اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ ہود میں) فرمایا «من كان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم أعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون * أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط ما صنعوا فيها وباطل ما كانوا يعملون»”جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا طالب ہے تو ہم اس کے تمام اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں اس کو بھر پور دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے لیے کسی طرح کی کمی نہیں کی جاتی یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں دوزخ کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور جو کچھ انہوں نے اس دنیا کی زندگی میں کیا وہ (آخرت کے حق میں) بیکار ثابت ہوا اور جو کچھ (اپنے خیال میں) وہ کرتے ہیں سب بیکار محض ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: Q6443]
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن رفیع نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک روز میں باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا، ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس سے میں سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند نہیں فرمائیں گے کہ آپ کے ساتھ اس وقت کوئی رہے۔ اس لیے میں چاند کے سائے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اس کے بعد آپ مڑے تو مجھے دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ابوذر! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابوذر! یہاں آؤ۔ بیان کیا کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ (دنیا میں) زیادہ مال و دولت جمع کئے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہی خسارے میں ہوں گے۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور انہوں نے اسے دائیں بائیں، آگے پیچھے خرچ کیا ہو اور اسے بھلے کاموں میں لگایا ہو۔ (ابوذر رضی اللہ عنہ نے) بیان کیا کہ پھر تھوڑی دیر تک میں آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں بیٹھ جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور فرمایا کہ یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس لوٹ آؤں۔ پھر آپ پتھریلی زمین کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ آپ وہاں رہے اور دیر تک وہیں رہے۔ پھر میں نے آپ سے سنا، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے تھے ”چاہے چوری ہو، چاہے زنا ہو“ ابوذر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے۔ اس پتھریلی زمین کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے تو کسی دوسرے کو آپ سے بات کرتے نہیں دیکھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔ پتھریلی زمین (حرہ) کے کنارے وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا: اے جبرائیل! خواہ اس نے چوری کی ہو، زنا کیا ہو؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں، خواہ اس نے شراب ہی پی ہو۔ نضر نے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی (کہا) ہم سے حبیب بن ابی ثابت، اعمش اور عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا، ان سے زید بن وہب نے اسی طرح بیان کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ابوصالح نے جو اسی باب میں ابودرداء سے روایت کی ہے وہ منقطع ہے (ابوصالح نے ابودرداء سے نہیں سنا) اور صحیح نہیں ہے ہم نے یہ بیان کر دیا تاکہ اس حدیث کا حال معلوم ہو جائے اور صحیح ابوذر کی حدیث ہے (جو اوپر مذکور ہوئی) کسی نے امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا عطاء بن یسار نے بھی تو یہ حدیث ابودرداء سے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہا وہ بھی منقطع ہے اور صحیح نہیں ہے۔ آخر صحیح وہی ابوذر کی حدیث نکلی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ابودرداء کی حدیث کو چھوڑو (وہ سند لینے کے لائق نہیں ہے کیونکہ وہ منقطع ہے) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ابوذر کی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مرتے وقت آدمی «لا إله إلا الله» کہے اور توحید پر خاتمہ ہو (تو وہ ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں جائے گا گو کتنا ہی گنہگار ہو)۔ بعض نسخوں میں یہ ہے «هذا اذا تاب وقال لا إله إلا الله عند الموت» یعنی ابوذر کی حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو گناہ سے توبہ کرے اور مرتے وقت «لا إله إلا الله» کہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6443]
المكثرين هم المقلون يوم القيامة إلا من أعطاه الله خيرا فنفح فيه يمينه وشماله وبين يديه ووراءه وعمل فيه خيرا ذلك جبريل عرض لي في جانب الحرة قال بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت يا جبريل وإن سرق وإن زنى قال نعم قال قلت وإ
المكثرين هم المقلون يوم القيامة إلا من أعطاه الله خيرا فنفح فيه يمينه وشماله وبين يديه ووراءه وعمل فيه خيرا ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة فقال بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة فقلت يا جبريل وإن سرق وإن زنى قال نعم قال قلت وإن سرق وإن
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6443
حدیث حاشیہ: زید بن وہب کی سند کے بیان کرنے سے امام بخاری نے عبد العزیز کا سماع زید بن وہب سے ثابت کر دیا اور تدلیس کے شبہ کو رفع کر دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6443
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6443
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو آگاہ کیا تھا کہ آخرت کی دشوار گزار گھاٹیوں کو وہی لوگ عبور کر سکیں گے جو دنیا میں ہلکے پھلکے رہیں گے اور جو لوگ دنیا میں اپنے اوپر زیادہ بوجھ لاد لیں گے وہ آسانی سے ان گھاٹیوں کو پار نہ کر سکیں گے، اس لیے اکثر صحابہ فقر و فاقے کی زندگی ہی کو اپنے لیے پسند کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجر فقراء قیامت کے دن مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ “(صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7463 (2979) حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں آدم کا بیٹا ناپسند کرتا ہے: انسان موت کو ناپسند کرتا ہے، حالانکہ موت اہل ایمان کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور وہ قلت مال کو ناپسند کرتا ہے جبکہ قلت مال کا حساب کم ہے۔ “(مسند أحمد: 427/5)(2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں زیادہ مال دار لوگ قیامت کے دن اسی قدر زیادہ نادار ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنے مال آخرت بنانے کے بجائے اسے اپنی سج دھج اور ٹھاٹھ باٹھ میں خرچ کر دیا، اس لیے قیامت کے دن وہ درج ذیل آیت کا مصداق ہوں گے: ”تم نے اپنی چیزیں دنیا کی زندگانی میں حاصل کر لیں اور تم نے ان سے فائدہ اٹھا لیا، اس لیے آج تمہیں ذلیل و رسوا کرنے والے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ “(الأحقاف: 20) یہی وجہ ہے کہ عموماً اللہ تعالیٰ کے نافرمان دنیاوی اعتبار سے زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6443
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5226
´آدمی کسی سے کہے ”اللہ مجھے آپ پر فدا کرے“ تو کیسا ہے؟` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو پکارا: اے ابوذر! میں نے کہا: میں حاضر ہوں حکم فرمائیے اللہ کے رسول! میں آپ پر فدا ہوں۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5226]
فوائد ومسائل: یہ کلمہ میں تجھ پر واری قربان یا فدا معمولی کلمہ نہیں ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے وہیں استعمال ہونا چاہیے جہاں دنیا اور آخرت کی سعادت ہو۔ مثلا صالح ماں، باپ یا راسخ فی العلم ربانی علماء جو دین کے صحیح معنی میں معلم اور داعی ہوں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5226
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4130
´مالداروں کا بیان۔` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیادہ مال والے لوگ قیامت کے دن سب سے کمتر درجہ والے ہوں گے، مگر جو مال کو اس طرح اور اس طرح کرے اور اسے حلال طریقے سے کمائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4130]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: سخاوت سے اس شخص کو فائدہ ہوسکتا ہے جس کی کمائی حلال ہولہٰذا حرام کمائی سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4130
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2305
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک رات نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چلے جا رہے ہیں آپﷺ کے ساتھ کوئی شخص نہیں ہے تو میں نے خیال کیا آپﷺ اس بات کو ناپسند کر رہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے، تو میں چاند کے سایہ میں چلنے لگا۔ آپﷺ نے مجھے مڑ کر دیکھ لیا۔ اور فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا ابو ذر ہوں، اللہ مجھے آپﷺ پر قربان کرے۔ آپﷺ نے فرمایا: (ابو ذر! آ جاؤ) تو میں آپﷺ کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) مالداروں کو اپنا وافرمال ہر قسم کے نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہیے اگر وہ قیامت کے دن بلند مراتب پر فائز ہونا چاہتے ہیں۔ مگر اگر وہ اپنا مال وجوہ خیر اور اسلام اور اہل اسلام کی بہتری اور مفادات کے حصول کے لیے کھلے دل سے ہر وقت اور ہر موقع پر اپنی قدرت کے مطابق خرچ نہیں کریں گے۔ تو وہ اعلیٰ درجات سے محروم رہیں گے۔ (2) توحید کا اصل خاصہ اور خصوصی امتیاز یہ ہے کہ اگر انسان اس کا صحیح حق ادا کرے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا لیکن اگر اس کے حقوق کی ادائیگی میں کمی اور کوتاہی کی تو اس خاصہ اور امتیاز کے ظہور میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور اس رکاوٹ کے ازالہ تک دوزخ میں رہنا پڑے گا اور آخر کار دوزخ سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ (3) چوری اور زنا انتہائی قبیح جرائم ہیں جو دوسروں کے مال اور عزت و ناموس پر ڈاکہ زنی ہیں اس لیے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے تعجب کے انداز میں پوچھا: چوری اور زنا کا مرتکب بھی جنت میں چلا جائے گا تو جبریل نے جواب دیا۔ ایسا انسان بھی جنت سے محروم نہیں رہے گا۔ بلکہ ان سے بڑھ کر جرم شراب نوشی کا مرتکب بھی موحد ہونے کی صورت میں جنت سے محروم نہیں رہے گا۔ حالانکہ شرابی ہر قسم کی شرم و حیا سے عاری ہوتا ہے اور اس سے کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔