زید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولاد بیٹوں کے درجہ میں ہے۔ اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ ایسی صورت میں پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہوں گی۔ انہیں اسی طرح وراثت ملے گی جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے اور ان کی وجہ سے بہت سے عزیز و اقارب اسی طرح وراثت کے حق سے محروم ہو جائیں گے جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہو جاتے ہیں، البتہ اگر بیٹا موجود ہو تو پوتا وراثت میں کچھ نہیں پائے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: Q6735]
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پہلے میراث ان کے وارثوں تک پہنچا دو اور جو باقی رہ جائے وہ اس کو ملے گا جو مرد میت کا بہت نزدیکی رشتہ دار ہو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 6735]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6735
حدیث حاشیہ: مثلاً بیٹا ہو تو پوتے کو کچھ نہ ملے گا پوتا ہو تو پڑ پوتے کو کچھ نہ ملے گا۔ اگر کوئی میت خاوند اور باپ اور بیٹی اور پوتا چھوڑ جائے تو خاوند کو چوتھائی باپ کا چھٹا حصہ بیٹی کو آدھا حصہ دے کر مابقی پوتا پوتی میں تقسیم ہوگا۔ ﴿للذکرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثیینِ﴾(النساء: 11)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6735
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6735
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے حجب حرمان کا دوسرا اصول معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہو جاتا ہے، مثلاً: بیٹا ہو تو پوتے کو کچھ نہیں ملتا اور پوتا موجود ہوتو پڑپوتا محروم ہو جاتا ہے۔ (2) اگر میت، خاوند، باپ، بیٹی، پوتا اور پوتی چھوڑ جائے تو خاوند کو 1/4، باپ کو1/(6) ، بیٹی کو 1/2 دیا جائے گا اور باقی پوتے اور پوتی میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ پوتے کو پوتی سے دوگنا ملے گا۔ (3) یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ: عصر حاضر میں وراثت کے متعلق جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے اور پوتی کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ ان کی بے چارگی اور محتاجی کو بنیاد بنا کر اسے بہت اچھالا گیا ہے، حالانکہ اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، چنانچہ اس مسئلے میں نہ صرف مشہور فقہی مذاہب، حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ، نیز شیعہ، زیدیہ، امامیہ اور ظاہریہ سب متفق ہیں، بلکہ غیر معروف ائمہ وفقہاء کا بھی اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں کہ دادا کے انتقال پر اگر اس کا بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے کی اولاد، یعنی پوتوں کو اس کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ حکومت پاکستان نے 1961ء میں مارشل لاء کا ایک آرڈی نینس (ordinance) جاری کیا جس کے تحت یہ قانون نافذ کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے پیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی اولاد چھوڑ جائے جس نے اس کی زندگی میں وفات پائی ہو تو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو لینے کی حق دار ہوگی جو ان کے باپ یا ماں کو ملنا تھا اگر وہ اس شخص کی وفات کے وقت زندہ ہوتے۔ پاکستان میں اس قانون کے خلاف شریعت ہونے کے متعلق بہت بڑی اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطۂ نظر کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔ “(النساء 4: 11) اس آیت کریمہ میں لفظ اولاد، ولد کی جمع ہے جو جنے ہوئے کہ معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں لفظ ولد دو طرح سے مستعمل ہے: ٭حقیقی جو بلا واسطہ جنا ہوا ہو، یعنی بیٹا اور بیٹی وغیرہ۔ ٭مجازی جو کسی واسطے سے جنا ہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔ بیٹیوں کی اولاد، یعنی نواسی اور نواسے اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہی نہیں کیونکہ نسب باپ سے چلتا ہے، اس بنا پر نواسا اور نواسی لفظ ولد میں شامل ہی نہیں کہ انھیں اولاد سمجھ کر حصہ دیا جائے، نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہوگا مجازی معنی مراد لینے جائز نہیں ہیں، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی مراد نہیں لیے ج اسکتے، لہٰذا آیت کریمہ کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حقیقی بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے اور پوتی کا کوئی حق نہیں ہے، خواہ وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔ اس کے متعلق امام جصاص اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”امت کا اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں صرف اولاد مراد ہے، اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ پوتا، حقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہے، نیز اس امر میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو اس سے مراد بیٹوں کی اولاد ہے، بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لیے ہے اور جب صلبی اولاد نہ ہو تو بیٹے کی اولاد اس میں شامل ہے۔ “(احکام القرآن: 96/2)(3) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جومیت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں صرف بیٹا وارث ہوگا اور پوتا محروم رہے گا، چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے جس کی تشریح ہم پہلے کر آئے ہیں۔ (4) واضح رہے کہ شریعت نے وراثت کے سلسلے میں الاقرب فالاقرب كے قانون كو پسند كيا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ہر ایک کے لیے ہم نے اس ترکے کے وارث بنائے ہیں جسے والدین اور قریب تر رشتے دار چھوڑ جائیں۔ “(النساء 4: 33) اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے سلسلے میں رشتے داروں کے فقرواحتیاج اور ان کی بے چارگی کو سرے سے بنیاد ہی نہیں بنایا جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق یہ تأثر دے کر جذباتی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ان کی ذمہ داری کو بنیاد قرار دیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتا تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی مال ودولت کی زیادہ ضرورت مند ہے، اور اس کی بے چارگی کے سبب میت کے مال میں اسے زیادہ حق دار قرار دیا جانا چاہیے تھا جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندی عدم کسب معاش یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے، البتہ اسلام نے اس جذباتی مسئلے کا حل یوں پیش کیا ہے کہ مرنے والا اپنے یتیم پوتے، پوتیوں اور دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکے سے 1/3 حصے کی وصیت کر جائے۔ اگر یتیم پوتے پوتیوں کے موجودگی میں دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارے کے لیے وصیت کرتا ہے تو حاکم وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس وصیت کو ان کے حق میں کالعدم قرار دے کر ضرورت مند یتیم پوتے پوتیوں کے حق میں اسے نافذ قرار دے، ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے پوتیوں کو بذریعۂ ہبہ جائیداد سے کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہے تو اس صورت میں وصیت کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6735
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2898
´عصبہ کی میراث کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذوی الفروض ۱؎ میں مال کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر دو اور جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کو ملے گا جو میت سے سب سے زیادہ قریب ہو ۲؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2898]
فوائد ومسائل: شریعت نے جن کے حصے مقرر کردیئے ہیں۔ انہیں اصحاب الفروض اور اہل الفرض کہتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2898
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2740
´عصبہ کی میراث کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مال کو اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق ذوی الفروض (میراث کے حصہ داروں) میں تقسیم کرو، پھر جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کا ہو گا جو میت کا زیادہ قریبی ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2740]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اصحاب الفروض سے مراد وہ وارث ہیں جن کے حصے قرآن مجید اور حدیث شریف میں مقرر کردیے گئے ہیں۔ یہ بارہ افراد ہیں جن میں چار مرد ہیں اور آٹھ عورتیں ہیں۔ ان کی تفصیل حدیث: 2737 کے ذیل میں گزر چکی ہے۔
(2) مندرجہ بالا افراد میں سے بعض افراد ایک حالت میں اصحاب الفروض میں شامل ہوتے ہیں اور ایک حالت میں عصبہ بن جاتے ہیں، مثلاً: ایک بیٹی یا ایک سے زیادہ بیٹیاں اس وقت اصحاب الفروض میں شامل ہیں جب میت کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو، اگر بیٹا موجود ہو تو بیٹی یا بیٹیاں عصبہ بن جاتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2740
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4141
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حصہ والوں کو ان کے حصے دے دو، پھر جو بچ جائے، وہ اس مرد کا حصہ ہے، جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4141]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: فرائض سے مراد، وہ حصے ہیں، جو قرآن مجید میں طے کر دئیے گئے ہیں، اور یہ چھ ہیں۔ (1) آدھا، (2) چوتھائی، (3) آٹھواں (4) دو تہائی (5) تہائی (6) چھٹا، اور اصحاب الفروض سے مراد، وہ افراد ہیں جن کو یہ حصے ملتے ہیں، اور یہ چار مرد (باپ، دادا، خاوند، اخیافی بھائی) اور آٹھ عورتیں (بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، علاتی بہن، اخیافی بہن، بیوی، ماں اور دادی، نانی) ہیں، حقیقی بہن بھائی، شقیق کہلاتے ہیں، باپ میں شریک علاتی اور ماں شریک اخیافی کہلاتے ہیں، اور اگر اصحاب الفروض سے بچ جائے، تو وہ عصبات کو ملتا ہے، اور اس سے مراد، وہ مرد ہیں، جو میت کے رشتہ دار ہیں، لیکن ان کا حصہ مقرر نہیں ہے، یا وہ مرد رشتہ دار، جو میت کے باپ کے واسطہ سے رشتہ دار ہیں، جیسے میت کا بیٹا، پوتا، بھائی اور چچا وغیرہ۔ ان میں سے جو قریبی ہے، وہ دور والے کو محروم کر دے گا، اس لیے حدیث میں اولیٰ یا ادنیٰ کی قید لگائی ہے، اور رجل کے بعد ذکر اس لیے کہا تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ رجل کبیر، (بڑا) کے معنی میں ہے اور صغیر (چھوٹا) کے مقابلہ میں ہے، بلکہ یہاں انثیٰ (مونث) کے مقابلہ میں ہے، مثلا ایک انسان فوت ہو جاتا ہے، اس کی صرف ایک بیٹی موجود ہے، اور اس کا ایک بھائی زندہ ہے اور ایک چچا، تو بیٹی کو ترکہ کا آدھا حصہ ملے گا، اور باقی آدھا بھائی کو ملے گا، چچا کو کچھ نہیں ملے گا، اور اگر بھائی نہ ہو، تو پھر باقی آدھا چچا کو ملے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4141
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4142
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل فروض (مقررہ حصے والے) کو ان کے حصے دے دو، اور اہل فرائض جو چھوڑیں، تو وہ اس مرد کا ہے جو سب سے زیادہ نزدیک ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4142]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: رجل کے ساتھ، ذکر (مذکر) کی قید لگانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حصہ داری کا سبب، اس کا مذکر ہونا ہے اور عصبات اصل میں عصبہ بنفسہ ہیں، جو مذکر ہوں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4142
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6732
6732. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”مقرر حصے ان کے حقداروں تک پہنچا دو اور جو باقی بچے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مرد کے لیے ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6732]
حدیث حاشیہ: (1) مرنے والے کے ترکے سے حصہ پانے والوں کی دو قسمیں ہیں: ٭اصحاب الفرائض٭ عصبات۔ اصحاب الفرائض سے مراد وہ رشتے دار ہیں جن کا حصہ قرآن کریم میں طے شدہ ہے۔ مقررہ حصوں کی تعداد چھ ہے: نصف 1/2، اس کا نصف ربع1/4، اس کا نصف ثمن1/8۔ اسے گروپ کا نام دیا جاتا ہے۔ ثلثان2/3، اس کا نصف ثلث1/3، اس کا نصف1/6۔ اسے علم وراثت میں گروپ دوم کا نام دیا جاتا ہے۔ مقررہ حصہ لینے والوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ مزید معلومات کے لیے ہماری کتاب " اسلامی قانون وراثت" کا مطالعہ کریں۔ عصبات سے مراد وہ رشتے دار ہیں جن کا حصہ طے شدہ نہیں بلکہ اگر مقررہ حصہ لینے والا کوئی رشتہ دار نہ ہو تو پوری جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں۔ اگر مقررہ حصہ لینے والے موجود ہوں تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ جائیداد کے مالک عصبات ہوتے ہیں، مثلاً: بیٹا، پوتا اور بھائی وغیرہ عصبات ہیں۔ چار عصبات ایسے ہیں جو اپنی بہنوں کو بھی عصبہ بناتے ہیں: ٭بیٹا اپنی بہن، یعنی بیٹی کو۔ ٭پوتا اپنی بہن، یعنی پوتی ہو۔ ٭حقیقی بھائی اپنی حقیقی بہن کو۔ ٭پدری بھائی اپنی پدری بہن کو۔ ان کے علاوہ کوئی عصبہ اپنی بہن کو عصبہ نہیں بناتا، مثلاً: چچا اپنی بہن کو یا چچے کا بیٹا اپنی بہن کو عصبہ نہیں بنائے گا۔ اگر مرنے والے کا چچا اور پھوپھی زندہ ہے تو جائیداد کا حق دار صرف چچا ہوگا،پھوپھی محروم ہوگی،اسی طرح اگر بھتیجا اور بھتیجی ہے تو بھتیجا حق دار اور بھتیجی محروم ہوگی۔ (2) عصابت کی تین قسمیں ہیں: ٭ عصبہ بنفسہ،٭ عصبہ بالغیر،٭ عصبہ مع الغیر، تفصیلات آئندہ بیان کی جائیں گی، ان شاء اللہ۔ (3) واضح رہے کہ مادری بھائی نہ خود عصبہ بنتے ہیں اور نہ اپنی بہنوں ہی کو عصبہ بناتے ہیں۔ قرآن کریم میں مادر بہن بھائیوں کا طے شدہ حصہ بیان ہوا ہے۔ اگر ایک مادری بھائی یا مادری بہن ہے تو انھیں چھٹا حصہ ملے گا اور اگر زیادہ ہیں تو ایک تہائی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ ان میں للذكر مثل حظ الانثيين والا ضابطہ جاری نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6732
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6746
6746. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مقررہ حصے ان کے حق داروں کو پہنچا دو اور جو کچھ ان سے باقی رہے وہ قریبی عزیز مرد کا حصہ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6746]
حدیث حاشیہ: (1) وہ عصبہ جو جہت کے اعتبار سے برابر ہوں وہ باقی ترکے میں برابر کے شریک ہوں گے جیسا کہ مذکورہ بالا صورت میں خاوند اور مادری بھائی کو دینے کے بعد باقی ایک تہائی میں پھر دونوں برابر کے شریک ہیں لیکن کچھ حضرات کہتے ہیں کہ باقی مادری بھائی کو دیا جائے کیونکہ اس میں دو قرابتیں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کے لیے یہ احادیث پیش کی ہیں کہ عصبہ اگر جہت میں برابر ہیں تو باقی مال برابر ہی تقسیم کریں گے۔ (فتح الباري: 35/12)(2) دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دو قرابتیں رکھنے والے وارث کا حق بتایا ہے کہ اسے دونوں قرابتوں کے لحاظ سے حصہ دیا جائے گا یا اسے ایک قرابت کے اعتبار سے حق دار ٹھہرایا جائے گا؟ علم فرائض میں دو قرابتیں رکھنے والے کی تین قسمیں حسب ذیل ہیں: ٭دونوں قرابتیں مقررہ حصے کے اعتبار سے ہوں گی، مثلاً: ایک آدمی اپنی پھوپھی زاد سے شادی کرتا ہے اور ان سے ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے جب وہ لڑکا فوت ہو جائے تو اس کی دادی میں دو قرابتیں جمع ہیں، باپ کی طرف سے دادی اور ماں کی طرف سے نانی ہے۔ اس صورت میں صرف ایک قرابت کا لحاظ ہوگا۔ ٭دونوں قرابتیں عصبہ ہونے کی حیثیت سے ہوں، مثلاً: ایک عورت اپنے چچا زاد سے شادی کرتی ہے اور ایک بیٹا چھوڑ کر فوت ہو جاتی ہے تو اس کا بیٹا دو قرابتوں کا حامل ہے: ایک تو بیٹا ہونے کی حیثیت سے عصبہ ہے اور ایک وہ چچا زاد کا بیٹا بھی ہے، اس صورت میں زیادہ قوت والی جہت کا اعتبار ہوگا دوسری جہت کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا۔ ٭ایک قرابت مقررہ حصے کے اعتبار سے اور دوسری عصبہ ہونے کے لحاظ سے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان میں ہے: تو اس صورت میں دونوں جہتوں کا اعتبار ہوگا کیونکہ دونوں ہی وراثت کی حق دار بناتی ہیں، اگر کوئی رکاوٹ کھڑی ہو جائے تو الگ بات ہے۔ (3) واضح رہے کہ مسلمانوں کے ہاں جو نکاح ہوتے ہیں ان میں درج ذیل صورت میں دو قرابتیں ہو سکتی ہیں: ٭میت کا بیٹا جبکہ وہ میت کے چچا کے بیٹے کا بیٹا بھی ہو۔ ٭مادری بھائی جبکہ وہ چچا زاد بھی ہو۔ ٭خاوند جبکہ وہ چچا کا بیٹا بھی ہو۔ ٭بیوی جبکہ وہ میت کے چچا کی بیٹی ہو۔ شارحین میں سے کسی نے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کے اس مقصود کو بیان نہیں فرمایا۔ هذا مما فتح الله علي بمنه و كرمه و فضله وهو المستعان و عليه التكلان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6746