ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے ربعی بن حراش نے اور ان سے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر لیٹتے تو یہ کہتے «باسمك أموت وأحيا»”تیرے ہی نام کے ساتھ میں مردہ اور زندہ رہتا ہوں“ اور جب بیدار ہوتے تو کہتے «الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور»”اسی اللہ کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے ہمیں زندہ کیا۔ اس کے بعد کہ اس نے موت طاری کر دی تھی اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔“ قرآن شریف میں جو لفظ «ننشرها» ہے اس کا بھی یہی معنی ہے کہ ہم اس کو نکال کر اٹھاتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ/حدیث: 6312]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6312
حدیث حاشیہ: اسی طرح تمام انسانوں کو ہر مدفون جگہوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اٹھا ئے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6312
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6312
حدیث حاشیہ: (1) بدن سے روح کا تعلق ختم ہونے کا نام موت ہے۔ یہ انقطاع کبھی صرف ظاہری طور پر ہوتا ہے جیسا کہ نیند کی حالت، اسی مناسبت کی وجہ سے نیند کوموت کا ساتھی کہا جاتا ہے اور کبھی یہ انقطاع ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے ہوتا ہے، یہ معروف موت ہے۔ مذکورہ حدیث میں موت کا اطلاق نیند کی حالت پر کیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 137/11)(2) حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے نشور کی مناسبت سے قرآن کریم کے ایک لفظ کی لغوی تشریح کی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6312