ہم سے یحییٰ بن محمد بن سکن نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حبان بن ہلال ابوحبیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہارون مقری نے بیان، کہا ہم سے زبیر بن خریت نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگوں کو وعظ ہفتہ میں صرف ایک دن جمعہ کو کیا کر، اگر تم اس پر تیار نہ ہو تو دو مرتبہ اگر تم زیادہ ہی کرنا چاہتے ہو تو پس تین دن اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتا نہ دینا، ایسا نہ ہو کہ تم کچھ لوگوں کے پاس پہنچو، وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں اور تم پہنچتے ہی ان سے اپنی بات (بشکل وعظ) بیان کرنے لگو اور ان کی آپس کی گفتگو کو کاٹ دو کہ اس طرح وہ اکتا جائیں، بلکہ (ایسے مقام پر) تمہیں خاموش رہنا چاہئے۔ جب وہ تم سے کہیں تو پھر تم انہیں اپنی باتیں سناؤ۔ اس طرح کہ وہ بھی اس تقریر کے خواہشمند ہوں اور دعا میں قافیہ بندی سے پرہیز کرتے رہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ/حدیث: 6337]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6337
حدیث حاشیہ: یعنی ہمیشہ اس سے پرہیز کرتے تھے۔ صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھی سادی دعا کیا کرتے بلاتکلف اور مختصر۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے بعد کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دعا اور طہارت میں مبالغہ کریں گے حد سے بڑھ جائیں گے، مومن کو چاہئے کہ سنت کی پیروی کرے اور مقفی اور مسجع دعاؤں سے جو پچھلے لوگوں نے نکالی ہیں پرہیز رکھے۔ جو دعا ئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ سند صحیح منقول ہیں وہ دنیا اور آخرت کے تمام مقاصد کے لئے کافی ہیں اب جو بعض دعائیں ماثور مسجع ہیں جیسے اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، ومُجْرِيَ السَّحَابِ، وهَازِمَ الأحْزَابِ یا صدقَ اللہُ وَعدَہ و أعزَّ جندَہ و نصرَ عبدَہ وھزم الأحزابَ وحدَہ یا أعوذُ بكَ من عین لا تَدمَع وَمِنْ نَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ و مِن قلب لایخشع'' وہ مستثنیٰ ہوںگی کیونکہ یہ بلا قصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہیں اگر بلا قصد سجع ہو جائے تو قباحت نہیں ہے۔ عمداً بطور تکلف ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس میں ریا نمود بھی ممکن ہے جو شرک خفی ہے إلا ماشاء اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6337
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6337
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ سیدھی سادی دعائیں کرتے تھے، ان میں قطعاً تکلف نہ ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ''آئندہ، ایسے لوگ ہوں گے جو دعا میں حد سے بڑھ جائیں گے۔ '' (سنن ابن ماجة، الدعاء، حدیث: 3864) حد سے بڑھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ مقفیٰ دعائیں کی جائیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی کراہت کی وجہ یہ لکھی ہے کہ اس قسم کی دعائیں کہانت پیشہ لوگوں کی گفتگو سے ملتی جلتی ہیں، (فتح الباري: 167/11) لہذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ سنت کی پیروی کرتے ہوئے ایسی دعاؤں سے پرہیز کرے جو مسجع ہوں اور الفاظ کے اتار چڑھاؤ پر مبنی ہوں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6337
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 252
´دعوت دین میں حکمت` «. . . وَعَن عِكْرِمَة أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدِّثِ النَّاسَ كُلَّ جُمُعَةٍ مَرَّةً فَإِنْ أَبَيْتَ فَمَرَّتَيْنِ فَإِنْ أَكْثَرْتَ فَثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَلَا تُمِلَّ النَّاسَ هَذَا الْقُرْآنَ وَلَا أُلْفِيَنَّكَ تَأْتِي الْقَوْمَ وَهُمْ فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِهِمْ فَتَقُصُّ عَلَيْهِمْ فَتَقْطَعُ عَلَيْهِمْ حَدِيثَهُمْ فَتُمِلَّهُمْ وَلَكِنْ أَنْصِتْ فَإِذَا أَمَرُوكَ فَحَدِّثْهُمْ وَهُمْ يَشْتَهُونَهُ وَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَاجْتَنِبْهُ فَإِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ لَا يَفْعَلُونَ ذَلِك " رَوَاهُ البُخَارِيّ . . .» ”. . . سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دن عکرمہ سے فرمایا کہ تم ہر جمعہ کو ایک مرتبہ وعظ بیان کر دیا کرو۔ اور اگر ہفتے میں ایک بار بیان کرنے کو قبول نہ کرو تو دو مرتبہ بیان کر دیا کرو۔ اور اگر زیادہ ہی بیان کرنا چاہتے ہو تو ہفتہ میں تین مرتبہ بیان کر دیا کرو اور لوگوں کو اس قرآن مجید کو سنا سنا کر تنگ نہ کرو کہ وہ گھبرا جائیں۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اے عکرمہ! میں تمہیں اسی حال میں نہ پاؤں کہ تم کسی جماعت یا کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں تو تم ان کی باتوں کو کاٹ کر وعظ بیان کرنا شروع کر دو اور ان کو تکلیف پہنچاؤ بلکہ تم خاموش رہو۔ جب وہ تمہیں وعظ و نصیحت کرنے کو کہیں تو تم وعظ و نصیحت سناؤ اس حال میں کہ وہ وعظ و نصیحت سننے کی رغبت و خواہش رکھتے ہوں، کہ جب تک وعظ سننے کے خواہش مند ہوں تو تم وعظ سناؤ یعنی اگر وہ لوگ وعظ سننے کے خواہش مند ہوں۔ اور تم سے اس کی خواہش ظاہر کریں اور فرمائش کریں تو تم انہیں وعظ و نصیحت سناؤ (اور قافیہ بند والی دعاؤں کو موقوف کر دو اور اس سے بچتے رہو) یعنی بےتکلیف مقفہ و مسجع عبارت دعاؤں میں نہ استعمال کرو بلکہ سیدھے سادھے الفاظ میں دعا مانگا کرو (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔) یعنی دعاؤں میں مقفہ الفاظ بہ تکلیف نہیں استعمال کرتے تھے اور جن دعاؤں میں اتفاقیہ طور پر قافیہ بندی ہے وہ بےتکلف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صادر ہوئی ہیں۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 252]
فقه الحديث: ➊ اگر لوگ تنگ ہوتے ہوں تو روزانہ وعظ نہیں کرنا چاہیے۔ ➋ موقع محل کا خاص خیال رکھنا چاہئیے اور جب لوہا گرم ہو تو اس پر کاری ضرب لگانی چاہئیے۔ ➌ دیوبندی تبلیغی جماعت کے غلط عقائد کے ساتھ ساتھ ان کے مروجہ عمل میں بھی نظر ہے۔ ➍ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے انتہائی عاجزی اور سادگی کا اظہار ہونا چاہئے اور ہر قسم کے تصنع اور تکلف سے اجتناب ضروری ہے۔ ➎ اہل علم کو چاہئیے کہ وہ لوگوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھیں۔ ➏ علماء کو چاہئے کہ اپنے شاگردوں کی تربیت کا ہمیشہ بہت خیال رکھیں تاکہ وہ ان کے حلقہ درس سے ہیرے اور علم وعمل کے مینار بن کر نکلیں۔ ➐ اگر کوئی شخص ٹیپ ریکارڈر پر تلاوت سن رہا ہے اور اب کسی ضرورت کی وجہ سے ٹیپ بند کرنا چاہتا ہے تو جب آیت کریمہ مکمل ختم ہو جائے تب ٹیپ بند کرے، یعنی درمیان میں سے اسے کاٹ نہ دے۔ ➑ عوام کو بھی چاہئے کہ جب انہیں کتاب و سنت کی دعوت دی جائے تو غور سے سنیں اور بغیر شرعی عذر کے بھاگنے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ ان کے لئے اس دعوت میں دونوں جہانوں کی کامیابی اور خیر ہے۔ ➒ مرجوح کے مقابلے میں راجح کو اختیار کرنا بہتر ہے۔ ➓ جس طرح سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنی نصیحت میں حدیث رسول اور آثار سلف صالحین کا حوالہ دیا، اسی طرح اپنے بیان اور دعوت میں کتاب وسنت کے حوالوں اور آثار سلف صالحین پیش کرنے کا التزام کرنا چاہئیے تاکہ عوام کے دلوں پر گہرا اثر ہو۔