ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر بن راشد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ جب وہ آخری حج آیا جو عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا تو عبدالرحمٰن نے منیٰ میں مجھ سے کہا کاش تم امیرالمؤمنین کو آج دیکھتے جب ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ فلاں شخص کہتا ہے کہ اگر امیرالمؤمنین کا انتقال ہو جائے تو ہم فلاں سے بیعت کر لیں گے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آج سہ پہر کو کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سناؤں گا اور ان کو ڈراؤں کا جو (عام مسلمانوں کے حق کو) غصب کرنا چاہتے ہیں اور خود اپنی رائے سے امیر منتخب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہ کریں کیونکہ موسم حج میں ہر طرح کے ناواقف اور معمولی لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کثرت سے آپ کی مجلس میں جمع ہو جائیں گے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ آپ کی بات کا صحیح مطلب نہ سمجھ کر کچھ اور معنیٰ نہ کر لیں اور اسے منہ در منہ اڑاتے پھریں۔ اس لیے ابھی توقف کیجئے۔ جب آپ مدینے پہنچیں جو دار الہجرت اور دار السنہ ہے تو وہاں آپ کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ، مہاجرین و انصار خالص ایسے ہی لوگ ملیں گے وہ آپ کی بات کو یاد رکھیں گے اور اس کا مطلب بھی ٹھیک بیان کریں گے۔ اس پر امیرالمؤمنین نے کہا کہ واللہ! میں مدینہ پہنچ کر جو پہلا خطبہ دوں گا اس میں اس کا بیان کروں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینے آئے تو عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن دوپہر ڈھلے برآمد ہوئے اور خطبہ سنایا۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر قرآن اتارا، اس قرآن میں رجم کی آیت بھی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: 7323]
لأقومن العشية فأحذر هؤلاء الرهط الذين يريدون أن يغصبوهم قلت لا تفعل فإن الموسم يجمع رعاع الناس يغلبون على مجلسك فأخاف أن لا ينزلوها على وجهها فيطير بها كل مطير فأمهل حتى تقدم المدينة دار الهجرة ودار السنة فتخلص بأصحاب رسول الله
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7323
حدیث حاشیہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خلافت سے متعلق فرمانے کا مطلب یہ تھا کہ امر خلافت میں رائے دینے کا حق سارے مسلمانوں کو ہے۔ پس جس پر اکثر لوگ اتفاق کرلیں اس سے بیعت کر لینا چاہیے۔ پس یہ کہنا غلط ہے کہ ہم فلاں سے بیعت کر لیں گے۔ بیعت کر لینا کوئی کھیل تماشا نہیں ہے‘ یہ مسلمانوں کے جمہور کا حق ہے۔ خلیفۃ المسلمین کا انتخاب معمولی بات نہیں ہے۔ اس روایت کی باب سے مطابقت یہ ہے کہ اس میں مدینہ کی فضیلت مذکور ہے کہ وہ دار السنۃ ہے۔ کتاب وسنت کا گھر ہے تو وہاں کے علماء کا اجماع بہ نسبت اور شہروں کے زیادہ معتبر ہوگا۔ حافظ نے کہا کہ صحابہ کا اجماع بھی حجت ہے یا نہیں اس میں بھی اختلاف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7323
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7323
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر مذکورہ حدیث انتہائی اختصار سے بیان کی ہے، مفصل حدیث پہلے بیان ہوچکی ہے۔ (حدیث: 6830) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ امر خلافت کے متعلق رائے دینے کا حق تمام مسلمانوں کو ہے جسے مسلمان اختیار کرلیں اس کی بیعت کرلی جائے، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں کی وفات کے بعد ہم فلاں کی بیعت کر لیں گے۔ خلیفے کا انتخاب کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کا اجتماعی حق ہے۔ اس حدیث میں مدینہ طیبہ کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ وہ کتاب وسنت کا گھر ہے۔ ایک روایت میں اس وقت اہل مدینہ کی ان الفاظ میں تعریف بیان ہوئی ہے کہ وہاں زیرک، سمجھدار، دانا صاحب بصیرت اور صاحب علم وفضل لوگ ہوں گے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3928) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے کہ حرمین کے علماء کا اجماع دوسرے شہروں کے علماء کے اجماع کے مقابلے میں زیادہ معتبر ہوگا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بعد اگر اہل مدینہ کسی مسئلے پر اتفاق کر لیں تو ان کی بات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہوگی، ہاں اگرنص صریح کے خلاف اجماع ہوا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ (فتح الباري: 375/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7323