الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:831
831- سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور شبل بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کنیز کے بارے میں دریافت کیا گیا جو محصنہ ہونے سے پہلے زناء کا اراتکاب کرلیتی ہے، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی کی کنیز زناء کاارتکاب کرے تو تم اسے کوڑے مارو۔ اگر وہ دوبارہ ایسا کرے تو پھر اسے کوڑے مارو۔ اگر وہ پھر ایسا کرے تو پھر کوڑے مارو۔ (راوی کہتے ہیں:) تیسری مرتبہ یا شاید چوتھی مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم اسے فروخت کردو۔ خواہ ایک رسی کے عوض میں فروخت کرو۔“ (امام حم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:831]
فائدہ:
زنا عیب ہے اور کبیرہ گناہ ہے خواہ آزاد کرے یا غلام۔ نیز غلام و لونڈی دونوں اسی عیب میں شریک ہیں۔ آگے بیچنے سے مقصود اس کا ماحول تبدیل کرنا ہے شاید وہ ماحول بدلنے سے گناہ چھوڑ دے یا اس کا غلام اس کی آگے کسی سے شادی کر دے۔ نیز خادموں کو خواتین سے بہت دور رکھنا چاہیے اور ان پر کڑی نظر بھی رکھنی چاہیے۔
① لونڈی یا غلام کو رجم کی سزا نہیں دی جاسکتی۔
② لونڈی غلام اگر زنا کرے تو اسے پچاس کوڑے مارے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ﴾ (النساء: 25)
”تم میں سے جو شخص آ زاد مومن عورتوں سے نکاح کی قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ تمھاری ملکیت مؤمن لونڈیوں میں سے کسی لونڈی سے نکاح کرے۔ پھر جب وہ نکاح میں آ جائیں اور اس کے بعد وہ بدکاری کریں تو ان کی سزا آزاد عورتوں کی سزا کا نصف ہے“۔
③ لونڈی اور غلام کو سزائے موت نہ دینے میں یہ حکمت ہے کہ اس صورت میں آقا کا نقصان ہوتا ہے، حالانکہ وہ جرم میں شریک نہیں۔
④ غلام یا لونڈی کو جلا وطن نہیں کیا جاتا، اسے جلا وطن کرنے کی صورت یہی ہے کہ اسے کسی اور مالک کے ہاتھ بیچ دیا جائے تا کہ اس کا ماحول تبدیل ہو اور وہ اس گناہ سے باز آ جائے۔ [ابن ماجه مترجم: دارالسلام:600/3]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 831
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1113
1113- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب کسی شخص کی کنیز زنا کا ارتکاب کرے اور اس کا زنا کرنا ظاہر ہوجائے، تو وہ اسے کوڑے مارے لیکن زبانی طور پر اسے برانہ کہے پھر اگر وہ کنیز دوبارہ زنا کا ارتکاب کرے اور اس کا زنا کرنا ثابت ہوجائے، تو وہ اسے پھر حد کے طور پر کوڑے مارے لیکن زبانی طور پر اسے برانہ کہے۔ اگر وہ پھر ایسا کرے اور اس کا پھر زنا کرنا ظاہر ہوجائے، تو وہ اسے فروخت کردے، اگر چہ بالوں سے بنی ہوئی رسی کے عوض کرے۔“ لفظ ”ضفیر“ کا مطلب رسی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1113]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ لونڈی اگر زنا کرے تو اس کو آزاد عورت سے نصف حد لگائی جائے گی، اگر وہ تیسری باری بھی زنا کرے تو اس کو فروخت کر دیا جائے، خواہ معمولی سی رقم کے عوض فروخت کیا جائے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لونڈی کو بھی دینی تربیت دینی ضروری ہے، تاکہ وہ پاکباز رہے، اور معاشرے میں فساد کا سبب نہ بنے، لیکن اگر وہ بدکاری سے باز نہیں آ رہی تب اس کو فروخت کر دیا جائے، اس میں بھی اس کی تربیت کا پہلو ہے کہ شاید اس کے ماحول کے تبدیل ہونے سے وہ اپنی حالت بہتر کر لے اور گناہ سے باز آ جائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1111
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2233
2233. حضرت زید بن خالد اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جبکہ آپ سے اس لونڈی کے متعلق سوال کیا گیا جوزناکرے اور شادی شدہ نہ ہو، تو آپ نے فرمایا؛ ”اسے کوڑے لگاؤ۔ اگر پھر زنا کرے تو کوڑے لگاؤ۔“ پھر تیسری یاچوتھی مرتبہ کے بعد فرمایا: ”اسے فروخت کردو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2233]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔
حافظ ؒنے کہا ا س حدیث سے یہ نکلا کہ لونڈی جب زنا کرے تو ا س کو بیچ ڈالیں اور یہ عام ہے اس لونڈی کو بھی شامل ہے جو مدبرہ ہے۔
تو مدبرہ کی بیع کا جواز نکلا، عینی نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ حدیث میں جواز بیع مکرر سہ کرر زنا کرانے پر موقوف رکھا گیا ہے اور ان لوگوں کے نزدیک تو مدبرہ کی بیع ہر حال میں درست ہے خواہ وہ زنا کرائے یا نہ کرائے، تو اس سے استدلال صحیح نہیں ہوسکتا۔
میں کہتا ہوں کہ عینی ؒ کا اعتراض فاسد ہے۔
اس لیے کہ مدبرہ لونڈی اگر مکرر سہ کرر زنا کرائے تو اس کے بیچنے کا جواز اس حدیث سے نکلا اور جو لوگ مدبر کی بیع کو جائز نہیں سمجھتے وہ زنا کرنے کی صورت میں بھی اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔
پس یہ حدیث ان کے قول کے خلاف ہوئی اور موافق ہوئی ان کے جو مدبر کی بیع کے جواز کے قائل ہیں۔
اور گو بیع کا حکم اس حدیث میں زنا کے مکرر سہ کرر ہونے پر دیا گیا ہے، مگر قرینہ دلالت کرتا ہے کہ بیع اس پر موقوف نہیں ہے۔
اس لیے کہ جو لونڈی مطلق زنا نہ کرائے یا ایک ہی بار کرائے اس کا بھی بیچنا درست ہے۔
اب عینی کا یہ کہنا کہ یہ دلالت بعبارۃ النص ہے یا اشارۃ النص یا دلالۃ النص؟ اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ یہ دلالۃ النص ہے کیوں کہ حدیث میں مطلق لونڈی کا ذکر ہے اور وہ مدبرہ کو شامل ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2233
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2153
2153. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کنواری لونڈی کے متعلق سوال ہواتو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے مارو۔ پھر اگر زنا کرے تو اس کو حد لگاؤ۔ پھر اگر بدکاری کا ارتکاب کرے تو اسے فروخت کردو اگرچہ بالوں کی رسی کے عوض کیوں نہ ہو۔“ ابن شہاب کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ (آپ نے بیچنے کا) تیسری مرتبہ کے بعد فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2153]
حدیث حاشیہ:
ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ اگر لونڈی محصنہ (شادی شدہ)
ہو تو اس کو سنگسار کریں۔
حالانکہ لونڈی اورغلام پر بالاجماع رجم نہیں ہے۔
کیوں کہ خود قرآن شریف میں صاف حکم موجو دہے۔
﴿فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾ (النساء: 25)
اور رجم کا نصف نہیں ہوسکتا تو کوڑوں کا نصف مراد ہوگا۔
یعنی پچاس کوڑے مارو۔
بعض نے کہا حدیث کا ترجمہ یوں ہے اگر لونڈی اپنے تئیں زنا سے نہ بچائے اور زنا کرائے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2153
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2154
2154. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کنواری لونڈی کے متعلق سوال ہواتو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے مارو۔ پھر اگر زنا کرے تو اس کو حد لگاؤ۔ پھر اگر بدکاری کا ارتکاب کرے تو اسے فروخت کردو اگرچہ بالوں کی رسی کے عوض کیوں نہ ہو۔“ ابن شہاب کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ(آپ نے بیچنے کا) تیسری مرتبہ کے بعد فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2154]
حدیث حاشیہ:
ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ اگر لونڈی محصنہ (شادی شدہ)
ہو تو اس کو سنگسار کریں۔
حالانکہ لونڈی اورغلام پر بالاجماع رجم نہیں ہے۔
کیوں کہ خود قرآن شریف میں صاف حکم موجو دہے۔
﴿فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾ (النساء: 25)
اور رجم کا نصف نہیں ہوسکتا تو کوڑوں کا نصف مراد ہوگا۔
یعنی پچاس کوڑے مارو۔
بعض نے کہا حدیث کا ترجمہ یوں ہے اگر لونڈی اپنے تئیں زنا سے نہ بچائے اور زنا کرائے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2154
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2556
2556 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2556]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں لونڈی کے لیے امۃ کا لفظ فرمایا ہے۔
قسطلانی ؒنے کہا کہ اس حدیث کے لانے سے یہ مقصود ہے کہ جب لونڈی زنا کرائے تو اس پر دست درازی منع نہیں ہے بلکہ اس کو سزا دینا ضروری ہے آخر میں راوی کا شک ہے کہ آپ نے تیسری بار میں بیچنے کا حکم فرمایا یا چوتھی بار میں۔
ان جملہ روایات کو نقل کرکے حضرت امام ؒ نے ثابت فرمایا کہ مالکوں کو غلاموں اور لونڈیوں پر بڑائی نہ جتانی چاہئے۔
انسان ہونے کے ناطے سب برابر ہیں۔
شرافت اور بڑائی کی بنیاد ایمان اور تقویٰ ہے۔
حقیقی آقا حاکم مالک سب کا صرف اللہ تبارک و تعالی ہے۔
دنیاوی مالک آقا سب مجازی ہیں۔
آج ہیں اور کل نہیں۔
جن آیات اور احادیث میں ایسے الفاظ آقاؤں یا غلاموں کے لیے مستعمل ہوئے ہیں وہاں مجازی معانی مراد ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2556
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2153
2153. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کنواری لونڈی کے متعلق سوال ہواتو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے مارو۔ پھر اگر زنا کرے تو اس کو حد لگاؤ۔ پھر اگر بدکاری کا ارتکاب کرے تو اسے فروخت کردو اگرچہ بالوں کی رسی کے عوض کیوں نہ ہو۔“ ابن شہاب کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ (آپ نے بیچنے کا) تیسری مرتبہ کے بعد فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2153]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زنا کاری ایک عیب ہے۔
خریدار اس عیب کے مطلع ہونے پر اس غلام یا لونڈی کو واپس کرسکتا ہے۔
اگرچہ حدیث میں لونڈی کا ذکر ہے لیکن غلام کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
احناف لونڈی کے متعلق یہ قاعدہ درست کہتے ہیں لیکن غلام کے متعلق اسے تسلیم نہیں کرتے۔
ان کے نزدیک زنا اور بدکاری لونڈی میں عیب ہے غلام میں نہیں کیونکہ لونڈی میں جماع اور طلب ولد مقصود ہے اور زنا کاری اس مقصد میں رکاوٹ کا باعث ہے جبکہ غلام سے مقصد خدمت لینا ہے اور زنا اس خدمت میں مخل نہیں ہوتا۔
ہاں، اگر زنا اس کی مستقل عادت ہوتو یہ ایک عیب ہے۔
بہرحال زیرک ودانا اور غیرت مند کے نزدیک بدکاری ایک عیب ہے،خواہ غلام میں ہویا لونڈی میں۔
یہاں ایک سوال ہے کہ اس عیب دار چیز کو فروخت کرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے جبکہ حدیث میں ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کےلیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے،اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید وہ دوسرے شخص کے پاس جاکر اس کی معیت کی وجہ سے بدکاری سے رک جائے کیونکہ بعض اوقات بدکار عورتیں مضبوط اور طاقتور مردوں سے نکاح کرنے کے بعد اس بے حیائی سے رک جاتی ہیں بشرطیکہ نکاح کرنے والا غیرت مند ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ خریدنے والا اس کا آگے کسی سے نکاح کردے یا بذات خود اسے زنا سے بچانے کے لیے کوئی صورت پیدا کردے۔
(فتح الباري: 486/4)
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2153
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2154
2154. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کنواری لونڈی کے متعلق سوال ہواتو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے مارو۔ پھر اگر زنا کرے تو اس کو حد لگاؤ۔ پھر اگر بدکاری کا ارتکاب کرے تو اسے فروخت کردو اگرچہ بالوں کی رسی کے عوض کیوں نہ ہو۔“ ابن شہاب کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ(آپ نے بیچنے کا) تیسری مرتبہ کے بعد فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2154]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زنا کاری ایک عیب ہے۔
خریدار اس عیب کے مطلع ہونے پر اس غلام یا لونڈی کو واپس کرسکتا ہے۔
اگرچہ حدیث میں لونڈی کا ذکر ہے لیکن غلام کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
احناف لونڈی کے متعلق یہ قاعدہ درست کہتے ہیں لیکن غلام کے متعلق اسے تسلیم نہیں کرتے۔
ان کے نزدیک زنا اور بدکاری لونڈی میں عیب ہے غلام میں نہیں کیونکہ لونڈی میں جماع اور طلب ولد مقصود ہے اور زنا کاری اس مقصد میں رکاوٹ کا باعث ہے جبکہ غلام سے مقصد خدمت لینا ہے اور زنا اس خدمت میں مخل نہیں ہوتا۔
ہاں، اگر زنا اس کی مستقل عادت ہوتو یہ ایک عیب ہے۔
بہرحال زیرک ودانا اور غیرت مند کے نزدیک بدکاری ایک عیب ہے،خواہ غلام میں ہویا لونڈی میں۔
یہاں ایک سوال ہے کہ اس عیب دار چیز کو فروخت کرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے جبکہ حدیث میں ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کےلیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے،اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید وہ دوسرے شخص کے پاس جاکر اس کی معیت کی وجہ سے بدکاری سے رک جائے کیونکہ بعض اوقات بدکار عورتیں مضبوط اور طاقتور مردوں سے نکاح کرنے کے بعد اس بے حیائی سے رک جاتی ہیں بشرطیکہ نکاح کرنے والا غیرت مند ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ خریدنے والا اس کا آگے کسی سے نکاح کردے یا بذات خود اسے زنا سے بچانے کے لیے کوئی صورت پیدا کردے۔
(فتح الباري: 486/4)
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2154
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2556
2556 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2556]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان روایات میں غلام کے لیے لفظ عبد، لونڈی کے لیے أمة اور آقا کے لیے لفظ سید استعمال ہوا ہے، اس طرح مجازی معنوں میں ان الفاظ کا استعمال درست ہے۔
جب حقیقی معنی مراد لیے جائیں تو ان کا استعمال ایسے مواقع پر صحیح نہیں۔
مختلف احادیث میں تطبیق کی یہی صورت ہے جسے امام المحدثین نے بیان کیا ہے، نیز انہوں نے ثابت کیا ہے کہ آقاؤں کو اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر قطعاً بڑائی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
انسان ہونے کے ناتے سے سب برابر اور حضرت آدم ؑ کی اولاد ہیں، شرافت اور بڑائی، نیز عزت و تکریم کی بنیاد تقویٰ اور پرہیزگاری ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی صراحت کی ہے۔
(2)
حقیقی آقا اور حاکم و مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
دنیاوی مالک اور آقا سب مجازی ہیں، آج ہیں تو کل فنا ہو جائیں گے۔
جن آیات اور احادیث میں ایسے الفاظ آقاؤں یا غلاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہاں مجازی معنی مراد ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2556