الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2478
´ہجرت کا ذکر اور صحراء و بیابان میں رہائش کا بیان۔`
شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحراء و بیابان (میں زندگی گزارنے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ٹیلوں پر جایا کرتے تھے، آپ نے ایک بار صحراء میں جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھیجا جس پر سواری نہیں ہوئی تھی، اور مجھ سے فرمایا: ”عائشہ! اس کے ساتھ نرمی کرنا کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اسے عیب دار کر دیتی ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2478]
فوائد ومسائل:
1۔
اس روایت کا پہلا حصہ (ھذہ التلاع) صحیح ثابت نہیں۔
(علامہ البانی) تاہم تدبر فی الانفس کی نیت سے آدمی کس وقت عزلت وتنہائی اختیار کرلے تو مفید ہے۔
جس کی صورت اعتکاف ہے۔
نہ کہ صوفیاء کی سیاحت۔
2۔
جب حیوانات سے نرم خوئی ممدوح اور مطلوب ہے۔
تو انسانوں سے یہ معاملہ اور بھی زیادہ باعث اجر وثواب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2478
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4808
´نرمی کا بیان۔`
شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دیہات (بادیہ) جانے، وہاں قیام کرنے کے بارے میں پوچھا (کہ کیسا ہے) آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نالوں کی طرف دیہات (بادیہ) جایا کرتے تھے، ایک بار آپ نے باہر دیہات (بادیہ) جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹنی بھیجی، جس پر سواری نہیں کی گئی تھی، اور مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! نرمی کرو، اس لیے کہ جس چیز میں نرمی ہوتی ہے، اسے زینت دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نکل جاتی ہے، اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔ ابن الصباح اپنی حدیث میں کہتے ہیں: «محرمۃ» سے مراد وہ اونٹنی ہے جس پر س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4808]
فوائد ومسائل:
1) تدبر فی النفس والآفاق کی نیت سے آدمی کسی وقت عزلت اختیار کرے تو مفید ہے، جس کی مشروع صورت اعتکاف ہے نہ کہ صوفیاء کی سیاحت۔
2) حیوانات کے ساتھ نرم خوئی ممدوح اور مطلوب ہے تو انسانوں کے ساتھ یہ معاملہ اور بھی باعثِ اجر وثواب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4808
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3689
´نرمی اور ملائمیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ نرمی کرنے والا ہے اور سارے کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3689]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
دعوت و تبلیغ میں نرمی کا انداز نہایت مفید ہے، تاہم درست موقف میں نرمی پیدا کر لینا باطل کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔
جن معاملات میں شریعت میں آسانی ہے ان میں خواہ مخواہ سخت پہلو اختیار کرنا بھی غلط ہے اور اس پر اصرار کرنا مزید غلطی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3689
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3698
´ذمیوں کے سلام کے جواب کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ یہودی آئے، اور کہا: «السام عليك يا أبا القاسم» ”اے ابوالقاسم تم پر موت ہو“، تو آپ نے (جواب میں صرف) فرمایا: «وعليكم» اور تم پر بھی ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3698]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اہل کتاب سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔
ہندو، سکھ اور مرزائی وغیرہ اہل کتاب میں شامل نہیں۔
(2)
یہ رسول اللہ ﷺ کا تحمل تھا کہ غصہ دلانے والی حرکت پر بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور بہتر ین مناست جواب دیا۔
(4)
اہل کتا ب کو وعليكم السلام کے بجائے وعليكم کہنے میں یہی حکمت ہےکہ وہ لوگ شرارت سے کام لیتے تھے اور غلط الفاظ بولتے تھے۔
آج کل کے عام غیر مسلم عربی زبان کی ان باریکیوں سے ناواقت ہیں اور صاف الفاظ میں السلام عليكم کہتے ہیں۔
اس لیے انہیں وعليكم السلام کہنے میں حرج نہیں تاہم اگر انہیں بھی وعليكم ہی کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
(4)
ذمی سے مراد مسلمان سلطنت کے غیر مسلم باشندے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3698
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6601
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا!بے شک اللہ رفیق ہے(سہولت و آسانی پیدا کرتا ہے)نرمی اور ملا ئمت کو محبوب رکھتا ہے اور وہ نرمی و مہربانی پر اتنا دیتا ہے جتنا کہ درشتی اور سختی پر نہیں دیتا اور جتنا کہ نرمی کے سوا کسی ہر چیز پر نہیں دیتا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6601]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض لوگ اپنے معاملہ اور برتاؤ میں سخت گیر ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی سخت گیری سے وہ کچھ حاصل کر لیتا ہے،
جو نرمی سے حاصل نہیں ہو سکتا،
گویا ان کے نزدیک درشتی اور سختی اور دشوار پسندی کار برآری کا ذریعہ اور حصول مقاصد کی کنجی ہے،
آپ نے اس کی اصلاح فرماتے ہوئے،
پہلے تو نرم خوئی کی عظمت اور صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ کی ذاتی صفت ہے،
اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ محبوب ہے کہ اس کے بندے بھی باہمی معاملہ اور برتاؤ میں نرمی اپنائیں،
پھر بتایا کہ مقاصد کا پورا ہونا یا نہ ہونا اور کسی چیز کا ملنا یا نہ ملنا تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے،
جو کچھ ہوتا ہے،
اس کے فیصلہ اور مشیت سے ہوتا ہے اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ وہ نرمی پر اس قدر دیتا ہے،
جس قدر درشتی اور سختی پر نہیں دیتا بلکہ نرمی کے علاوہ کسی چیز پر بھی اتنا نہیں دیتا جس قدر نرمی پر دیتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6601
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6602
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"نرمی اور ملائمت جس چیز میں بھی ہوتی ہے۔، اس کو مزین (خوبصورت)بنا دیتی ہے اور جس چیز سے سلب کر لی جاتی ہے۔ اس کو عیب دار، بدصورت بنا دیتی ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6602]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس سے معلوم ہوا،
کسی چیز میں رفق اور نرمی کا ہونا،
اس کے خوبصورت اور حسین،
اچھا اور عمدہ ہونے کا سبب بنتا ہے اور نرمی کو نظرانداز کر دینا،
اس کے عیب اور نقص کا باعث بنتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6602
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2935
2935. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ کچھ یہودی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ پر موت آئے۔ میں نے یہ سن کر ان پر لعنت کی تو آپ نے فرمایا: ”تجھے کیاہوگیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: آپ نے نہیں سنا جو انھوں نے کہا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” کیاتو نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ہے؟کہ تم پر بھی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2935]
حدیث حاشیہ:
اسی لیے نامعقول اور بے ہودی حرکتوں کا جواب یونہی ہونا چاہیے۔
آیت قرآنی ﴿ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ (فصلت: 34)
کا تقاضا ہے کہ برائی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔
یہودی کی فطرت ہمیشہ سے شرپسند رہی ہے۔
خود اپنے انبیاء کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا نہیں رہا تو اور کسی کی کیا حقیقت ہے۔
آنحضرتﷺ کی مخالفت میں یہودیوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی‘ یہاں تک کہ ملاقات کے وقت زبان کو توڑ مروڑ کر السلام علیکم کی جگہ السام علیکم کہہ ڈالتے کہ تم پر موت آئے۔
آنحضرتﷺ نے ان کی اس حرکت پر اطلاع پا کر اتنا ہی کافی سمجھا ''وعلیکم'' یعنی تم پر بھی وہی آئے جو میرے لئے منہ سے نکال رہے ہو۔
اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ آپﷺ نے یہود کی اس حرکت کے جواب میں حضرت عائشہؓ کے لعن طعن والے جواب کو پسند نہیں فرمایا بلکہ جو جواب آپﷺ نے دیا‘ اسی کو کافی سمجھا۔
یہ آپ کے کمال اخلاق حسنہ کی دلیل ہے۔
(ﷺ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2935
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6030
6030. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کچھ یہودی نبی ﷺ کے پاس آئے اور انہون نے کہا: ''السام علیکم'' یعنی تم پر موت آئے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے ان کے جواب میں کہا: تم پر بھی موت آئے۔ تم پر اللہ کی لعنت ہو اور غضب نازل ہو۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! نرمی کرو سختی اور بد زبانی سے اجتناب کرو۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے انہیں جو جواب دیا وہ تم نے نہیں سنا؟ میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی تھی۔ ان کے متعلق میری بد دعا قبول ہوگی لیکن میرے حق میں ان کی بد زبانی ہی قبول ہی نہیں ہوگی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6030]
حدیث حاشیہ:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت یہودیوں کی فطرت ثانیہ تھی اور آج تک ہے جیسا کہ ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6030
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6395
6395. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ یہودی نبی ﷺ کو سلام کرتے تو کہتے: 'السام علیك'' آپ پر موت آئے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے ان کے مقصد کو بھانپ لیا اور جواب دیا کہ تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! ٹھہرو۔ بے شک اللہ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”کیا تو نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا تھا۔ میں کہتا ہوں تم پر۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6395]
حدیث حاشیہ:
یہودی اسلام کے ازلی دشمن ہیں مگر حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ دیکھئے کہ آپ نے ان کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بددعا کو ناپسند فرمایا۔
انسانیت کی یہی معراج ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی اعتدال کا برتاؤ کیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6395
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2935
2935. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ کچھ یہودی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ پر موت آئے۔ میں نے یہ سن کر ان پر لعنت کی تو آپ نے فرمایا: ”تجھے کیاہوگیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: آپ نے نہیں سنا جو انھوں نے کہا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” کیاتو نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ہے؟کہ تم پر بھی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2935]
حدیث حاشیہ:
1۔
جو کچھ یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق منفی جذبات کا اظہار کیا رسول اللہ ﷺنے "وعلیکم" فرما کر وہی کچھ ان پر ڈال دیا۔
ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا:
”ان کے لیے ہماری بددعا تو قبول ہوتی ہے لیکن ان کی بد دعا ہمارے خلاف قبول نہیں ہو گی۔
“ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6030)
2۔
حضرت عائشہ ؓنے انتہائی غصے کے عالم میں اپنے جذبات کا ان الفاظ میں اظہارکیا کہ تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو رسول اللہ ﷺنے انھیں فرمایا:
”عائشہ ؓ!تجھے نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اس قسم کی سخت کلامی اور کھردرے لہجے سے بچنا ضروری ہے کیونکہ ایسا کرنا ہمارے اخلاق فاضلہ (بہترین اخلاق)
کے خلاف ہے۔
“ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6030)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2935
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6024
6024. ] نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: السام علیکم یعنی تمہیں موت آئے، سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں اس کا مفہوم سمجھ گئی میں نے جواب دیا: وعلیکم السام والعنة یعنی تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! نرمی کرو۔ اللہ تعالٰی ہر امر میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے نہیں سنا انہوں نے کہا بکواس کی تھی؟ رسول اللہ ﷺ فرمایا: میں نے اس کا جواب دیا تھا: ''وعلیکم'' اور تم پر بھی وہی کچھ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6024]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہود کی فطرت میں شرارت تھی، انھوں نے دبے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بددعا دی تھی، گویا وہ چاہتے تھے کہ آپ کو ابھی موت آ جائے۔
اس کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا کہ میں تمہارے لیے وہی کچھ کہتا ہوں جس کے تم حق دار ہو۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خلق عظیم سے نوازا تھا، اس لیے آپ نے ایسا انداز اختیار کیا کہ بدزبانی اختیار کیے بغیر انھیں جواب دے دیا۔
نرم مزاجی اور نرم کلامی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جس چیز میں نرمی ہوتی ہے وہ اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جاتی ہے اسے بدصورت بنا دیتی ہے۔
“ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6602(2594)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6024
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6030
6030. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کچھ یہودی نبی ﷺ کے پاس آئے اور انہون نے کہا: ''السام علیکم'' یعنی تم پر موت آئے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے ان کے جواب میں کہا: تم پر بھی موت آئے۔ تم پر اللہ کی لعنت ہو اور غضب نازل ہو۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! نرمی کرو سختی اور بد زبانی سے اجتناب کرو۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے انہیں جو جواب دیا وہ تم نے نہیں سنا؟ میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی تھی۔ ان کے متعلق میری بد دعا قبول ہوگی لیکن میرے حق میں ان کی بد زبانی ہی قبول ہی نہیں ہوگی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6030]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدزبان اور بےہودہ گونہ تھے۔
آپ خود بھی نرم خوتھے اور نرم گوئی اختیار کرنے کا حکم دیتے تھے،بدگوئی اور کرخت لب ولہجہ اختیار کرنے سے منع کرتے تھے جیسا کہ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیز وتند لہجہ اختیار کرنے سے منع فرمایا۔
(2)
اس وقت یہودیوں نے باطل کہا اور جھوٹ بکا تھا،اس لیے آپ نے فرمایا:
ان کی میرے متعلق بددعا قبول نہیں ہوگی جبکہ آپ حق پر تھے اور حق کہتے تھے،اس لیے فرمایا:
”میری ان کے متعلق بددعا ضرور قبول ہوگی۔
“ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق وکردار کے اعتبار سے اعلیٰ صفات کے حامل تھے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6030
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6256
6256. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ یہودی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: ''السام علیك'' ”تمہیں موت آئے۔“ میں ان کی بات سمجھ گئی۔ میں نے جواب میں کہا: تم پر موت اور لعنت ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! صبر تحمل سے کام لیا کرو کیونکہ اللہ تعالٰی تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے ان کا جواب ”علیکم“ سے دے دیا تھا، یعنی تم پر موت آئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6256]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ ایک خاص واقعہ ہے کہ یہودیوں نے بڑے بھونڈے الفاظ میں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا اور سلام کے بجائے کھلے طور پر بددعا کے الفاظ استعمال کیے تھے، اس لیے انھیں اسی طرح کا جواب دیا گیا، یعنی اگر تم ہماری موت چاہتے ہو تو ہم بھی تمھاری موت کے طالب ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں بھونڈا پن نہیں ہے جو یہودیوں کی طرف سے تھا۔
اگر کوئی غیر مسلم اچھے الفاظ میں دعا سلام کرتا ہے تو اس کا جواب بھی اچھا دینا چاہیے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو اس لیے تنبیہ فرمائی تاکہ فحش گوئی ان کی عادت نہ بن جائے اور یہودیوں کو برا بھلا کہنے میں مبالغہ آمیزی سے کام نہ لیا جائے۔
(فتح الباري: 53/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6256
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6395
6395. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ یہودی نبی ﷺ کو سلام کرتے تو کہتے: 'السام علیك'' آپ پر موت آئے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے ان کے مقصد کو بھانپ لیا اور جواب دیا کہ تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! ٹھہرو۔ بے شک اللہ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”کیا تو نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا تھا۔ میں کہتا ہوں تم پر۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6395]
حدیث حاشیہ:
یہود مدینہ حسد و بغض کی آگ میں جل رہے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے حتی کہ سلام کہتے وقت بھی اپنی حرکات بد سے باز نہیں آتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب آں غزل کو ناپسند فرمایا، بلکہ جواب دینے کا ایسا انداز اختیار کیا جس میں مقصد بھی پورا ہو گیا اور اپنے اخلاق فاضلہ پر بھی کوئی آنچ نہ آنے دی۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔
انسانیت کی یہی معراج ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی اعتدال کا برتاؤ کیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6395