´مدبر، مکاتب اور ام ولد کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے اپنا ایک غلام مرتے وقت آزاد کر دیا۔ اس کی ملکیت صرف یہی مال تھا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کون ہے جو اس غلام کہ مجھ سے خریدتا ہے۔“ نعیم بن عبداللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا (بخاری و مسلم) اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں ” پس وہ محتاج ہوا۔“ اور نسائی کی روایت میں ہے کہ ” اس پر قرض تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آٹھ سو درہم کے عوض فروخت کیا اور اسے دے کر فرمایا اپنا قرض ادا کر۔“ «بلوغ المرام/حدیث: 1229»
تخریج: «أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع المزايدة، حديث:2141، ومسلم، الأيمان، باب جواز بيع المدبر، حديث:997، بعد حديث:1668، والنسائي، الزكاة، حديث:2547.»
تشریح:
1. یہ حدیث کتاب البیوع میں مختصر گزر چکی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غلام کو مدبر کرنا درست ہے۔
جمہور کہتے ہیں کہ اسے تیسرے حصے میں سے تدبیر کیا جا سکتا ہے، سارے رأس المال سے نہیں۔
2. اس حدیث سے
”بولی دینا
“ جائز ثابت ہوا‘ یعنی ایک چیز کو فروخت کرنے کے لیے کہنا کہ کون اس چیز کو خریدتا ہے؟ ایک نے کہا: میں اسے اتنے میں خریدتا ہوں۔
دوسرے نے کہا: میں اتنے میں خریدتا ہوں۔
اس طرح گاہک قیمت بڑھاتے جاتے ہیں۔
مالک جب دیکھتا ہے کہ اب اس کی قیمت ٹھیک لگ گئی ہے تو وہ اسے فروخت کر دیتا ہے۔
آج کل منڈیوں میں عام طور پر سودا جات اسی طرح فروخت ہو رہے ہیں اور یہ طریقہ جائز ہے۔
یاد رہے محض قیمت بڑھانے کے لیے بولی دینا جائز نہیں ہے۔
وضاحت:
«حضرت نُعَیْم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ» ان کا لقب نخام تھا۔
”نون
“ پر فتحہ اور
”خا
“ پر تشدید ہے۔
قریش کے قبیلہ بنوعدی سے تھے لیکن قدیم الاسلام تھے۔
شروع میں اپنا ایمان مخفی رکھا۔
انھوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو بنو عدی نے کہا یہاں سے نہ جاؤ چاہے کسی بھی دین پر قائم رہو‘ کیونکہ یہ بیوگان و یتامیٰ پر خرچ کرتے تھے۔
پھر انھوں نے صلح حدیبیہ والے سال ہجرت فرمائی۔
عہد صدیقی یا فاروقی میں فتوحات شام میں شہادت پائی۔