ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زبرقان نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دیکھو جو نیک کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ بلکہ اس کے قریب رہو (میانہ روی اختیار کرو) اور خوش رہو اور یاد رکھو کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا: اور آپ بھی نہیں یا رسول اللہ! فرمایا اور میں بھی نہیں۔ سوا اس کے کہ اللہ اپنی مغفرت و رحمت کے سایہ میں مجھے ڈھانک لے۔ مدینی نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ موسیٰ بن عقبہ نے یہ حدیث ابوسلمہ سے ابوالنصر کے واسطے سے سنی ہے، ابوسلمہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ اور عفان بن مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”درستی کے ساتھ عمل کرو اور خوش رہو۔“ اور مجاہد نے بیان کیا کہ «سدادا سديدا» ہر دو کے معنیٰ صدق کے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6467]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6467
حدیث حاشیہ: یعنی سچائی کو ہر حال میں اختیار کرو تم اعمال خیر کروگے تم کو جنت کی بلکہ دنیا میں بھی کامیابی کی بشارت ہے۔ قرآن کی آیت ﴿قُولُوا قولا سَدِیدا﴾(الأعراف: 43) کی طرف اشارہ ہے۔ عفان بن مسلم حضرت اما م بخاری کے استاد ہیں اس سند کو لا کر امام بخاری نے علی بن عبد اللہ مدینی کا گمان رفع کیا کہ اگلی روایت منقطع ہے کیونکہ اس میں موسیٰ کے سماع کی ابو سلمہ سے صراحت ہے حدیث میں سدودا کا لفظ آیا تھا سدیداسدادا کا بھی وہی مادہ ہے اس مناسبت سے امام بخاری نے اس کی تفسیر یہاں بیان کر دی۔ قرآن شریف میں جو ہے ﴿تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾(الاعراف: 43) اس کے معارض نہیں ہے کیونکہ عمل صالح بھی منجملہ اسباب دخول جنت ایک سبب ہے لیکن اصلی سبب رحمت اور عنایت الٰہی ہے بعض نے کہا آیت میں ترقی درجات مراد ہے نہ محض دخول جنت اور ترقی اعمال صالحہ کے لحاظ سے ہوگی اس حدیث سے معتزلہ کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں اعمال صالحہ کرنے والے کو بہشت میں لے جانا اللہ پر واجب ہے۔ معاذاللہ منه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6467
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6467
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث میں کسی کام کو میانہ روی کے ساتھ ہمیشہ کرنے کی اہمیت و افادیت بیان کی گئی ہے۔ اس عنوان کے دو اجزاء نہیں بلکہ ایک ہی جز کے دو رخ ہیں کیونکہ اسی کام کو ہمیشہ کیا جا سکتا ہے جو میانہ روی اور اعتدال کے ساتھ کیا جائے اور اس میں افراط یا تفریط سے اس کی افادیت اور اہمیت مجروح ہو جاتی ہے قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر اعتدال قائم رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ ہم صرف تین آیات پیش کرتے ہیں: ٭ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”آپ اپنی نماز کو نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اعتدال کا لہجہ اختیار کریں۔ “(بني إسرائیل: 110) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن اتنی بلند آواز سے نہ پڑھیں کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کریں۔ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”نہ تم اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے پوری طرح کھلا ہی چھوڑ دو ورنہ تم خود ملامت زدہ اور درماندہ بن کر رہ جاؤ گے۔ “(بنی اسرائیل: 17/29) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لیا جائے اور نہ اتنا زیادہ ہی خرچ کیا جائے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے بلکہ میانہ روی کو اختیار کرنا چاہیے۔ خرچ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی ہدایت یہ ہے: ”اور جو لوگ خرچ کرتے ہیں وہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔ “(الفرقان: 67) مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے کاموں میں حد سے زیادہ خرچ کرنا معیوب ہے، اسی طرح ضرورت کے وقت پیسہ خرچ نہ کرنا بلکہ اسے جوڑ کر رکھنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ اعتدال کی پالیسی کو اختیار کرنا چاہیے۔ (2) اسراف اور بخل کے درمیان صفت کو اقتصاد یا قصد کہتے ہیں۔ اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔ اقتصاد یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت پر اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضروری ہو، نہ کم ہو نہ زیادہ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان اور پیش کردہ احادیث کا یہی مقصد ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6467
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6464
6464. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”درستی کا قصد کرو، افراط تفریط کے درمیان اعتدال کرو اور یقین کرو کہ تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ اللہ تعالٰی کے ہاں زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے خواہ وہ کم ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6464]
حدیث حاشیہ: فرائض الٰہی میں کمی بیشی کا سوال ہی نہیں ہے۔ یہ جملہ نفل عبادتوں کا ذکر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6464