اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حاکموں سے یہ عہد لیا ہے کہ خواہشات نفس کی پیروی نہ کریں اور لوگوں سے نہ ڈریں (آیت قرآنی) «ولا تشتروا بآياتي ثمنا قليلا»”اور میری آیات کو معمولی قیمت کے بدلے میں نہ بیچیں“ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی «يا داود إنا جعلناك خليفة في الأرض فاحكم بين الناس بالحق ولا تتبع الهوى فيضلك عن سبيل الله إن الذين يضلون عن سبيل الله لهم عذاب شديد بما نسوا يوم الحساب»”اے داؤد! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے، پس تم لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہش نفسانی کی پیروی نہ کرو کہ وہ تم کو اللہ کے راستے سے گمراہ کر دے۔ بلاشبہ جو لوگ اللہ کے راستہ سے گمراہ ہو جاتے ہیں ان کو قیامت کے دن سخت عذاب ہو گا بوجہ اس کے جو انہوں نے حکم الٰہی کو بھلا دیا تھا۔“ اور امام حسن بصری نے یہ آیت تلاوت کی «إنا أنزلنا التوراة فيها هدى ونور يحكم بها النبيون الذين أسلموا للذين هادوا والربانيون والأحبار بما استحفظوا، استودعوا، من كتاب الله وكانوا عليه شهداء فلا تخشوا الناس واخشون ولا تشتروا بآياتي ثمنا قليلا ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون»”بلاشبہ ہم نے توریت نازل کی، جس میں ہدایت اور نور تھا اس کے ذریعہ انبیاء جو اللہ کے فرمانبردار تھے، فیصلہ کرتے رہے۔ ان لوگوں کے لیے انہوں نے ہدایت اختیار کی اور پاک باز اور علماء (فیصلہ کرتے ہیں) اس کے ذریعہ جو انہوں نے کتاب اللہ کو یاد رکھا اور وہ اس پر نگہبان ہیں۔ پس لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ہی ڈرو اور میری آیات کے ذریعہ دنیا کی تھوڑی پونجی نہ خریدو اور جو اللہ کے نازل کئے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے تو وہی منکر ہیں۔“ «بما استحفظوا، استودعوا، من كتاب الله» اور امام حسن بصری نے سورۃ انبیاء کی یہ آیت بھی تلاوت کی «وداود وسليمان إذ يحكمان في الحرث إذ نفشت فيه غنم القوم وكنا لحكمهم شاهدين * ففهمناها سليمان وكلا آتينا حكما وعلما»”(اور یاد کرو) داؤد اور سلیمان کو جب انہوں نے کھیتی کے بارے میں فیصلہ کیا جب کہ اس میں ایک جماعت کی بکریاں گھس پڑیں اور ہم ان کے فیصلہ کو دیکھ رہے تھے۔ پس ہم نے فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو نبوت اور معرفت دی تھی۔“ پس سلیمان علیہ السلام نے اللہ کی حمد کی اور داؤد علیہ السلام کو ملامت نہیں کی۔ اگر ان دو انبیاء کا حال جو اللہ نے ذکر کیا ہے نہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ قاضی تباہ ہو رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی تعریف ان کے علم کی وجہ سے کی ہے اور داؤد علیہ السلام کو ان کے اجتہاد میں معذور قرار دیا اور مزاحم بن زفر نے کہا کہ ہم سے عمر بن عبدالعزیز نے بیان کیا کہ پانچ خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر قاضی میں ان میں سے کوئی ایک خصلت بھی نہ ہو تو اس کے لیے باعث عیب ہے۔ اول یہ کہ وہ دین کی سمجھ والا ہو، دوسرے یہ کہ وہ بردبار ہو، تیسرے وہ پاک دامن ہو، چوتھے وہ قوی ہو، پانچویں یہ کہ عالم ہو، علم دین کی دوسروں سے بھی خوب معلومات حاصل کرنے والا ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: Q7163-2]
اور قاضی شریح قضاء کی تنخواہ لیتے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ (یتیم کا) نگراں اپنے کام کے مطابق خرچہ لے گا اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بھی (خلیفہ ہونے پر) بیت المال سے بقدر کفایت تنخواہ لی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: Q7163]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں نمر کے بھانجے سائب بن یزید نے خبر دی، انہیں حویطب بن عبدالعزیٰ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن السعیدی نے خبر دی کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں آئے تو ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا مجھ سے یہ جو کہا گیا ہے وہ صحیح ہے کہ تمہیں لوگوں کے کام سپرد کئے جاتے ہیں اور جب اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینا پسند نہیں کرتے؟ میں نے کہا کہ یہ صحیح ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارا اس سے مقصد کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں خوشحال ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو کیونکہ میں نے بھی اس کا ارادہ کیا تھا جس کا تم نے ارادہ کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطا کرتے تھے تو میں عرض کر دیتا تھا کہ اسے مجھ سے زیادہ اس کے ضرورت مند کو عطا فرما دیجئیے۔ آخر آپ نے ایک مرتبہ مجھے مال عطا کیا اور میں نے وہی بات دہرائی کہ اسے ایسے شخص کو دے دیجئیے جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لو اور اس کے مالک بننے کے بعد اس کا صدقہ کرو۔ یہ مال جب تمہیں اس طرح ملے کہ تم اس کے نہ خواہشمند ہو اور نہ اسے مانگا تو اسے لے لیا کرو اور اگر اس طرح نہ ملے تو اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7163]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7163
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حکومت اورقضا کی تنخواہ بقدر کفایت لینا جائز ہے کیونکہ لوگوں کے کاموں اور ان کے متعلق فیصلے کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے مدارس کے لیے چندہ جمع کرنے پر جو سفیر مقرر ہوتے ہیں وہ عاملین کی فہرست میں آتے ہیں ان کی تنخواہیں مقرر ہونی چاہئیں اور یہ حضرات مال دار لوگوں سے جو کچھ وصول کریں اسے دیانت داری کے ساتھ مدرسے کے بیت المال میں جمع کرادیں لیکن ہمارےہاں جمع شدہ چندے سے شرح فیصدطے ہوتا ہے ایسا کرنا محل نظر ہے کیونکہ یہ اجارہ مجہولہ کی ایک قسم ہے جسے شریعت نے جائز قراردیا۔ واللہ اعلم۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابن منذر کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ منصب قضا پر تنخواہ وصول کرتے تھے۔ (فتح الباری: 13/191)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7163