ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص سے مسجد کے ایک گوشے میں چپکے چپکے کان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے جب تشریف لائے تو لوگ سو رہے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/حدیث: 642]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 642
حدیث حاشیہ: سونے سے مراد اونگھنا ہے جیسا کہ ابن حبان اوراسحاق بن راہویہ نے روایت کیا ہے کہ بعض لوگ اونگھنے لگے، چونکہ عشاءکی نماز کے وقت میں کافی گنجائش ہے اورباتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے آپ نے نماز کو مؤخر کردیا۔ حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد ان شرعی سہولتوں کو بیان کرنا ہے جو روا رکھی گئی ہیں۔ آج جب کہ مصروفیات زندگی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اورہر ہر منٹ مصروفیات کا ہے حدیث نبوی ''الإمام ضامن'' کے تحت امام کو بہرحال مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 642
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 642
فوائد:
➊ اس میں ان لوگوں کا رد ہے جن کا کہنا ہے کہ اقامت کہنے والا جب «قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ» کہے تو امام پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ «اللهُ أَكْبَرُ» کہہ کر نماز شروع کر دے۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت ہو تو اقامت اور نماز کے درمیان لمبا وقفہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں! بلا ضرورت ایسا نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول نہیں تھا۔
➌ لوگوں کے سونے سے مراد بیٹھے بیٹھے سونا ہے، ایسی نیند نہیں جس میں آدمی کو وضو ٹوٹنے کا پتا نہ چل سکتا ہو، کیونکہ ایسی نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جو دوبارہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ [ابن حبان 2035] میں حمید سے ہشام کی روایت میں ہے: «حَتَّى
نَعَسَ بَعْضُ الْقَوْمِ» یہاں تک کہ بعض لوگ اونگھنے لگے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ سونے سے اونگھنا مراد ہے۔
➍ لوگوں کی موجودگی میں دو آدمی علیحدہ ہو کر باتیں کر سکتے ہیں، البتہ تین آدمی ہوں تو ان میں سے دو کو الگ ہو کر بات کرنا منع ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔
➎ اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ خلق اور حلم بھی ظاہر ہے کہ اس آدمی کی بات اتنی دیر تک تحمل سے سنتے رہے کہ کچھ لوگ سو گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 642
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:642
حدیث حاشیہ: (1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ جب مؤذن قد قامت الصلاة کے الفاظ کہہ دے تو امام کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اختتام پر تکبیر تحریمہ کہہ دے اور نماز شروع کردے۔ امام بخاری ؒ فرماتےہیں کہ یہ تشریع ایجادِ بندہ ہے، چنانچہ اقامت کے بعد اگر امام کوکوئی ضرورت آپڑے تو اسے پورا کرسکتا ہے، یعنی اقامت کے فوراً بعد امام کو نماز شروع کرنا لازم نہیں، نیز اگر تاخیر ہو جائے تو اقامت کا اعادہ بھی ضروری نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد شرعی سہولتوں کو بیان کرنا ہے۔ آج مصروفیاتِ زندگی حد سے بڑھ چکی ہیں، اس لیے امام کو مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن طریقۂ نبوی کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ سونے سے مراد اونگھنا ہے، جیسا کہ ابن حبان کی روایت میں ہے۔ چونکہ عشاء کی نماز کے وقت میں کافی وسعت ہوتی ہے اور باتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز کو مؤخر فرما دیا، نیز یہ سہولت صرف امام کے لیے ہے، مقتدیوں کے لیے نہیں۔ (فتح الباري: 163/2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان فصل کیا جاسکتا ہے، بلاوجہ ایسا کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 642
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 201
´اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو` «. . . أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: أُقِيمَتْ صَلَاةُ الْعِشَاءِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي حَاجَةً، فَقَامَ يُنَاجِيهِ حَتَّى نَعَسَ الْقَوْمُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ وَلَمْ يَذْكُرْ وُضُوءًا . . .» ”. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عشاء کی نماز کی اقامت کہی گئی، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، اور کھڑے ہو کر آپ سے سرگوشی کرنے لگا یہاں تک کہ لوگوں کو یا بعض لوگوں کو نیند آ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ ثابت بنانی نے وضو کا ذکر نہیں کیا . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 201]
فوائد و مسائل: اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت ہے، نہ امام پر یہ واجب ہےکہ تکبیر کے فوراً بعد «الله اكبر» کہہ کر نماز شروع کر دے جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 201
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 542
´اقامت کے بعد امام مسجد نہ پہنچے تو لوگ بیٹھ کر امام کا انتظار کریں۔` حمید کہتے ہیں میں نے ثابت بنانی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو نماز کی تکبیر ہو جانے کے بعد بات کرتا ہو، تو انہوں نے مجھ سے انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حدیث بیان کی کہ نماز کی تکبیر کہہ دی گئی تھی کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور اس نے آپ کو تکبیر ہو جانے کے بعد (باتوں کے ذریعے) روکے رکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 542]
542۔ اردو حاشیہ: ➊ اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اور مناسب بات کر لینا بھی جائز ہے۔ ➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی متواضع انسان تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم ا جمعین کی ازحد دل جوئی فرمایا کرتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 542
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 544
´اقامت کے بعد امام مسجد نہ پہنچے تو لوگ بیٹھ کر امام کا انتظار کریں۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز (عشاء) کی تکبیر کہی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں ایک شخص سے باتیں کر رہے تھے، تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ سونے لگے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 544]
544۔ اردو حاشیہ: اس قدر طویل انتظار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے، تاہم اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تکبیر کے بعد امام کسی سے ضروری بات میں مشغول ہو جائے تو ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ امام کا انتظار کیا جائے اور اس پر امام کو مطعون نہ کیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 544
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 792
´اقامت کے بعد امام کو کوئی ضرورت پیش آ جائے جس سے وہ نماز مؤخر کر دے۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص سے راز داری کی باتیں کر رہے تھے، تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ سونے لگے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 792]
792 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اس آدمی سے بات چیت کسی ضروری مسئلے میں ہو گی لہٰذا کوئی ضرورت پڑ جائے تو اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ ہو سکتا ہے بلکہ صفوں کی تصحیح و ترصیص کے لیے امام اقامت کے بعد ہدایات دے سکتا ہے۔ صفوں کی درستی کے بعد تکبیر تحریمہ کہی جائے۔ ➋ لوگ سو گئے۔ یعنی اونگھنے لگے۔ ارکان نماز کی حالتوں می سے کسی حالت میں اونگھنا اس وقت تک وضو کے لیے مضر نہیں جب تک شعور اور فہم و ادراک زائل نہ ہو یعنی گہری نیند نہ سوئے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 792
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 834
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نماز کے لیے تکبیر کہ دی گئی جبکہ رسول اللہ ﷺ ایک آدمی سے سرگوشی فرما رہے تھے اور آپﷺ سرگوشی فرماتے رہے، یہاں تک کہ آپﷺ کے ساتھی سو گئے، پھر آپﷺ نے آ کر نماز پڑھائی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:834]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: نماز کے انتظار میں اگر انسان بیٹھا بیٹھا سو جائے اور نیند اس قدر گہری نہ ہو کہ انسان کو وضو ٹوٹنے کا پتہ ہی نہ چلے ان کا ادراک بدستور قائم ہو، جس سے ہوا خارج ہونے کا پتہ چل جائے تو پھر وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اگر حواس معطل ہو جائیں اور گہری نیند کی بنا پر ادراک و شعور قائم نہ رہے تو نیند مظنہ ہے وضو ٹوٹنے کا اس لیے یوں سمجھا جائے گا کہ وضو ٹوٹ گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 834
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 836
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عشاء کی نماز کے لیے اقامت کہ دی گئی تو ایک آدمی نے (رسول اللہ ﷺ سے) کہا، مجھے ایک ضرورت ہے، آپﷺ کھڑے ہو کر اس سے سرگوشی کرنے لگے حتیٰ کہ لوگ سو گئے یا کچھ لوگ سو گئے، پھر سب نے نماز پڑھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:836]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: احادیث کا مقصد یہ ہے کہ نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا لیکن نیند اگر گہری ہو تو ہوا کے خارج ہو جانے کا احتمال ہے، اس لیے نیند وضو ٹوٹنے کا محل اور موقع ہے اس لیے اس کا انحصارانسان کے حواس پر ہے اگر یہ خطرہ اور اندیشہ ہو کہ ہوا خارج ہو گئی ہے لیکن گہری نیند ہونے کی بنا پر پتہ نہیں چلا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اگر یہ خطرہ نہ ہو بلا سبب وقرینہ محض شک و شبہ ہوتو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 836
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 643
643. حمید الطویل فرماتے ہیں: میں نے ثابت بنانی سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اقامت کے بعد گفتگو کرتا ہے، تو انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے آپ کو اقامت ہو جانے کے بعد روک لیا (اور باتیں کرتا رہا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:643]
حدیث حاشیہ: یہ آپ ﷺ کے کمال اخلاق حسنہ کی دلیل ہے کہ تکبیر ہو چکنے کے بعد بھی آپ نے اس شخص سے گفتگو جاری رکھی۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب تک ملنے والا خود جدا نہ ہوتا آپ ضرور موجود رہتے۔ یہاں بھی یہی ماجرا ہوا۔ بہرحال کسی خاص موقع پر اگرامام ایسا کرے تو شرعاً اس پر مؤاخذہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 643
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:643
643. حمید الطویل فرماتے ہیں: میں نے ثابت بنانی سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اقامت کے بعد گفتگو کرتا ہے، تو انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے آپ کو اقامت ہو جانے کے بعد روک لیا (اور باتیں کرتا رہا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:643]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے: رسول اللہ ﷺ اس شخص سے گوشۂ مسجد میں تادیر گفتگو کرتے رہے یہاں تک کے لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔ (حدیث: 642) اس سے ثابت ہوا کہ کسی شرعی معاملے سے متعلق اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان گفتگو کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ سے پہلے مقتدی حضرات کو صفیں درست کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ چونکہ اس قسم کی گفتگو نماز سے متعلق ہے، اس لیے کسی کوبھی اس کے جواز میں کلام نہیں ہے۔ بہرحال کسی خاص ضرورت ومصلحت کے بغیر اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان گفتگو کرنا پسندیدہ عمل نہیں اور ضرورت کے پیش نظر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ والله أعلم.(2) حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ اذان اور اس کے متعلقات پر کل 47 احادیث ہیں جن میں 6 معلق، 23 مکرر اور خالص 24 احادیث مروی ہیں، اس کے علاوہ صحابہ و تابعین کے 8 آثار بھی بیان کیے گئے ہیں۔ (فتح الباري: 164/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 643
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6292
6292. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی جبکہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ سے سرگوشی میں مصروف تھا وہ دیر تک سر گوشی کرتا رہا حتٰی کہ آپ کے صحابہ کرام ؓ کو نیند آنے لگی پھر آپ اٹھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6292]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ اقامت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں ایک آدمی سے سرگوشی کرتے رہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 642) دوسری روایت میں ہے کہ جب تکبیر کہی گئی تو ایک آدمی آیا اور اس نے آپ کو روک کر سرگوشی شروع کر دی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 643)(2) ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تکبیر کے بعد ضروری بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6292
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 643
ایک شخص کے متعلق مسئلہ دریافت کیا جو نماز کے لیے تکبیر ہونے کے بعد گفتگو کرتا رہے۔ اس پر انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ تکبیر ہو چکی تھی۔ اتنے میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راستہ میں ملا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے تکبیر کہی جانے کے بعد بھی روکے رکھا۔ [صحيح بخاري ح: 643]
فائدہ:
اس حدیث کی شرح کے لیے اس سے پچھلا باب ملاحظہ کریں، اس میں اقامت کے بعد کوئی ضرورت پیش آنے کا ذکر ہے، یہاں اقامت کے بعد بات کرنے کا ذکر ہے۔ حدیث سے دونوں باتیں ثابت ہو رہی ہیں۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 643