ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں ایک سونے کا محل مجھے نظر آیا۔ میں نے پوچھا یہ کس کا ہے؟ کہا کہ قریش کے ایک شخص کا۔ اے ابن الخطاب! مجھے اس کے اندر جانے سے تمہاری غیرت نے روک دیا ہے جسے میں خوب جانتا ہوں۔“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّعْبِيرِ/حدیث: 7024]
أتيت الجنة فأبصرت قصرا فقلت لمن هذا قالوا لعمر بن الخطاب فأردت أن أدخله فلم يمنعني إلا علمي بغيرتك قال عمر بن الخطاب يا رسول الله بأبي أنت وأمي يا نبي الله أوعليك أغار
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7024
حدیث حاشیہ: 1۔ ابن قتیبہ اور علامہ خطابی نے اس حدیث کے لفظ (تَتَوَضَّاءُ) پر اعتراض کیا ہے کہ اس میں تحریف ہوئی ہے یہ اصل میں (شوهاء) ہے جس کے معنی خوبصورت کے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ جنت دار تکلیف نہیں کہ وہاں وضو کرنے کی ضرورت ہو۔ لیکن یہ اعتراض برمحل نہیں کیونکہ وہ عورت اس لیے وضو کرتے ہوئے دکھائی گئی تاکہ اس کا حسن دوبالا ہو اور اس کے نور میں اضافہ ہو۔ وہ میل کچیل دور کرنے کرنے کے لیے وضو نہیں کرتی تھیں کیونکہ جنت اس سے پاک ہے۔ اس بنا پر ان بزرگوں کا صحیح بخاری کے الفاظ پر اعتراض درست نہیں۔ 2۔ علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ کہ تتوضأ کا لفظ وضاءة سے مشتق ہے جس کے معنی نظافت و لطافت کے ہیں وضو سے بھی مشتق ہو سکتا ہے اور جنت کا دار تکلیف نہ ہونا اس امر سے مانع نہیں کیونکہ ہو سکتا ہےکہ یہ وضو بطور تکلیف نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 519/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7024
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5226
5226. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں جنت کے اندر داخل ہوا یا جنت میں پہنچا تو وہاں میں نے ایک محل دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں کے کہا: ”یہ محل سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا ہے۔ میں نے چاہا اس کے اندر جاؤں لیکن رک گیا کیونکہ تمہاری غیرت کا مجھے علم تھا۔“ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اے اللہ کے نبی! ”کیا میں نے آپ پر غیرت کرنا تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5226]
حدیث حاشیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام امت کے لئے پدر بزگوار کی طرح تھے اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تو آپ داماد بھی تھے، داماد سسر کا عزیز خاص ہوتا ہے، اس میں یہاں غیرت کا سوال ہی نہ تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5226