ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر بن کدام نے بیان کیا، کہا ہم سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی نماز پڑھتے کہ آپ کے قدموں میں ورم آ جاتا یا کہا کہ آپ کے قدم پھول جاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جاتی کہ آپ تو بخشے ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6471]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6471
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں تو پھر آپ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ اس کے بعد آپ نے وہ جواب دیا جو اس حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4836)(2) اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا واجب ہے اور واجب کا ترک حرام ہے۔ جب انسان، واجب کی ادائیگی میں اپنے نفس کو مصروف رکھے گا تو لازمی طور پر وہ حرام چیزوں سے خود کو باز رکھے گا۔ بہرحال شکر کے لیے صبر لازمی ہے کیونکہ اس سے بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کار بند اور اس کی نافرمانی سے باز رہتا ہے۔ (فتح الباري: 369/11) واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6471
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1645
´شب بیداری کے سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان۔` مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پیر سوج جاتے، تو آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں) تو آپ نے فرمایا: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“[سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1645]
1645۔ اردو حاشیہ: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کا سوج جانا سستی کو مستلزم نہیں کیونکہ سستی اور چستی کا تعلق دل اور دماغ کے ساتھ ہے۔ ➋ ”اگلے پچھلے گناہ“ یہ ایک فرضی چیز ہے۔ کہا گیا ہے نبوت سے قبل اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہو۔ بعض نے اس سے ترک اولیٰ مراد لیا ہے جو آپ اپنی امت کی مصلحت کی خاطر کیا کرتے تھے، مثلاً: جنگ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا یا عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھنا وغیرہ۔ اسے اجتہادی خطا سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ ➌ ”شکرگزار بندہ“ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھ گچھ موقوف کر دی ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ میں ہر دم اسی کو یاد کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی اداؤں نے آپ کو سیدالاولین والآخرین بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد ہی کی وجہ سے آپ مقام محمود پر فائز ہوں گے۔ (فداہ نفسی و روحی صلی اللہ علیہ وسلم) ➍ شکر جیسے زبان سے ادا ہوتا ہے عمل سے بھی ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1645
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1419
´نماز میں قیام لمبا کرنے کا بیان۔` مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے پیروں میں ورم آ گیا، تو عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1419]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) پیغمبرگناہ سے معصوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگرفرض کرلیا جائے کہ کوئی گناہ سر زد ہوجائےگا تو اس کو پہلے سے معاف کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ اس سے مقصد رسول اللہ ﷺ کے بلند مقام ومرتبہ کا اظہار ہے یا گناہ سےمراد وہ اعمال ہوسکتے ہیں۔ جہاں نبی اکرم ﷺ نے کسی مصلحت کے بنا پر افضل کام کو چھوڑ کر دوسرا جائز کام اختیار فرمایا۔
(2) اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اعلیٰ مقام دے تو اس کو چاہیے کہ شکر کا زیادہ اہتما م کرے۔
(3) شکر کا بہترین طریقہ عبادت میں محنت کرنا ہے۔ خصوصاً نماز او ر تلاوت قرآن مجید میں۔ نماز تہجد میں یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1419
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 412
´نماز میں خوب محنت اور کوشش کرنے کا بیان۔` مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ کے پیر سوج گئے تو آپ سے عرض کیا گیا: کیا آپ ایسی زحمت کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟“۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 412]
اردو حاشہ: 1؎: یعنی زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھنے کا بیان۔
2؎: تو جب بخشے بخشائے نبی اکرم ﷺ بطور شکرانے کے زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھا کرتے تھے یعنی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت لگاتے تھے تو ہم گنہگار اُمتیوں کو تو اپنے کو بخشوانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی طرف مسنون اعمال کے ذریعے اور زیادہ دھیان دینا چاہئے۔ البتہ بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 412
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:777
777- سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیام کیا (یعنی بکثرت نوافل ادا کیا) کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں ورم آلود رہنے لگے، تو عرض کی گئی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گزشتہ اور آئندہ گناہوں کی مغفرت نہیں کردی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:777]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد لمبے قیام و رکوع و سجود والی پڑھتے تھے۔ نیز تہجد کا اہتمام کرنا گویا اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے اس لیے زیادہ لمبا قیام کرنے کی وجہ سے آپ کے قدم متورم ہو جاتے تھے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 777
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7126
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازپڑھتےاس قدر قیام کرتے،حتی کہ آپ کے پاؤں پھٹ جاتے،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا، اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب معاف کیے جا چکے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:"اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا!توکیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7126]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ذنب کا اطلاق بہت وسیع ہے، جو کام کسی کی شان ومقام سے فروتر ہو، یا خلاف اولیٰ ہو، اس کو بھی ''ذنب '' کہتے ہیں اور اس سے بڑھ کر کفروشرک تک بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، یہاں مراد وہ کام ہیں، جو آپ کے بلندوبالا مقام سے فروتر تھے، یا خلاف اولیٰ تھے اور بقول قاضی سلیمان رحمہُ اللہ ُاس سے مراد وہ الزامات ہیں جو ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد آپ پر لگائے گئے تھے، تفصیل کے لیے رحمتہ للعالمین میں دیکھئے، پیر کرم شاہ نے یہ معنی نقل کیا، لیکن قاضی صاحب کا نام نہیں لیا۔ (ضیاء القرآن ج5 ص 532 تا533) یہ معنی کرنا تکلف سے خالی نہیں ہے، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ ﴿١٤﴾(الشعراء: 14) سے استدلال کیا ہے، اور اس ذنب کو موسیٰ علیہ السلام خود ظلم سے تعبیر کرکے معافی کی درخواست کرتے ہیں قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿١٦﴾(سورة القصص: 16) اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عبادت میں اس قدر مشقت برداشت کرنا مغفرت کے شکر کے طور پر تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ کرم وفضل فرمایا ہے کہ میرے تمام ذنب معاف فرمادیے ہیں تو مجھے اس نعمت و کرم کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا شکر جس طرح زبان سے ادا کیا جاتا ہے، اسی طرح عمل سے بھی شکر ادا کیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا (سورة سبا: 13)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7126
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1130
1130. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ فرماتے ہیں: نبی ﷺ نماز (تہجد) میں اتنا قیام فرماتے کہ آپ کے دونوں پاؤں یا دونوں پنڈلیوں پر ورم آ جاتا۔ اور جب آپ سے اس کے متعلق کہا جاتا تو فرماتے: ”کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1130]
حدیث حاشیہ: سورۃ مزمل کے شروع نزول کے زمانہ میں آپ ﷺ کا یہی معمول تھا کہ رات کے اکثر حصوں میں آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1130
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1130
1130. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ فرماتے ہیں: نبی ﷺ نماز (تہجد) میں اتنا قیام فرماتے کہ آپ کے دونوں پاؤں یا دونوں پنڈلیوں پر ورم آ جاتا۔ اور جب آپ سے اس کے متعلق کہا جاتا تو فرماتے: ”کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1130]
حدیث حاشیہ: (1) ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے آپ سے عرض کیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں تو آپ اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: ”میں ایسا اللہ کی شکر گزاری کے طور پر کرتا ہوں۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ شکر گزاری کا ایک طریقہ نماز ہے، نیز معلوم ہوا کہ شکر زبان کے علاوہ عمل سے بھی ادا کرنا چاہیے، کیونکہ زبان سے اعتراف احسان کرتے ہوئے خدمات کی بجا آوری کو شکر کہا جاتا ہے۔ (فتح الباری: 21/3)(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت کے سلسلے میں اپنے آپ پر سختی کی جا سکتی ہے، خواہ وہ جسمانی تکلیف ہی کا باعث کیوں نہ ہو، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے، حالانکہ آپ کو علم تھا کہ آپ کے سب گناہ معاف ہیں، تو جس انسان کو اپنے انجام کے متعلق علم نہیں اسے تو بالاولیٰ اسے سرانجام دینا چاہیے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کثرت عبادت اور اس پر سختی، دل کی تنگی کا باعث نہ ہو، کیونکہ حدیث میں ہے کہ تم اپنی ہمت کے مطابق اعمال بجا لاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اجر دینے میں تنگ دل نہیں، تم خود ہی عبادت سے تنگ آ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5861)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1130