الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
4. بَابٌ في الأَمَلِ وَطُولِهِ:
4. باب: آرزو کی رسی کا دراز ہونا۔
حدیث نمبر: Q6417
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ سورة آل عمران آية 185 وَقَوْلِهِ: ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ سورة الحجر آية 3، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: ارْتَحَلَتِ الدُّنْيَا مُدْبِرَةً وَارْتَحَلَتِ الْآخِرَةُ مُقْبِلَةً وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ وَلَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا، فَإِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابَ، وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلٌ بِمُزَحْزِحِهِ بِمُبَاعِدِهِ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور» پس جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔ اور (سورۃ الحجر) میں فرمایا «ذرهم يأكلوا ويتمتعوا ويلههم الأمل فسوف يعلمون» اے نبی! ان کافروں کو چھوڑ کہ وہ کھاتے رہیں اور مزے کرتے رہیں اور آرزو ان کو دھوکے میں غافل رکھتی رہے، پس وہ عنقریب جان لیں گے جب ان کو موت اچانک دبوچ لے گی۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آ رہی ہے۔ انسانوں میں دنیا و آخرت دونوں کے چاہنے والے ہیں۔ پس تم آخرت کے چاہنے والے بنو، دنیا کے چاہنے والے نہ بنو، کیونکہ آج تو کام ہی کام ہے حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہو گا اور عمل کا وقت باقی نہیں رہے گا۔ سورۃ البقرہ میں لفظ «بمزحزحه» بمعنی «بمباعده» ہے اس کے معنی ٰ ہٹانے والا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: Q6417]
حدیث نمبر: 6417
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ مُنْذِرٍ، عَنْ رَبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِي الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْهُ، وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلَى هَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِهِ الَّذِي فِي الْوَسَطِ، وَقَالَ:" هَذَا الْإِنْسَانُ، وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ، أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِهِ، وَهَذَا الَّذِي هُوَ خَارِجٌ أَمَلُهُ، وَهَذِهِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ الْأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ قطان نے خبر دی، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے منذر بن یعلیٰ نے، ان سے ربیع بن خثیم نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوکھٹا خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو (بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6417]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريهذا الإنسان وهذا أجله محيط به أو قد أحاط به وهذا الذي هو خارج أمله وهذه الخطط الصغار الأعراض فإن أخطأه هذا نهشه هذا وإن أخطأه هذا نهشه هذا
   جامع الترمذيهذا ابن آدم وهذا أجله محيط به وهذا الذي في الوسط الإنسان وهذه الخطوط عروضه إن نجا من هذا ينهشه هذا والخط الخارج الأمل
   سنن ابن ماجههذا الإنسان الخط الأوسط وهذه الخطوط إلى جنبه الأعراض تنهشه أو تنهسه من كل مكان فإن أخطأه هذا أصابه هذا والخط المربع الأجل المحيط والخط الخارج الأمل

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6417 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6417  
حدیث حاشیہ:
اس چوکھٹے کی شکل یوں مرتب کی گئی ہے۔
اندر والی لکیر انسان ہے جس کو چاروں طرف سے مشکلات نے گھیر رکھا ہے اور گھیرنے والی لکیر اس کی موت ہے اور باہر نکلنے والی اس کی حرص وآرزو ہے جو موت آنے پر دھری رہ جاتی ہے۔
حیات چند روزہ کا یہی حال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6417   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4231  
´انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چوکور لکیر کھینچی، اور اس کے بیچ میں ایک لکیر کھینچی، اور اس بیچ والی لکیر کے دونوں طرف بہت سی لکیریں کھینچیں، ایک لکیر چوکور لکیر سے باہر کھینچی اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ درمیانی لکیر انسان ہے، اور اس کے چاروں طرف جو لکیریں ہیں وہ عوارض (بیماریاں) ہیں، جو اس کو ہر طرف سے ڈستی یا نوچتی اور کاٹتی رہتی ہیں، اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری میں مبتلا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4231]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام نووی ؒ نے ریاض الصالحین میں اس مثال کی وضاحت کے لیے دو نقشے بنائے ہیں۔
ان کی رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا نقشہ ان دو میں سے کسی ایک کے مطابق تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اپنے پانچ اور اقوال بھی ذکر کیے ہیں اور ان کے مطابق نقشے بنائے ہیں۔ دیکھیے: (فتح الباري: 11/ 258)

(2)
انسان کی زندگی میں مشکلات اور مصائب لازمی ہیں۔
جس طرح غریب آدمی مشکلات کا شکار ہوتا ہے اسی طرح امیر آدمی حتی کہ بادشاہ پر بھی مشکلات آتی ہیں اگرچہ ان کی نوعیت ان کے حالات کے مطابق ہوتی ہے۔

(3)
یہ مشکلات انسان کی آزمائش ہیں لہٰذا سیدھے راستے پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(4)
انسان کی خواہشات، پروگرام اور آرزوئیں بہت ہوتی ہیں ان میں کچھ پوری ہوتی ہیں کچھ نہیں ہوتیں۔
لہٰذا موت کو یاد رکھنا چاہیے جو لازماً آنی ہی ہے اور معلوم نہیں کب آجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4231   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2454  
´باب:۔۔۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع خط (یعنی چوکور) لکیر کھینچی اور ایک لکیر درمیان میں اس سے باہر نکلتا ہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیر کے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیریں اور کھینچی، پھر فرمایا: یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیر اس کی موت کی ہے جو ہر طرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ درمیان والی لکیر انسان ہے (یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2454]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اگر ایک طرف آروزؤں سے بھری ہوئی ہے تو دوسری جانب اسے چاروں طرف سے حوادث گھیرے ہوئے ہیں،
وہ اپنی آرزؤں کی تکمیل میں حوادث سے نبرد آزما ہوتا ہے،
لیکن اس کے پاس امیدوں اور آرزؤں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے،
اس کی آرزوئیں ابھی ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ اسے اپنے شکنجے میں کس لیتاہے،
گویا موت انسان سے سب سے زیادہ قریب ہے،
اس لیے انسان کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2454