اور وہ اللہ سے معافی مانگتا ہے) اور بعض ان کے کہتے ہیں کہ ترجمۃ الباب کا موضع مناسبت اس طرح سے ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ مجھے دعاء کی تعلیم دیجئے، کیوں کہ یہ دعا اس اعتقاد کا متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کا سننے والا ہے۔

ابن الملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حدیث سیدنا ابی بکر رضی اللہ عنہ کا باب سے تعلق اس طرح سے ہے کہ وہ دعا جسے شارع علیہ السلام نے سکھائی اس اعتقاد کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سننے والا ہے اور ان پر مجازی ہے۔ [التوضيع لشرح الجامع الصحيح: 220/33]
ان تصریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ تحت الباب جو حدیث سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پیش فرمائی ہے اس میں دعا کا ذکر ہے، لہٰذا سر و جہر ہر طرح سے دعا کا سننے والا اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا اس جہت سے اللہ تعالیٰ کا سمیع اور بصیر ہونا ثابت ہوتا ہے، بعض شارحین کا کہنا یہ بھی ہے کہ باب سے حدیث کا تعلق اس جہت سے بھی ہے کہ حدیث میں مخاطب کا صیغہ موجود ہے یہ صیغہ امر اور بکاف خطاب کے لیے، لہٰذا بندہ اسی کو اپنی دعا میں مخاطب کرتا ہے جو سنتا ہے اور وہ صیغہ اسی وقت مناسبت ہو گا کہ جسے وہ پکارتا ہے وہ سننے والا اور اسے دیکھنے والا بھی ہو۔

الامام الحافظ بیہقی رحمہ اللہ اپنی کتاب الأسماء و الصفات میں فرماتے ہیں:
«السميع: من له سمع يدرك به المسموعات، و البصر: من له بصر يدرك له المرئيات، و كل منهما فى حق الباري صفة قائمة بذاته.»
یعنی سمیع وہ ہے جو ہر قسم کی مسموعات کا سننے والا ہو، اور بصیر ذات وہ ہے جو ہر قسم کی مرئیات کا ادراک کرنے والا ہو، اور ہر دو یہ صفتیں باری تعالیٰ کی ذات کے لیے قائم ہیں۔
لہذا جب نمازوں میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا جاتا ہے تو وہ ان دعاؤں کو سنتا بھی ہے اور اپنے بندوں کو دیکھتا بھی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 315   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7387  
حدیث حاشیہ:

کچھ شارحین نے کہا ہے کہ مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے سمیع اور بصیر ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
اس کا جواب علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جنھیں دیکھا یا سنا جاتا ہے اس دعا کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان گناہوں کو دیکھتا اور سنتا ہے پھر بندے کی دعا کے مطابق اس کی مغفرت عمل میں آتی ہے۔
(فتح الباري: 459/13)

اس مقام پر حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جس ذات کو پکارے والا پکارتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سمیع ہوتا کہ پکارنے والےکی پکار کو ہر آن سنے اور وہ بصیر ہو۔
تاکہ اس کی حالت کو دیکھ کر اپنی قدرت کاملہ سے اس کے مطلوب کو اس تک پہنچائے اگر وہ ایسا نہیں ہو گا۔
تو دعا کرنے والے کی پکار ضائع اور بے کار ہے۔
بندے کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرف قبولیت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سمیع بصیر، قادر زندہ اور جاننے والا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسے معبودان باطلہ کی بے بسی بایں الفاظ میں بیان کی ہے جو سنتے یا دیکھتے نہیں ہیں۔
اور اس شخص سے بڑھ کراور کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انھیں پکارے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے۔
اور وہ (اس قسم کے معبودان باطلہ تو)
ان کی دعا و پکار ہی سے بے خبرہیں۔
(الأحقاف: 5)
نیز جس سے دعا کی جائے اس کے چند ایک لوازمات حسب ذیل ہیں۔
"وجود" کیونکہ جو موجود نہ ہو اس سے دعا نہیں کی جاتی۔
"غنی" کیونکہ فقیر و محتاج سے کوئی نہیں مانگتا۔
"سمیع" کیونکہ بہرے کوکوئی نہیں پکارتا۔
"کریم" کیونکہ بخیل سے کوئی سوال نہیں کرتا۔
"رحیم" کیونکہ سنگدل سے کوئی التجانہیں کرتا۔
"قادر" کیونکہ عاجز اور بے بس کوکوئی نہیں پکارتا۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 196/1)

ان حقائق کی بنا پر مذکورہ حدیث عنوان کے عین مطابق ہے کیونکہ اس دعا میں انسان اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر عرض کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہونا اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ سنتا دیکھتا اور حاضرہو۔
بصورت دیگر غائب کوکون مخاطب کرتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7387