ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، انہوں نے یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے، کہا مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ (معاویہ رضی اللہ عنہ کی ماں) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ساری زمین پر جتنے ڈیرے والے ہیں (یعنی عرب لوگ جو اکثر ڈیروں اور خیموں میں رہا کرتے تھے) میں کسی کا ذلیل و خوار ہونا مجھ کو اتنا پسند نہیں تھا جتنا آپ کا۔ یحییٰ بن بکیر راوی کو شک ہے (کہ ڈیرے کا لفظ بہ صیغہ مفرد کہا یا بہ صیغہ جمع) اب کوئی ڈیرہ والا یا ڈیرے والے ان کو عزت اور آبرو حاصل ہونا مجھ کو آپ کے ڈیرے والوں سے زیادہ پسند نہیں ہے (یعنی اب میں آپ کی اور مسلمانوں کی سب سے زیادہ خیرخواہ ہوں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی کیا ہے تو اور بھی زیادہ خیرخواہ بنے گی۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے۔ پھر ہند کہنے لگی یا رسول اللہ! ابوسفیان تو ایک بخیل آدمی ہے مجھ پر گناہ تو نہیں ہو گا اگر میں اس کے مال میں سے (اپنے بال بچوں کو کھلاؤں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر تو دستور کے موافق خرچ کرے۔ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 6641]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6641
حدیث حاشیہ: حضرت ہند کا باپ عتبہ جنگ بدر میں حضرت امیر حمزہ کے ہاتھ سےمارا گیا تھا۔ لہذا ہند کو آنحضرت ﷺ سے سخت عداوت تھی۔ یہاں تک کے جب حضرت امیر حمزہ جنگ احد میں شہید ہوئے تو ہند نے ان کا جگر نکال کر چبایا بعد اس کے جب مکہ فتح ہوا تو اسلام لائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6641
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4479
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ہند رضی اللہ تعالی عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کی قسم! زمین کی پشت پر کوئی گھرانہ نہ تھا جس کی ذلت و رسوائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کی ذلت سے زیادہ محبوب ہو اور اب روئے زمین پر آپ کے اہل خانہ سے زیادہ کسی گھرانہ کی عزت مجھے محبوب نہیں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں اور اضافہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4479]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: ايضاً: امام ابن تین نے اس کا یہ معنی کیا ہے کہ مجھے بھی اب تجھ سے محبت ہے، لیکن اکثر علماء نے یہ معنی کیا ہے کہ تیرا ایمان دن بدن مستحکم ہو گا اور اس کے مطابق، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اضافہ ہو گا اور بغض و نفرت سے واپسی ہو گی، کیونکہ آض ايضاً کا اصل معنی رجوع اور واپسی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4479
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4480
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ہند بنت عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہا آئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کی قسم! روئے زمین پر کوئی خاندان نہ تھا، جس کی ذلت و رسوائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کی ذلت سے مجھے زیادہ پسندیدہ ہو اور اب کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہے، جس کی عزت، آپ کے اہل خانہ کی عزت سے زیادہ مجھے محبوب ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں اور اضافہ ہو گا، اس ذات... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4480]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی اور بچوں کا نفقہ (خرچہ) اپنے دور کے دستور کے مطابق خاوند کے ذمہ ہے اور ائمہ حجاز کے نزدیک، عورت اگر اپنے ماں باپ کے گھر کام کاج نہ کرتی ہو یا بیماری وغیرہ سے کر نہ سکتی ہو تو پھر خادمہ مہیا کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے اور احناف کے نزدیک یہ اس صورت میں ہے، جب خاوند مالدار ہو اور بقول بعض اس کا مقصد یہ ہے، اگر عورت کے ساتھ اس کی لونڈی، خدمت کے لیے آئی ہے تو اس کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہو گا، یہ مقصد نہیں ہے کہ اجرت پر اس کے لیے خادمہ رکھی جائے گی۔