´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم نماز کی اقامت سنو تو نماز کی طرف اطمینان و سکون اور وقار کے ساتھ چل کر آؤ۔ جلدی اور عجلت مت کرو۔ جتنی نماز جماعت کے ساتھ پا لو اتنی پڑھ لو اور جو باقی رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔“ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 335»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأذان، باب لا يسعي إلي الصلاة....، حديث:636، ومسلم، المساجد، باب استحباب إتيان الصلاة بوقار سكينة، حديث:602.»
تشریح:
اس حدیث کی رو سے نمازی جب مسجد میں نماز باجماعت کے لیے آئے تو بڑے آرام و سکون اور وقار و عزت کے ساتھ آئے۔
دوڑتا ہوا نہ آئے۔
چلتے ہوئے نگاہیں نیچی رکھے۔
بولنے کی ضرورت ہو تو دھیمی اور پست آواز سے بولے۔
یوں اطمینان سے آنے کے بعد امام کو جس حالت میں پائے، نماز میں شریک ہو جائے اور باقی نماز کو بعد میں کھڑا ہو کر پورا کر لے۔
ایسی صورت میں مقتدی نے جو نماز امام کے ساتھ پڑھی وہ اس نمازی کی پہلی رکعتیں شمار ہوں گی یا پچھلی؟ اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس مقتدی کی پچھلی رکعتیں شمار ہوں گی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مقتدی کی یہ پہلی رکعتیں شمار ہوں گی۔
یہی بات حدیث کے الفاظ فَأَتِمُّوا کے موافق ہے‘ نیز یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے کہ رکوع میں شامل ہونے والے کی یہ رکعت شمار ہوگی یا نہیں؟ محتاط ترین اور قرین صواب بات یہ ہے کہ رکعت نہیں ہوگی کیونکہ رکوع میں شامل ہونے کی صورت میں سورۂ فاتحہ اور قیام کی ادائیگی نہیں ہو پاتی‘ یہ دونوں رکن نماز ہیں۔
ان کے فقدان سے نماز کیسے ہوگی؟