حدیث حاشیہ: 1۔
عنوان یہ ہے کہ مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ کر وہاں مسجد بنانا جائز ہے اور دلیل یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مقابر کو مساجد بنانا ناجائز ہے۔
ان کی قبروں کو مساجد بنانے کی دوصورتیں ممکن ہیں:
۔
قبروں کو اکھاڑانہ جائے بلکہ انھیں باقی رکھ کر مسجد بنادی جائے۔
اس صورت میں بت پرستی سے مشابہت ہوگی، جوناجائز ہے۔
۔
قبروں کو اکھاڑ کرمسجد بنائی جائے۔
اس صورت میں قبور انبیاء علیہم السلام کی اہانت لازم آگئے گی، لہذا یہ صورت بھی ناجائز ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے مقابرکو مساجد بنانا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔
اس کے برعکس مشرکین وکفار کی قبروں کو مساجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ انھیں اکھاڑ کر جو کچھ ان سے برآمد ہوا سے باہر پھینک دیا جائے اور صاف زمین پر مسجد تعمیر کی جائے۔
کفار ومشرکین کی قبروں کو اکھاڑنا جائز ہے، کیونکہ ان کی اہانت ممنوع نہیں، نیز
(وما يكره من الصلاة في القبور) عنوان کا دوسرا جز نہیں بلکہ مشرکین کی قبروں کو مساجد میں تبدیل کرنے کی دوسری دلیل یا علت ہے اور اس کا عطف قول پر ہے۔
عنوان کے معنی یہ ہوں گے:
کیا مشرکین کی قبور کو اکھاڑ کر مساجد بنادیاجائے۔
کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قبور انبیاء علیہم السلام کو مساجد بنانے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور اس لیے کہ قبروں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
(وما يكره من الصلاة في القبور) عنوان کا دوسرا جز نہیں، اس لیے کہ قبروں میں نماز مکروہ ہونے کے متعلق امام بخاری ؒ آئندہ ایک عنوان قائم کررہےہیں جس کے الفاظ یہ ہیں:
(باب كراهية الصلاة في المقابر) (صحیح البخاري، الصلاة، باب: 52) اگر
(وما يكره من الصلاة في القبور) کو عنوان کا جز تسلیم کیاجائے تو ابواب کا تکرار ہوتا ہے جو اصولاً درست نہیں، کیونکہ اگر تراجم کی غرض ایک ہوتو الفاظ کی تبدیلی سے بھی تکرار ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر الفاظ ایک ہوں اور اغراض الگ الگ ہوں تو یہ تکرار نہیں ہوتا لیکن یہاں دونوں ابواب کی غرض ایک ہے اور الفاظ بھی تقریباً ملتے جلتے ہیں۔
اس طرح کا تکرار تراجم بخاری میں نہیں ہے، لہذا
(وما يكره من الصلاة في القبور) کو عنوان علت قراردیا جائے گا، اسے عنوان کا جز نہیں بنایا جائے گا۔
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس جگہ مسجد نبوی تعمیر کی گئی ہے وہاں پہلے مشرکین کا قبرستان تھا اور یہ قبرستان بنو نجار کی ملکیت تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔
ابتداء میں ان حضرات نے قیمت لینے سے انکار کردیا، تاہم اس کی قیمت ادا کرکے اسے خرید لیا گیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قبرستان اگروقف نہ ہو بلکہ کسی کی ملکیت ہوتو اسے فروخت یاہبہ کرنا جائز ہے۔
اس کے برعکس اگروقف ہوتواس کی خریدوفروخت یا اسے کسی دوسرے کو ہبہ کرنا جائز نہیں۔
3۔
حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ بیضاوی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہودونصاریٰ قبور انبیاء علیہم السلام کو سجدہ تعظیمی کرتے اور انھیں قبلہ بناتے تھے، یعنی ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، اس لیے ان پر لعنت کی گئی، اگر کسی صالح بزرگ کے قرب میں محض برکت سے کے خیال سے مسجد بنائی جائے تووعید میں داخل نہ ہوگی۔
(فتح الباري: 680/1) اس کا مطلب یہ ہے کہ ممانعت نبوی صرف اس خطرے کے پیش نظر ہے کہ قبر کو وثن اور بت نہ بنالیا جائے، لیکن ان کے نزدیک اگرا س بات کا اندیشہ نہ ہو تو ممانعت کی کوئی وجہ نہیں۔
ہمیں افسوس ہے کہ حافظ ا بن حجر ؒ جیسے حساس شخص نے اس رائے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، حالانکہ گزشتہ قوموں میں شرک باللہ اور توسل بغیر اللہ کے لیے چور دروازہ یہاں سے ہی کھلتارہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس مسئلے کی نزاکت کے پیش نظر بڑی شدت کے ساتھ اس کی تردید فرمائی کہ یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنھوں نے انبیاء علیہم السلام وصالحین کی قبروں پر مساجد تعمیر کرلیں اور یہ بھی فرمایا کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مرجاتاتو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے تھےاور اس میں اس کی تصاویر آویزاں کردیتے تھے۔
یہی لوگ قیامت کے دن بدترین انسان ہوں گے۔
قرآن کریم نے اس قسم کی ذہنیت کے حامل لوگوں کی بات نقل کی ہے کہ اصحاب کہف کے مرنے کے بعد لوگوں نے طے کیا کہ انھیں اپنے حال پر چھوڑدیا جائے اور غار کا دروازہ بندکردیا جائے، لیکن شہر کے بااثر لوگوں نے برملاکہا کہ ہم ان کی یادگار کے طور پر ان کی قبروں پر مسجد بنائیں گے۔
(الکھف: 21: 18) ان کامقصد بھی غالباً یہی تھا کہ ہم ان کے اجسام اور ان کی تربت سے برکت کے لیے اس مسجد میں نمازیں پڑھیں گے،اس لیے حافظ ا بن حجر ؒ کی نقل کردہ رائے صحیح نہیں۔