مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 19
´فتنہ و فساد میں سب سے یکسوئی بہتر ہے`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ، يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ . . .»
”. . . ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا (سب سے) عمدہ مال (اس کی بکریاں ہوں گی)۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/بَابُ مِنَ الدِّينِ الْفِرَارُ مِنَ الْفِتَنِ:: 19]
� تشریح:
مقصد حدیث یہ ہے کہ جب فتنہ و فساد اتنا بڑھ جائے کہ اس کی اصلاح بظاہر ناممکن نظر آنے لگے تو ایسے وقت میں سب سے یکسوئی بہتر ہے۔ فتنہ میں فسق و فجور کی زیادتی، سیاسی حالات اور ملکی انتظامات کی بدعنوانی، یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ جن کی وجہ سے مرد مومن کے لیے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت دشوار ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں اگر محض دین کی حفاظت کے جذبے سے آدمی کسی تنہائی کی جگہ چلا جائے۔ جہاں فتنہ و فساد سے بچ سکے تو یہ بھی دین ہی کی بات ہے اور اس پر بھی آدمی کو ثواب ملے گا۔
حضرت امام کا مقصد یہی ہے کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے سب سے یکسوئی اختیار کرنے کا عمل بھی ایمان میں داخل ہے۔ جو لوگ اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قرار دیتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں ہے۔
بکری کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اس پر انسان آسانی سے قابو پا لیتا ہے اور یہ انسان کے لیے مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ یہ بہت ہی غریب اور مسکین جانور ہے۔ اس کو جنت کے چوپایوں میں سے کہا گیا ہے۔ اس سے انسان کو نفع بھی بہت ہے۔ اس کا دودھ بہت مفید ہے۔ جس کے استعمال سے طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیز اس کی نسل بھی بہت بڑھتی ہے۔ اس کی خوراک کے لیے بھی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جنگلوں میں اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے۔ بہ آسانی پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتی ہے۔ اس لیے فتنے فساد کے وقت پہاڑوں جنگلوں میں تنہائی اختیار کر کے اس مفید ترین جانور کی پر ورش سے گزران معیشت کرنا مناسب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور پیشین گوئی فرمایا تھا۔ چنانچہ تاریخ میں بہت پرفتن زمانے آئے اور کتنے ہی بندگان الٰہی نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے آبادی سے ویرانوں کو اختیار کیا۔ اس لیے یہ عمل بھی ایمان میں داخل ہے کیونکہ اس سے ایمان و اسلام کی حفاظت مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 19
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3600
3600. حضر ت ابوصعصعہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کی مجھے ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھیں بکریوں سے بہت محبت ہے اور تم انھیں پالتے ہوتو ان کی نگہداشت اچھی طرح کیا کرو اور ان کی بیماری کا بھی خیال رکھو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک ایسا دورآئے گا کہ مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس ک بکریاں ہوں گی جنھیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر چڑھ جائے گا یا وہ بارش برسنے کے مقامات میں چلاجائےگا، الغرض اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3600]
حدیث حاشیہ:
عہد نبوت کے بعد جو خانگی فتنے مسلمانوں میں پیدا ہوئے ان سے حضور صلی ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3600
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6495
6495. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں مسلمان آدمی کا بہترین مال بکریاں ہوں گی۔ وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر لے جائے گا۔ وہ اس زمانے میں برپا فتنوں سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6495]
حدیث حاشیہ:
آج کی دور میں ایسی آزادانہ چوٹیاں بھی نابود ہو گئی ہیں اب ہر جگہ خطرہ ہے۔
اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو کہتے ہیں عزلت بہتر ہے کبھی لوگوں سے مل کر رہنا بہتر ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ عزلت کرنے والا شخص شہرت اور ریاونمود کی نیت سے عزلت نہ کرے بلکہ گناہوں سے بچنے کی نیت اور جمعہ جماعت فرائض اسلام ترک نہ کرے زیادہ تفصیل احیاء العلوم میں ہے (مذکورہ احادیث اور ان جیسی دوسرے احادیث میں جو عزلت کی ترغیب اور فضیلت بیان ہوئی ہے اس سے فتنوں کا زمانہ مراد ہے اور ماحول میں لوگوں سے ملنے کی صورت میں گناہوں سے بچنا مشکل ہو۔
ورنہ اسلام عام حالت میں تعلق جوڑنے اور آبادی بڑھانے کا حکم دیتا ہے۔
کیونکہ آپ سوچیں کہ تیمار داری کا ثواب، سلام کرنے، صلہ رحمی کا ثواب وغیرہ یہ جملہ نیکیاں تب ممکن ہیں جب آبادی میں رہائش ہوگی۔
عبد الرشید تونسی)
عزلت کے معنیٰ لوگوں سے الگ تھلگ تنہا دور رہنے کے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6495
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:19
19. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ زمانہ قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات کی طرف نکل جائے گا اور فتنوں سے راہ فرار اختیار کر کے اپنے دین کو بچا لے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:19]
حدیث حاشیہ:
1۔
فتنے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان گمراہ ہوکر اللہ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے غافل ہو جائے۔
ہمارے اس دور میں ایسے فتنوں کا ہجوم ہے جو گمراہی اور دین سے بے زاری کا سبب بنتے ہیں ایسے حالات میں گوشہ تنہائی اختیار کرنا بہتر ہے اگرانسان میں ایسے دجالی فتنوں کا مقابلہ کرنے کی علمی، عملی اور اخلاقی ہمت ہو تو معاشرے میں رہتے ہوئے ان کی روک تھام میں کوشاں رہنا افضل ہے۔
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پرُفتن دور میں مکہ مکرمہ، اس کے بعد مدینہ منورہ میں اقامت اختیار فرمائی۔
واضح رہے کہ فرار کے تین مرتبے ہیں۔
(1)
فرار من دارالکفر۔
(2)
فرار من دارالفسق۔
(3)
فرار من مجلس المعاصی۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے تمام لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنا اچھا عمل ہے اور ایساکرنا ایمان کاحصہ ہے۔
جولوگ اس طرح کے اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قراردیتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں ہے۔
3۔
اس حدیث میں بکریوں کو بہترین مال قراردیا گیا ہے کیونکہ ان کی پرورش بہت آسان ہوتی ہے لیکن ان سے نفع بہت ہوتا ہے ان کا دودھ حفظان صحت کے لیے بہت مفید ہے، اس کے استعمال سے گرانی پیدا نہیں ہوتی۔
بکری کی نسل بہت بڑھتی ہے، جنگلات میں خوراک کے لیے انتظام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے باآسانی پہاڑوں پر چڑھ جاتی ہے، اس بنا پر پُرفتن دور میں پہاڑوں اور جنگلات میں تنہائی اختیار کر کے اس مفید ترین جانور کی پرورش سے گزر اوقات کرنا مناسب ہے۔
(شرح الکرماني: 110/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 19
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3300
3300. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عنقریب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کی وادیوں میں لے کر چلا جائے گا، اس طرح وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3300]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒکے قائم کردہ عنوان دوطرح کے ہیں:
ایک تو بنیادی ہیں جو اصل مقصود ہیں اور دعویٰ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دوسرے اضافی ہیں جو اصل مقصود نہیں بلکہ حدیث میں کسی اضافی فائدے کے پیش نظر قائم کیے جاتے ہیں، چنانچہ اس مقام پر بنیادی عنوان کا مقصد یہ ہے کہ ان آیات واحادیث کاذکر کیاجائے جن میں مختلف حیوانات کاذکرآیا ہے، البتہ بعض احادیث میں اس قدر سے زائد فائدہ تھا تو اس پر آپ نے عنوان قائم کرکے متنبہ فرمایا ہے۔
مذکورہ عنوان بھی اسی قبیل سے ہے۔
کہ اصل مقصد تو بکریوں کا ذکر تھا لیکن بکریاں رکھنے میں خیر و برکت کا پہلو بیان کرنے کے لیے مذکورہ اضافی عنوان قائم کیا گیا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3300
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3600
3600. حضر ت ابوصعصعہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کی مجھے ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھیں بکریوں سے بہت محبت ہے اور تم انھیں پالتے ہوتو ان کی نگہداشت اچھی طرح کیا کرو اور ان کی بیماری کا بھی خیال رکھو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک ایسا دورآئے گا کہ مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس ک بکریاں ہوں گی جنھیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر چڑھ جائے گا یا وہ بارش برسنے کے مقامات میں چلاجائےگا، الغرض اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3600]
حدیث حاشیہ:
1۔
عہد نبوت کے بعد مسلمانوں میں جو خانگی فتنے پیدا ہوئے اس حدیث میں ان کی طرف اشارہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔
2۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں تک ہو سکے انسان کو چاہیے کہ وہ فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے بھاگ نکلے کیونکہ ان فتنوں کا شر تعلق کے اعتبار سے ہو گا جس قدر جس کا تعلق ہو گا اسی قدر فتنے اور آزمائش میں مبتلا ہو گا لہٰذا ان سے بے تعلق رہنے کا واحد حل یہ ہے کہ ان سے دور رہنے کے لیے کنارہ کشی کرے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3600
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6495
6495. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں مسلمان آدمی کا بہترین مال بکریاں ہوں گی۔ وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر لے جائے گا۔ وہ اس زمانے میں برپا فتنوں سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6495]
حدیث حاشیہ:
(1)
دور حاضر میں ایسی آزادانہ پہاڑوں کی چوٹیاں ناپید ہیں۔
اب تو ہر جگہ خطرہ ہی خطرہ ہے، تاہم اپنے دین اسلام کو بچانے کے لیے علیحدہ گھر ہی اس انسان کے لیے بہتر ہے جو شہرت اور نمودونمائش کا طالب نہ ہو، بلکہ صرف گناہوں سے محفوظ رہنا مقصود ہو، نیز جمعہ، جماعت اور دیگر فرائض اسلام بھی ترک نہ کرے۔
(2)
واضح رہے کہ فتنوں سے مراد ایسے حالات ہیں کہ لوگوں سے ملنے کی صورت میں انسان کے دین کو خطرہ ہو، بصورت دیگر اپنے ماحول اور معاشرے میں رہنا ہی بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
”جو مومن لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور نہ ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر ہی کرتا ہے۔
“ (سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 4032) (3)
لوگوں سے میل جول میں اچھے برے ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔
معاشرے میں برائی زیادہ ہو جائے تب بھی الگ تھلگ ہو جانا اچھا نہیں بلکہ معاشرے میں رہ کر اصلاح کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تیمارداری کا ثواب، سلام کرنے اور صلہ رحمی کا اجر اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان معاشرے میں رہے گا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6495