مجھ سے عبداللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے کہا کہ میں نے یعلیٰ بن حکیم سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ماعز بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ غالباً تو نے بوسہ دیا ہو گا یا اشارہ کیا ہو گا یا دیکھا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کیا پھر تو نے ہمبستری ہی کر لی ہے؟ اس مرتبہ آپ نے کنایہ سے کام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کا حکم دیا۔ [صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6824]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6824
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ قاضی کے لیے زنا کا اقرار کرنے والے کو تلقین کرنا جائز ہے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے کیونکہ زنا کا اطلاق نظر بازی اور بوس وکنارپر بھی ہوتا ہے، پھر دو ٹوک الفاظ میں زنا کرنے کی وضاحت کرائے کیونکہ اشاروں کنایوں سے حدود ثابت نہیں ہوتیں، چنانچہ دیگر احادیث میں ہے کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نے جب اپنے متعلق چار دفعہ اقرار کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، مجھ پر حد قائم کریں تو آپ نے فرمایا: ”تو دیوانہ تو نہیں؟“ پھر آپ نے اس کی قوم سے دریافت فرمایا: ”اسے جنون کا مرض تو نہیں ہے؟“ پھر حاضرین سے پوچھا: ”اس نے شراب تو نہیں پی؟“ انھوں نے منہ سونگھ کر بتایا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”شاید تو نے بوس وکنار سے کام لیا ہو یا تونے نظر بازی کی ہو؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو اس کے ساتھ لیٹا تھا؟“ کہا: ہاں۔ فرمایا: کیا تو نے اس سے مباشرت کی؟“عرض کی: ہاں۔ فرمایا: ”کیا تو نے اس سے جماع کیا؟“ اس نے عرض کی: ہاں۔ اس روایت میں ہے کہ آپ نے جماع کے لیے دو ٹوک واضح اور صریح الفاظ استعمال فرمائے، کسی قسم کا اشارہ یا کنایہ نہ کیا۔ آپ نے مزید فرمایا: ”کیا تونے دخول کیا تھا؟“ عرض کی: ہاں۔ فرمایا: ”جس طرح سرمچو، سرمے دانی میں اور ڈول، کنویں میں غائب ہو جاتا ہے؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آخر میں آپ نے فرمایا: ”تجھے معلوم ہے زنا کسے کہتے ہیں؟“ اس نے کہا: میں نے اس سے وہی کچھ کیا ہے جو ایک خاوند اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اب تو کیا چاہتا ہے؟“ اس نے عرض کی: آپ مجھے پاک کر دیں۔ اس طرح کے بہت سے مختلف قسم کے سوال کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ (فتح الباري: 152/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6824
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1037
´زانی کی حد کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ماعز بن مالک جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا ” شاید تو نے بوس و کنار کیا ہو یا چھیڑ چھاڑ کی ہو اور نظر بد ڈالی ہو۔“ اس نے کہا نہیں اے اللہ کے رسول! (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1037»
تخریج: «أخرجه البخاري، الحدود، باب هل يقول الإمام للمقر: لعلك لمست أو غمزت، حديث:6824.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک زانی صاف اور صریح الفاظ سے اقرار جرم اپنی آزادی اور مرضی سے نہ کرے اس وقت تک اسے سنگسار کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا‘ نیز وہ بیرونی و اندرونی کسی قسم کے دباؤ میں بھی نہ ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1037
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4421
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور انہوں نے عرض کیا کہ میں نے زنا کر لیا ہے، آپ نے ان سے منہ پھیر لیا، پھر انہوں نے کئی بار یہی بات دہرائی، ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا منہ پھیر لیتے تھے، پھر آپ نے ان کی قوم کے لوگوں سے پوچھا: ”کیا یہ دیوانہ تو نہیں؟“ لوگوں نے کہا: نہیں ایسی کوئی بات نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا واقعی تم نے ایسا کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: ہاں واقعی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سنگسار کئے جانے کا حکم دیا، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4421]
فوائد ومسائل: حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کو جب حد لگی تواس وقت فوری طور پر جنازہ نہیں پڑھا گیا، جیسے کہ صیح بخاری کی روایت میں ہے۔ دیکھیے (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: ٦٨٢)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4421
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4425
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”کیا تمہارے متعلق جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے صحیح ہے؟“ وہ بولے: میرے متعلق آپ کو کون سی بات معلوم ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم نے بنی فلاں کی باندی سے زنا کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: ہاں، پھر چار بار اس کی گواہی دی، تو آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رجم کر دیئے گئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4425]
فوائد ومسائل: ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، بلکہ قوم کےلوگوں نےاس کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں آنے کا کہا، آپ نے بھی اس سے دریافت فرمایا تواس نے چار بار اقرار کیا تو اس پر حد قائم کی گئی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4425
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4427
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”شاید تو نے بوسہ لیا ہو گا، یا ہاتھ سے چھوا ہو گا، یا دیکھا ہو گا؟“ انہوں نے کہا: نہیں، ایسا نہیں ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر کیا تم نے اس سے جماع کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، تو اس اقرار کے بعد آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4427]
فوائد ومسائل: اس واقعہ میں نبیﷺ نے ہرقسم کے شکوک ازالہ کر لینےاور زنا کا یقین ہوجانے کے بعد رجم کرنے کا حکم دیا اور اب بھی قاضی اور حاکم کو یہی تعلیم ہے، جیسے کہ اگلی حدیث میں کھلی صراحت لیے جانے کا بیان ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4427
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1427
´حد والے جرم کی تحقیق میں تلقین کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی الله عنہ سے فرمایا: ”تمہارے بارے میں جو مجھے خبر ملی ہے کیا وہ صحیح ہے؟“ ماعز رضی الله عنہ نے کہا: میرے بارے میں آپ کو کیا خبر ملی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے فلاں قبیلے کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: ہاں، پھر انہوں نے چار مرتبہ اقرار کیا، تو آپ نے حکم دیا، تو انہیں رجم کر دیا گیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1427]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: یعنی مجرم اگر اپنے گناہ کا خود اقرار کر رہا ہو تو اس کے سامنے ایسی باتیں رکھنا جن کی وجہ سے اس پر حد واجب نہ ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1427
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4427
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: ”کیا تیرے بارے میں مجھ تک جو کچھ پہنچا ہے، ٹھیک ہے، (حقیقت ہے)۔“ اس نے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے بارے میں کیا خبر ملی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے خبر ملی ہے کہ تو نے فلاں خاندان کی لونڈی سے زنا کیا ہے؟“ اس نے کہا، جی ہاں، اس نے چار مرتبہ اس کی شہادت دی، پھر آپﷺ نے اسے رجم کرنے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4427]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ بات ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ ان کو لانے والے حضرت ہذال رضی اللہ عنہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا بھی تھا، تمہارا اس پر پردہ پوشی کرنا بہتر تھا اور ان کے ساتھ آنے والے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے واقعہ سے آگاہ کر چکے تھے، اس لیے آپﷺ نے حضرت ماعز سے پوچھا اور ان کو اس اعتراف سے منحرف ہونے کی راہ بھی سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ حضرت ہذال رضی اللہ عنہ کے پکا کرنے کے سبب اپنی بات پر قائم رہے۔