ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، انہوں نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میری امت میں) بارہ امیر ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی، بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ وہ سب کے سب قریش خاندان سے ہوں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7223]
لا يزال الدين قائما حتى تقوم الساعة يكون عليكم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش عصيبة من المسلمين يفتتحون البيت الأبيض بيت كسرى أو آل كسرى بين يدي الساعة كذابين فاحذروهم إذا أعطى الله أحدكم خيرا فليبدأ بنفسه وأهل بيته
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7223
حدیث حاشیہ: دوسری روایت میں ہے یہ دین برابر عزت سے رہے گا، بارہ خلیفوں کے زمانہ تک۔ ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ یہ دین برابر قائم رہے گا، یہاں تک کہ تم پر بارہ خلیفے ہوں گے اور سب پر اتفاق کرے گی۔ یہ بارہ خلیفے آنحضرتﷺ کی امت میں گزر چکے ہیں۔ حضرت صدیق سے لے کر عبدالعزیز تک چودہ شخص حاکم ہوئے ہیں۔ ان میں سے دو کا زمانہ بہت قلیل رہا۔ ایک معاویہ بن یزید، دوسرے مروان کا۔ ان کو نکال ڈالو تو وہی بارہ خلیفہ ہوتے ہیں جنہوں نے بہت زور شور کے ساتھ خلافت کی۔ عمر بن عبدالعزیز کے بعد پھر زمانہ کا رنگ بدل گیا اور حضرت حسن اور عبداللہ بن زبیر پر گو سب لوگ جمع نہیں ہوئے تھے مگر اکثر لوگ تو پہلے جمع ہوگئے اس لیے ان دونوں صاحبوں کی بھی خلافت حق اور صحیح ہے۔ امامیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ بارہ امام مراد ہیں یعنی حضرت علی سے لے کر جناب محمد بن حسن مہدی تک مگر اس میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ حضرت حسن کے بعد پھر کسی امام پر لوگ جمع نہیں ہوئے نہ ان کو شوکت اور حکومت حاصل ہوئی بلکہ اکثر جان کے ڈر سے چھپے رہے تو یہ لوگ اس حدیث سے کیسےمراد ہوسکتے ہیں۔ واللہ أعلم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7223
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7223
حدیث حاشیہ: 1۔ صحیح بخاری کی یہ روایت انتہائی مختصر ہے کیونکہ اس میں بارہ خلفاء کے اوصاف بیان نہیں ہوئے، صرف یہی ذکر ہوا ہے کہ وہ خاندان قریش سے ہوں گے۔ دیگر روایات سے پتا چلتا ہے کہ ان کے دورامارت میں اسلام خوب پھلے پھولے گا اور اسے غلبہ ہوگا اور اس کے ماننے والوں کی مخالفت ہوگی لیکن انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ (صحیح مسلم، الأمارة، حدیث: 4708(1821) اس حدیث میں دو باتیں مزید بیان کی جاتی ہیں جو سند کے اعتبار سے صحیح نہیں:
۔ ان خلفاء پر امت کا اتفاق ہوگا۔
۔ ان کے بعد قتل وغارت ہوگا جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق تفصیل سے لکھاہے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، رقم: 376) 2۔ ان خلفاء کی تعین کے متعلق بہت اختلاف ہے، اس لیے ہم نے دانستہ اس سے پہلوتہی کی ہے، البتہ شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ ان سے مراد ان کے مزعومہ بارہ امام ہیں جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شروع ہوکر محمد بن حسن مہدی پر ختم ہوتے ہیں لیکن یہ اس لیےغلط ہے کہ ان کے دورحکومت میں اسلام کی کوئی شان وشوکت نہیں ملی بلکہ ان میں سے اکثر اپنی جان بچانے کے لیے چھپے رہے۔ ہمارے نزدیک شیعہ کا یہ موقف مبنی برحقیقت نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7223
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4710
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، میں اپنے باپ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”یہ دین غالب اور محفوظ رہے گا، یہاں تک کہ بارہ خلیفہ ہو جائیں گے۔“ اور آپ نے ایک بات کہی، جو لوگوں (کے شور) نے مجھے سننے نہیں دی، تو میں نے اپنے باپ سے پوچھا، آپ نے کیا فرمایا؟ اس نے کہا، آپﷺ نے فرمایا: ”سب قریش میں سے ہوں گے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4710]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مَنِيعً: قوت وزوروالا، محفوظ۔ (2) صَمَّنِيهَا النَّاسُ: لوگوں نے مجھے اس سے بہرہ کردیا، یعنی لوگوں کے شور کی وجہ سے میں اسے سن نہ سکا۔