الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ
کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
5. بَابٌ:
5. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 6929
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، فَأَدْمَوْهُ، فَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا مجھ سے شقیق ابن سلمہ نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا جیسے میں (اس وقت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں آپ ایک پیغمبر (نوح علیہ السلام) کی حکایت بیان کر رہے تھے ان کی قوم والوں نے ان کو اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے تھے اور یوں دعا کرتے جاتے «رب اغفر لقومي،‏‏‏‏ فإنهم لا يعلمون‏.‏» پروردگار میری قوم والوں کو بخش دے وہ نادان ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ/حدیث: 6929]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريرب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون
   صحيح البخارياللهم اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون
   صحيح مسلمرب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون
   سنن ابن ماجهرب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6929 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6929  
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے کہا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی حکایت بیان کی۔
احد کے دن مشرکوں نے آپ کے چہرے اور سر پر پتھر مارے لہولہان کر دیا ایک دانت بھی آپ کا شہید کر ڈالا لیکن آپ یہی دعا کرتے رہے۔
یا اللہ! میری قوم والوں کو بخش دے وہ نادان ہیں۔
سبحان اللہ کوئی قومی جوش اور محبت پیغمبروں سے سیکھے نہ کہ اس زمانہ کے لیڈروں سے جو قوم قوم پکارتے پھرتے ہیں لیکن دل میں ذرا بھی قوم کی محبت نہیں ہے۔
اپنا گھر بھرنا چاہتے ہیں۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب پیغمبر صاحب نے اس شخص کے لیے بددعا بھی نہ کی جس نے آپ کو زخمی کیا تھا تو اشارہ اور کنایہ سے برا کہنے والا کیوں کہ قابل قتل ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6929   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6929  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6929 کا باب: «بَابٌ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے تین احادیث کا ذکر فرمایا، سیدنا انس بن مالک، امی عائشہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے، ان تینوں احادیث سے باب کی مناسبت ظاہر ہے، مگر ان تینوں احادیث کے ذکر کے بعد صرف باب کہہ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث درج فرمائی، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا کوئی نام نہیں رکھا، بلکہ اسے خالی چھوڑ دیا، کیونکہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ بسا اوقات باب کسی مسئلے پر قائم فرما کر اس باب کے تحت صرف باب ہی قائم کرتے ہیں اور اسے کوئی نام نہیں دیتے، دراصل ان مقامات پر یہ بات واضح کرنا مقصود ہوتی ہے کہ یہ خالی باب ما قبل باب کا حصہ یا تتمہ ہے، لہٰذا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق باب سے کچھ اس طرح سے ہے کہ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وجه ذكر هذا الحديث هنا من حيث إنه ملحق بالباب المترجم الذى فيه ترك النبى صلى الله عليه وسلم قتل ذاك القائل بقوله: السام عليك، وكان هذا من رفقه وصبره على اذي الكفار، والأنبياء عليهم السلام كانوا مأمورين بالصبر، قال الله تعالي: ﴿فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ﴾ [الأحقاف: 35] وفى هذا الحديث بيان صبر نبي من الأنبياء الذين أنفع غير منهمز.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 123/23]
ترجمۃ الباب سے اس حدیث کی مناسبت یہ ہے کہ یہ باب اس باب سے ملحق ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو «السام عليك» کہنے والے نے کہا تھا، پس یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رفق اور صبر تھا کافروں کے اذیت پہنچانے کے باوجود اور انبیاء علیہم السلام صبر کرنے پر مامور ہوتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: صبر کیجئے، جس طرح سے اول العزم رسولوں نے صبر کیا، یہ حدیث نبیوں میں کسی نبی کے صبر کا بیان ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق ماقبل باب سے ہے، اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نبی نے تکالیفوں پر صبر کیا۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ صاحب کا کہنا ہے کہ باب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں کہ حدیث میں سب (برا کہنا) اور طعن موجود نہیں ہے، بلکہ وہ دعا تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کی دی جا رہی تھی۔
«انه لم يوجد ههنا معنى السب والطعن، بل هو دعاء عليه الموت، ولكن على هذا يشكل مطابقة الحديث بترجمة الباب كما لا يخفى.» [الابواب والتراجم 601/6]
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ صاحب کی بات محل نظر ہے، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی منشاء ترجمۃ الباب میں صریح الفاظوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہنے پر نہیں ہے، بلکہ خفی انداز سے اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کرے، یا پھر سب کے الفاظ ادا کرے، لہٰذا اس باب کے اعتبار سے تحت الباب حدیث مکمل طور پر مناسبت رکھتی ہے، کیونکہ ان یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ مشغلہ تھا کہ زبان مروڑ کر غلط الفاظ کی ادائیگی کرتے تھے، دراصل یہود و نصاریٰ اپنے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے موت کے الفاظ استعمال کر رہے تھے، نیت کی خرابی کی وجہ سے وہ موت کے الفاظ حقیقتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سب اور طعن کے مانند تھے، لہٰذا یہی مقصود ہے ترجمۃ الباب اور حدیث کا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 258   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6929  
حدیث حاشیہ:
(1)
روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پیغمبر کی حکایت بیان کی، وہ حضرت نوح علیہ السلام تھے۔
ان کی قوم انھیں اس قدر مارتی کہ وہ لہولہان اور بے ہوش ہو جاتے، جب انھیں افاقہ ہوتا تو مذکورہ الفاظ کہتے۔
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔
مشرکین نے غزوۂ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارے اور آپ کا چہرہ زخمی کر دیا لیکن آپ یہی دعا کرتے رہے:
اے اللہ! انھیں معاف کردے، یہ نادان ہیں۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ حنین کے موقع پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ استعمال فرمائے تھے۔
(فتح الباري: 353/12) (2)
یہ عنوان ماقبل کا نتیجہ اور تکملہ ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی بدزبانی کا مصلحت تالیف کی بنا پر کوئی نوٹس نہیں لیا کیونکہ جن لوگوں نے اپنے انبیائے کرام کو زخمی کیا، ان انبیائے کرام نے ان پر ہلاکت وتباہی کی بددعا نہیں کہ بلکہ صبر سے کام لیتے ہوئے ان کے حق میں دعا فرمائی ہے، تو اشارے کنائے سے برا بھلا کہنے والے کو قتل کیسے کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 352/12)
واضح رہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو لوگوں کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
آپ صبر کریں جیسا کہ اولو العزم پیغمبروں نے صبر سے کام لیا ہے اور ان کے متعلق جلدی نہ کریں۔
(الأحقاف46: 35)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6929   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4025  
´آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام (علیہم السلام) میں سے ایک نبی کی حکایت بیان کر رہے تھے جن کو ان کی قوم نے مارا پیٹا تھا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے، اور یہ کہتے جاتے تھے: اے میرے رب! میری قوم کی مغفرت فرما، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4025]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہدایت کی طرف بلانے والوں کو مشکلات آتی ہیں حتیٰ کہ انبیاء بھی بہت سی تکلیفیں برداشت کرتے رہے ہیں۔

(2)
ممکن ہے اس حدیث میں کسی نبی سے مراد خود نبی ﷺ ہوں اور طائف کے واقعہ کی طرف اشارہ مقصود ہو۔
والله اعلم
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4025   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3477  
3477. حضرت عبداللہ ؓہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: گویا میں نبی کریم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ انبیاء ؑ میں سے کسی ایک نبی کا حال بیان کررہے تھے۔ انھیں ان کی قوم نے اس قدر زد و کوب کیا کہ انھیں خون آلود کردیامگر وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے اور کہتے جاتے تھے: اےاللہ! میری قوم کو بخش دے، کیونکہ وہ لاعلم ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3477]
حدیث حاشیہ:
کہتے ہیں کہ یہ حضرت نوح ؑ کاواقعہ ہےمگر اس صورت میں حضرت امام بخاری اس حدیث کو بنی اسرائیل کےباب میں نہ لاتے تو ظاہر ہےکہ یہ بنی اسرائیل کےکسی پغمبرکا ذکر ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اس حدیث سےنصیحت لیں، خصوصا عالموں اورمولویوں کوجو دین کی باتیں بیان کرنےمیں ڈرتے ہیں حالانکہ اللہ کی راہ میں لوگوں کی طرف سےتکالیف برداشت کرنا پیغمبروں کی میراث ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وَقَدْ ذَكَرَ مُسْلِمٌ بَعْدَ تَخْرِيجِ هَذَا الْحَدِيثِ حَدِيثَ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي قِصَّةِ أُحُدٍ كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ دَمَّوْا وَجْهَ نَبِيِّهِمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمر شَيْء وَمِنْ ثَمَّ قَالَ الْقُرْطُبِيُّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْحَاكِي وَالْمَحْكِيُّ كمَا سَيَأْتِي وَأَمَّا النَّوَوِيُّ فَقَالَ هَذَا النَّبِيُّ الَّذِي جَرَى لَهُ مَا حَكَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُتَقَدِّمِينَ وَقَدْ جَرَى لِنَبِيِّنَا نَحْوُ ذَلِكَ يَوْمَ أُحُدٍ۔
(فتح الباري)
یعنی امام مسلم ؒ نے اس حدیث کی تخریج کےبعد لکھا ہے کہ واقعہ احد پرجب كہ آپ کاچہرہ مبارک خون آلود ہوگیا تھا،آپ نےفرمایا تھا کہ وہ قوم کیسے فلاں پائے گی جس نےاپنے نبی کاچہرہ خون آلود کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ہمارے نبی! آپ کو اس بارے میں مختار نہیں بنایا گیا یعنی قریب ہےکہ یہی لوگ ہدایت پاجائیں (جیسا کہ بعد میں ہوا)
اس جگہ قرطبی ؒ نےکہا کہ اس واقعہ کے حاکی اور محکی خود آنحضرتﷺ ہی ہیں گویا آپ اپنے ہی متعلق یہ حکایت نقل فرمارہے ہیں۔
امام نووی  نےکہاکہ آپ نے یہ کسی گزشتہ نبی ہی کاحکایت نقل فرمائی ہےااورہمارے نبی محترمﷺ کےساتھ بھی جنگ احد میں یہی ماجرا گزرا۔
بہرحال اس حدیث سےبہت سےایمان افروز نتائج نکلتے ہیں۔
مردان راہ کایہی طریقہ ہےکہ وہ جانی دشمنوں کوبھی دعائے خیرہی فرمایا کرتےہیں۔
سچ ہے ﴿وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ﴾ (حم سجدہ: 35)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3477   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3477  
3477. حضرت عبداللہ ؓہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: گویا میں نبی کریم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ انبیاء ؑ میں سے کسی ایک نبی کا حال بیان کررہے تھے۔ انھیں ان کی قوم نے اس قدر زد و کوب کیا کہ انھیں خون آلود کردیامگر وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے اور کہتے جاتے تھے: اےاللہ! میری قوم کو بخش دے، کیونکہ وہ لاعلم ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3477]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒکے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی بنی اسرائیل کے نبی کا ہے لیکن امام مسلم ؒنے اس حدیث کی تخریج کے بعد لکھا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کا یہ واقعہ ہے گویا آپ اس واقعے کے خود ہی بیان کرنے والے اور خود ہی صاحب واقعہ ہیں غزوہ احد کے وقت جب کفار مکہ نے آپ کا چہرہ خون آلود کردیا تو آپ نے فرمایا:
وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون آلود کر دیا اور اس کے اگلے دانت شہید کردیے جبکہ وہ انھیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
آپ کا اس بات میں کوئی اختیار نہیں اللہ چاہےتو انھیں معاف کردے چاہے تو سزا دے۔
وہ بہر حال ظالم تو ہیں ہی۔
(آل عمران: 128/3۔
و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4645۔
1791)

امام نووی ؒ فرماتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے کسی گزشتہ نبی کا واقعہ بیان کیا ہے اگرچہ غزوہ احدکے موقع پر آپ کے ساتھ بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا۔
(فتح الباري: 637/6)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ پر گالیاں سننا اور ماریں کھانا انبیاء کی سنت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3477