�
فوائد و مسائل: یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ
[صحيح ابن حبان:348]،
[السنن الكبريٰ للبيهقي:346/3،219/10]،
[حلية الاولياء:5،4/1]،
[شرح السنة للبغوي:19/5ح 1248، وقال: هذا حديث صحيح] اور
[الصححيه للالباني:1640] میں موجود ہے۔
اس حدیث میں سماعت، بصارت، ہاتھ اور پاؤں بننے سے دو چیزیں مراد ہیں:
➊ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی حاجات پوری فرماتا ہے۔
➋ بندے کی آنکھ، کان، ہاتھ اور پاؤں وہی کام کرتے ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ دیکھئے:
[شرح السنه:ج5، ص20] اس حدیث سے حلولیت کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں۔
“ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ علیحدہ ہے اور بندہ علیحدہ ہے، دونوں ایک نہیں ہیں نیز دوسرے قطعی دلائل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
انور شاہ کشمیری دیوبندی کا علمائے شریعت پر رد کرنا اور اس حدیث سے حلولیوں کا فناء فی اللہ کا عقیدہ کشید کرنا ديكھئے:
[فيض الباري:ج4،ص428] واضح طور پر غلط ہے۔ اگر بندہ خود خدا ہو جاتا ہے تو پھر
”مجھ سے سوال کرے اور مجھ سے پناہ مانگے
“ کیا معنی رکھتا ہے؟
تنبيه 1: روایت مذکورہ بالاِ خالد بن مخلد کی وجہ سے حسن لذاتہ
(اور شواہد کے ساتھ) صحیح لغیرہ ہے۔
«والحمدلله» تنبيه 2: منکر حدیث معترض نے لکھا ہے:
” امام بخاری کہتے ہیں کہ اللہ پاک بندے میں حلول کر کے اس کے اعضاء بن جاتا ہے۔“ (...محدث:ص19)
امام بخاری نے بندے میں حلول والی بات بالکل نہیں لکھی لہٰذا معترض کی یہ بات بہت بڑا جھوٹ ہے جس کا اسے اللہ کے دربار میں جواب دینا پڑے گا۔
«ان شاءالله»