ہم سے عیاش بن الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید طویل نے، ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری دنوں میں صوم وصال رکھا تو بعض صحابہ نے بھی صوم وصال رکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس مہینے کے دن اور بڑھ جاتے تو میں اتنے دن متواتر وصال کرتا کہ ہوس کرنے والے اپنی ہوس چھوڑ دیتے، میں تم لوگوں جیسا نہیں ہوں۔ میں اس طرح دن گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ اس روایت کی متابعت سلیمان بن مغیرہ نے کی، ان سے ثابت نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا جو اوپر مذکور ہوا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّمَنِّي/حدیث: 7241]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7241
حدیث حاشیہ: یعنی حقیقت میں جنت کا کھانا پانی اس صورت میں آپ کا وصالی روزہ ظاہری ہوگا نہ کی حقیقت میں۔ مگر بعض نے کہا کہ کھانے پینے سے مجازی معنی مراد ہے کہ وہ مجھ کو قوت دیتا رہتا ہے جو تم کو کھانے پینے سے حاصل ہوتی ہے۔ صوم ومال اس روزے کو کہتے ہیں جس میں افطار وسحر کے وقت میں بھی نہیں کھایا جاتا اور روزے کو مسلسل جاری رکھا جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7241
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 778
´افطار کیے بغیر مسلسل روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صوم وصال ۱؎ مت رکھو“، لوگوں نے عرض کیا: آپ تو رکھتے ہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 778]
اردو حاشہ: 1؎: صوم وصال یہ ہے کہ آدمی قصداً دو یا دو سے زیادہ دن تک افطار نہ کرے، مسلسل روزے رکھے نہ رات میں کچھ کھائے پیئے اور نہ سحری ہی کے وقت، صوم وصال نبی اکرم ﷺ کے لیے جائز تھا لیکن امت کے لیے جائز نہیں۔
2؎: ”میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے“ اسے جمہور نے مجازاً قوت پر محمول کیا ہے کہ کھانے پینے سے جو قوت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ قوت مجھے یوں ہی بغیر کھائے پیے دے دیتا ہے، اور بعض نے اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوے کھانے پینے سے جنت کا کھانا پینا مراد لیا ہے، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے معارف کی ایسی غذا کھلاتا ہے جس سے آپ کے دل پر لذت سرگوشی ومناجات کا فیضان ہوتا ہے، اللہ کے قرب سے آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے اور اللہ کی محبت کی نعمت سے آپ کو سرشاری نصیب ہوتی ہے اور اس کی جناب کی طرف شوق میں افزونی ہوتی ہے، یہ ہے وہ غذا جو آپ کو اللہ کی جانب سے عطا ہوتی ہے، یہ روحانی غذا ایسی ہے جو آپ کو دنیوی غذا سے کئی کئی دنوں تک کے لیے بے نیاز کر دیتی تھی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 778
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2571
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے شروع میں وصال کیا تو کچھ مسلمانوں نے بھی وصال کرنا شروع کر دیا۔ آپﷺ تک بھی اطلاع پہنچ گئی۔ تو آپﷺ نے فرمایا: اگر ہمارا ماہ طویل کر دیا جاتا تو ہم اس اندازسے وصال کرتے کہ انتہا پسند اپنی انتہا پسندی سے رک جائے، تم میرے جیسے نہیں ہو، یا فرمایا: میں تمھارے مثل نہیں ہوں کیونکہ میں دن اس حال میں گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2571]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) التَعَمِّقُ: عمق و گہرائی میں اترنا، معاملہ میں مبالغہ، شدت اور انتہا پسندی اختیار کرنا۔ حد سے تجاوز کرنا۔ اول شهر رمضان راوی کا وہم ہے کیونکہ یہ بعد والے الفاظ سے مناسبت اور مطابقت نہیں رکھتا، اور مذکورہ بالا روایت کے بھی مخالف ہے۔ اس لیے یہاں بھی في آخر شهر رمضان ہونا چاہیے، جیسا کہ بعض نسخوں میں ہے۔ (2) أَظَلُّ: میں دن گزارتا ہوں۔ ابيت: میں رات گزارتا ہوں۔ (3) تمادلنا: مدلنا: لمبا ہو جاتا دن بڑھ جاتے۔