ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے ثور نے، ان سے ابوالغیث نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو پکارا جائے گا۔ پھر ان کی نسل ان کو دیکھے گی تو کہا جائے گا کہ یہ تمہارے بزرگ دادا آدم ہیں۔ (پکارنے پر) وہ کہیں گے کہ لبیک و سعدیک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اپنی نسل میں سے دوزخ کا حصہ نکال لو۔ آدم علیہ السلام عرض کریں گے اے پروردگار! کتنوں کو نکالوں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا فیصد (ننانوے فیصد دوزخی ایک جنتی)۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب ہم میں سو میں ننانوے نکال دئیے جائیں تو پھر باقی کیا رہ جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام امتوں میں میری امت اتنی ہی تعداد میں ہو گی جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6529]
أخرج بعث جهنم من ذريتك فيقول يا رب كم أخرج فيقول أخرج من كل مائة تسعة وتسعين فقالوا يا رسول الله إذا أخذ منا من كل مائة تسعة وتسعون فماذا يبقى منا أمتي في الأمم كالشعرة البيضاء في الثور الأسود
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6529
حدیث حاشیہ: اس لیے اگر ننانوے فیصدی بھی دوزخ میں جائیں تو تم کو فکر نہ کرنا چاہئے ایک فیصد آدم علیہ السلام کی اولاد میں سارے سچے مسلمان آجائیں گے۔ بلکہ دوسری امتوں کے موحد اشخاص بھی ہوں گے۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ دوزخ کی مردم شماری جنت کی مردم شماری سے کہیں زیادہ ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6529
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6529
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تسلی دی کہ اگر ننانوے فی صد بھی جہنم میں جائیں تو تمہیں فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ایک فیصد حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں تمام سچے مسلمان آ جائیں گے بلکہ اس میں دوسری امتوں کے مُوحد (توحید پرست) شخص بھی ہوں گے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل دوزخ کی تعداد اہل جنت کی تعداد سے کہیں زیادہ ہو گی، اس کے باوجود جہنم مزید کا مطالبہ کرے گی جیسا کہ قرآن میں ہے: ”اللہ تعالیٰ جہنم سے فرمائے گا: کیا تو بھر گئی ہے؟ تو وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے۔ “(ق: 30/50) حدیث میں ہے کہ جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو جہنم یہی کہتی رہے گی کہ کچھ اور بھی ہے؟ حتی کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھ دے گا۔ اس وقت وہ کہے گی بس بس (میں بھر گئی) ۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4848) اسی طرح جب سب جنتی جنت میں چلے جائیں گے تو جنت میں بہت سی جگہ خالی پڑی ہو گی، اللہ تعالیٰ اسے بھرنے کے لیے موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا تو اس سے جنت کو بھرے گا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4850)(3) بہرحال قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی امیدوں سے بڑھ کر دے گا جیسا کہ قرآن میں ہے: ”عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔ “(الضحیٰ: 93/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6529