ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ولاء اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کر دے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 6752]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6752
حدیث حاشیہ: (1) ولا کے لغوی معنی نصرت ومحبت کے ہیں شرعی اصطلاح میں اس سے مراد وہ تعلق ہے جو غلام اور اس کے آزاد کرنے والے کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آزاد کردہ غلام مر جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو اس کا ترکہ آزاد کرنے والے کو ملتا ہے۔ (2) حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کا شوہر مغیث تھا جو حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما کی آزادی کے وقت غلام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا کہ تو چاہے تو اپنے شوہر مغیث کی زوجیت کو اختیار کرے اور چاہے تو اس سے علیحدگی اختیار کر لے، چنانچہ اس نے علیحدگی کو اختیار کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دینا اس امر کی دلیل ہے کہ مغیث غلام تھا۔ (3) بہرحال آزاد شدہ غلام کا ترکہ آزاد کرنے والے کو ملتا ہے اور راستے سے ملنے والا لاوارث بچہ اگر فوت ہو جائے تو اس کا ترکہ بیت المال میں جمع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ آزاد ہے، اگر غلام ہوتا تو اس شخص کو اس کا ترکہ ملتا جس نے اسے اٹھایا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش کردہ حدیث سے لقیط کی وراثت کا حکم بھی بیان کیا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6752
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2915
´ولاء (آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث) کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکوں نے کہا کہ ہم اسے اس شرط پر آپ کے ہاتھ بیچیں گے کہ اس کا حق ولاء ۱؎ ہمیں حاصل ہو، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: یہ ”خریدنے میں تمہارے لیے رکاوٹ نہیں کیونکہ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے۔“[سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2915]
فوائد ومسائل: 1۔ آقا اور اس کی زیر ملکیت غلام کے مابین تعلق (ولاء) کہلاتا ہے۔ غلام کو آزاد کر دینے کے بعد بھی یہ تعلق قائم رہتا ہے۔ آزاد کرنے والے کو مولیٰ (معتق)(ت کے نیچے زیریعنی آزاد کرنے والا) اور آزاد شدہ کو مولیٰ (معتق)(ت پرزبر یعنی آزاد کیا ہوا) کہتے ہیں۔ اور ان کے مابین نسبت وقرابت کو ولاء کہتے ہیں۔ اور اس تعلق کو کسی طور تبدیل فروخت یا ہبہ نہیں کیا جاسکتا۔
2۔ غیر شرعی شرطیں لغو محض ہوتی ہیں۔ اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2915
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:653
653- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کو فروخت کرنے یا اسے ہبہ کرنے سے منع کیا ہے۔ (راوی سے کہا گیا) شبعہ نے اس بارے میں عبداللہ سے حلف لیا تھا، تو وہ بولے: ہم ان سے حلف نہیں لیتے ہم نے ان سے کئی مرتبہ یہ روایت سنی ہے۔ پھر سفیان ہنس پڑے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:653]
فائدہ: ”ولا“ وہ تعلق اور رشتہ ہے جو آزاد کر نے والے اور آزاد شدہ غلام کے درمیان آ زادی سے قائم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے رشتے اور تعلقات نہ بیچے جا سکتے ہیں نہ کسی کو عطیتاً دیے جا سکتے ہیں۔ بسا اوقات اس تعلق کی وجہ سے آزاد کر نے والے کو آزاد شدہ غلام کی وراثت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس لیے جاہل لوگ یہ رشتہ بیچ دیا کرتے تھے کہ وراثت تو سنبھال لینا مجھے اتنی رقم فوراً دے دے۔ شریعت نے اس زبردستی سے منع فرمایا کہ رشتے بیچنے یا تحفتاً دینے کی چیز نہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 654
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2562
2562. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک لونڈی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکان نے کہا: وہ اس شرط پر اسے خریدسکتی ہی کہ اس کی ولا کے ہم خود مالک ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ شرط تمھیں خریدنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ ولا کا مالک تو وہی ہے جو آزاد کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2562]
حدیث حاشیہ: حدیث بریرہ ؓ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں۔ بعض متاخرین نے ان کو چار سو تک پہنچا دیا ہے جس میں اکثر تکلف ہے۔ کچھ فوائد حافظ ؒنے فتح الباری میں بھی ذکر فرمائے ہیں۔ ان کو وہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2562
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2169
2169. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک لونڈی خرید کر اسے آزاد کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس کے مالکوں نے کہا: ہم اس شرط پر یہ لونڈی آپ کو فروخت کرتے ہیں کہ اس کی ولا ہمارے لیے ہو۔ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ شرط تمھیں خریدنے سے منع نہ کرے کیونکہ ولا کا حق دار وہ ہوتا ہے جو اسے آزاد کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2169]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر خریدوفروخت کرتے وقت کوئی ناجائز شرط رکھ دی جائے تو شرط باطل لیکن بیع صحیح ہے۔ اس حدیث میں ایک اشکال ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا حضرت بریرہ ؓ کو خریدنا، اس کے مالکوں کے لیے ولاء کی شرط کرنا،اس شرط کے باعث بیع کا فاسد ہونا،فروخت کرنے والوں کو اندھیرے میں رکھنا، ان کے لیے شرط کرنا جو ان کےلیے صحیح نہ ہو اور نہ انھیں کچھ حاصل ہی ہو،ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ کا اسے خریدنے کی اجازت دینا یہ تمام معاملات اشکالات کا باعث ہیں۔ بعض علماء نے تو ان اشکالات کی وجہ سے اس حدیث کا انکار کردیا ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔ بعض حضرات نے اس شرط کرنے کی یہ تاویل کی ہے کہ ان پر شرط لگادی جائے کہ والاءتمھاری نہیں ہوگی۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ انھیں ولاء کا حکم بتادیا جائے کہ ولاء اس کی ہے جو آزاد کرنے والا ہے۔ بعض حضرات اس شرط کو زجرو توبیخ پر محمول کرتے ہیں کیونکہ جب بریرہ ؓ کے مالکان نے ولاء کی شرط پر اصرار کیا اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت کی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ”اس شرط کی پروا نہ کرو کیونکہ یہ شرط باطل اور مردود ہے۔ “ ہمارا رجحان اس آخری تاویل کی طرف ہے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2169
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2562
2562. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک لونڈی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکان نے کہا: وہ اس شرط پر اسے خریدسکتی ہی کہ اس کی ولا کے ہم خود مالک ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ شرط تمھیں خریدنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ ولا کا مالک تو وہی ہے جو آزاد کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2562]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے کتاب الشروط میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب المكاتب، وما لا يحل من الشروط التي تخالف كتاب الله) ”ایسی شرائط جائز نہیں جو کتاب اللہ کے خلاف ہوں۔ “(صحیح البخاري، الشروط، باب: 17) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ليس في كتاب الله کی تفسیر بیان فرمائی ہے اور حکم سے عام مراد ہے کہ وہ نص سے ثابت ہو یا اس سے استنباط کیا گیا ہو، البتہ وہ حکم ایسا نہ ہو جو کتاب اللہ کے خلاف ہو۔ (فتح الباري: 433/5)(2) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث بریرہ سے بے شمار مسائل کا استنباط کیا، اکثر و بیشتر مسائل حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کیے ہیں۔ ان مسائل و اقسام کو فتح الباری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2562