ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کچھ لوگ دوزخ سے شفاعت کے ذریعہ نکلیں گے گویا کہ «ثعارير» ہوں۔“ حماد کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا کہ «ثعارير» کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس سے مراد چھوٹی ککڑیاں ہیں اور ہوا یہ تھا کہ آخر عمر میں عمرو بن دینار کے دانت گر گئے تھے۔ حماد کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا: اے ابومحمد! (یہ عمرو بن دینار کی کنیت ہے) کیا آپ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے شفاعت کے ذریعہ لوگ نکلیں گے؟ انہوں نے کہا ہاں بیشک سنا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6558]
قوما يخرجون من النار بعد أن يكونوا فيها قال يعني فيخرجون كأنهم عيدان السماسم قال فيدخلون نهرا من أنهار الجنة فيغتسلون فيه فيخرجون كأنهم القراطيس فرجعنا قلنا ويحكم أترون الشيخ يكذب على رسول الله فرجعنا فلا والله ما خرج منا غير رجل واح
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6558
حدیث حاشیہ: بعض نے کہا کہ ثراریر ایک قسم کی دوسری ترکاری ہے جو سفید ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے دوزخ میں جل جل کر کوئلہ کی طرح کالے پڑجائیں گے۔ پھرجب شفاعت کے سبب سے دوزخ سے نکلیں گے اور ماءالحیاۃ میں نہلائے جائیں گے تو ثعاریر کی طرح سفید ہو جائیں گے۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ مومن دوزخ میں نہیں جائے گا۔ اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہوگئی جو کہتے ہیں کہ شفاعت سے کوئی فائدہ نہ ہوگا، جیسے معتزلہ اور خوارج کا قول ہے۔ بیہقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نکالا انہوں نے خطبہ سنایا، فرمایا اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو رجم کا انکار کریں گے، دجال کا انکار کریں گے، قبر کے عذاب کا انکار کریں گے۔ شفاعت کا انكار کریں گے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت ان لوگوں کے واسطے ہوگی جو میری امت میں کبیرہ گناہوں میں مبلا ہوں گے۔ اللهم ارزقنا شفاعة محمد و آله و أصحابه أجمعین رحمتك یا أرحم الراحمین آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6558
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6558
حدیث حاشیہ: (1) اہل ایمان میں سے کچھ لوگ اپنے گناہوں کی پاداش میں جل کر کوئلہ بن جائیں گے، پھر جب شفاعت کے ذریعے سے نکلیں گے اور آب حیات میں انہیں ڈالا جائے گا تو وہ چھوٹی چھوٹی ککڑیوں کی طرح سفید ہو جائیں گے اور ازسرنو ان میں زندگی پیدا ہو گی۔ (2) اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کرنے والے جہنم میں نہیں جائیں گے اور ان لوگوں کی بھی تردید ہے جن کا موقف ہے کہ شفاعت سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا جیسا کہ معتزلہ اور خوارج کا خیال ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو رجم، دجال، عذاب قبر اور شفاعت کا انکار کریں گے۔ (فتح الباري: 519/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6558
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1282
1282- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات بیان کرتے ہیں: میں گواہی دے کر یہ بات کہتا ہوں کہ میں نے اپنے ان دو کانوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بے شک کچھ لوگ جہنم سے نکالے جائیں گے اور جنت میں داخل کردئیے جائیں گے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1282]
فائدہ: اس حدیث سے بعض گمراہ فرقوں کا رد ہوتا ہے، جو کہتے ہیں کہ جس نے کوئی گناہ کیا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا، اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت ثابت ہوتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1280
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 472
حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کچھ لوگ آگ سے نکالے جائیں گے، ان کے چہروں کے اطراف کے سوا وہ اس میں جل چکے ہوں گے، حتیٰ کہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:472]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : دَارَات: دَارَةٌ کی جمع ہے، منہ کے اطراف و جوانب کو کہتے ہیں، کہ چہرے کا چکر سجدہ کرتا ہے، اس لیے وہ آگ سے محفوظ ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 472
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 473
یزید فقیر سے روایت ہے، کہ خارجیوں کی آراء میں سے ایک رائے میرے دل میں گھر کر گئی، ہم ایک بڑی تعداد کی جماعت کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے، کہ پھر ہم لوگوں میں اس رائے کی تبلیغ کے لیے نکلیں گے۔ تو ہم مدینہ سے گزرے، وہاں دیکھا کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ایک ستون کے پاس بیٹھ کر لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی حدیث سنا رہے ہیں، انھوں نے اچانک دوزخیوں کا تذکرہ کیا، تو میں نے ان سے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھی! یہ آپ لوگ کیا بیان کر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:473]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) نَخْرُجُ عَلَى النَّاسِ: لوگوں کو اس مذہب کی دعوت دینے کے لیے نکلیں گے۔ (2) زَعَمَ: یہ "قَالَ" کے معنی میں استعمال ہو جاتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے۔ نَعَتَ: اس نے بیان کیا۔ (3) عِيدَانُ السَّمَاسِمِ: عيدان، عُوْدٌ کی جمع لکڑی کو کہتے ہیں، سماسم، سمسم کی جمع ہے، اور یہ تل کو کہتے ہیں، اس کے پودوں کو اکھاڑ کر دھوپ میں چھوڑ دیتے ہیں؛ تاکہ ان سے تل نکال لیے جائیں، اور یہ دھوپ میں پڑا رہنے سے سیاہ ہو جاتی ہیں، اور جلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ (4) قَرَاطِيسُ: قِرْطَاسٌ کی جمع ہے، کاغذ۔ فوائد ومسائل: (1) خارجیوں کےنزدیک جہنم میں جانے والےکبھی جہنم سےنہیں نکلیں گے، اور کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر، جہنمی ہے۔ اوریہ عقیدہ، صحیح احادیث کےخلاف ہے، اورجن دوآیتوں کویہاں پیش کیاگیاہے، یہ مسلمان معصیت کار کے بارےمیں نہیں ہیں، ان کاتعلق کافروں اورمشرکوں سےہے۔ (2) کسی صحابیؓ کےبارےمیں یہ تصورنہیں ہوسکتا، کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرےگا، جوبات آپ ﷺ نے فرمائی نہیں اس کو آپ کی طرف منسوب کردےگا۔ اسی اعتقاد کی بنا پر یہ تمام لوگ، خارجیوں کے غلط عقیدہ سےبازآگئے، صرف ایک آدمی اڑا رہا۔ (3) ابونعیم، فضل بن دکین کی کنیت ہے، اور روایت بالمعنی کی صورت میں محتاط رویہ یہی ہے، کہ وہاں "كما قال" کہہ دیاجائے۔