اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں اس کا کیا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں فرمایا «ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله»”بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی راہ سے بہکا دینے کے لیے کھیل کود کی باتیں بول لیتے ہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: Q6301]
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے جس نے قسم کھائی اور کہا کہ لات و عزیٰ کی قسم، تو پھر وہ «لا إله إلا الله» کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ کر دینا چاہئے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6301]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6301
حدیث حاشیہ: لہٰذا روپیہ پیسہ جوا کھیلنے کے لئے استعمال کرنا حرام ہے۔ جو لوگ پیرومرشد کی قسم کھاتے ہیں وہ بھی اس حدیث کے مصداق ہیں قسم کھانا صرف اللہ کے نام سے ہو غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا شرک ہے(مَن حَلَفَ بغیرِ اللہ فقد أشرَكَ) اس باب کی مناسبت کتاب الاستیذان سے مشکل ہے اسی طرح حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے۔ بعض نے پہلے امر کی توجیہ یہ کی ہے کہ جوا کھیلنے کے لئے جو بلائے اس کو گھر آنے کی اجازت نہ دینی چاہئے اور دوسرے کی توجیہ یہ کی ہے کہ لات اور عزیٰ کی قسم کھانا بھی لھوالحدیث میں داخل ہے جو حرام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6301
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6301
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6301 کا باب: «بَابُ كُلُّ لَهْوٍ بَاطِلٌ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے اس کا حدیث کے ساتھ مناسبت ہونا مشکل ہے اور کتاب سے بھی، کتاب سے مشکل اس لیے ہے کہ لہو میں مشغول رہنا استئذان سے تعلق نہیں رکھتا اور حدیث سے مناسبت مشکل ہوں ہے کہ لات اور عزی کی قسم کھانا کس طرح سے باب سے مطابقت رکھتا ہے؟ جبکہ باب میں لات اور عزی کا کوئی ذکر نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں جو الفاظ ہیں، یہ الفاظ ایک مرفوع حدیث میں وارد ہوئے ہیں، جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں شامل فرمایا، مکمل حدیث اس لیے ذکر نہیں فرمائی کہ وہ آپ کی شرط پر نہ تھی، وہ حدیث درج ذیل ہے: «عن عقبة بن عامر رضى الله عنه رفعه: كل ما يلهو به المرء المسلم باطل إلا رميه بقوسه وتأديبه فرسه و ملاعبته أهله.»(3) ”یعنی ہر وہ چیز جو مسلمان کو غافل کر دے باطل ہے سوائے تیر اندازی، اپنے گھوڑے کی دیکھ بھال اور اپنی بیوی کے ساتھ دل لگی کرنا۔“ ترجمۃ الباب سے مناسبت کن نکات کے ساتھ وابستہ ہے اور ترجمۃ الباب کا «كتاب الاستئذان» سے کیا تعلق ہے اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے فرمایا: «وجه تعلق هذا الحديث بالترجمة، و الترجمة بالاستئذان أن الداعي إلى القمار لا ينبغي أن يؤذن له فى دخول المنزل، ثم لكونه يتضمن اجتماع الناس، و مناسبة بقية حديث الباب للترجمة أن الحلف باللات لهو يشغل عن الحق بالخلق فهو باطل.»(1) ”یعنی ترجمۃ الباب کا تعلق حدیث کے ساتھ یوں ہے کہ لات (اور منات وغیرہ کی) قسم کھانا بھی لہو الحدیث میں داخل ہے جو حرام ہے، اور باب سے کتاب کا تعلق اس طرح سے ہے کہ جو جوا کھیلنے کے لیے بلائے تو اسے گھر میں آنے کی اجازت نہ دی جائے، (کیوں کہ یہ برائی کے کام میں ساتھ دینا ہوا جو لہو میں ہے اور حرام ہے)۔“ پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6301
حدیث حاشیہ: اس حدیث کا كتاب الاستئذان سے تعلق اس طور پر ہے کہ جوئے کی دعوت دینے والوں کو گھر آنے کی اجازت نہ دی جائے، اسی طرح جو انسان خود کو فضول کاموں میں مصروف رکھتا ہے وہ بھی اس قابل نہیں کہ اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی جائے۔ (فتح الباري: 110/11)(2) اس حدیث کے آخری حصے کا سبب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ میں نے لات اور عزیٰ کے نام کی قسم اٹھائی تو میرے ساتھیوں نے مجھے کہا: تو نے ایک بے ہودہ بات کی ہے جو بہت بری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ کو بتاؤ، چنانچہ میں آپ کے پاس آیا اور اپنا ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: ”تم یہ دعا پڑھو: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو علی كل شيء قدير) اور بائیں جانب تین مرتبہ تھوتھو کرو۔ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو اور آئندہ کبھی ایسا نہ کرنا۔ “(سنن النسائي، الأیمان والنذور، حدیث: 3808)(3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں (لا إله إلا الله) سے مراد یہ پورا کلمہ ہے جو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد (لا إله إلا الله) ہو کیونکہ یہ بھی کلمۂ توحید ہے۔ (فتح الباری: 11/110)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6301
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3806
´لات (بت) کی قسم کھانے پر کیا کرے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو قسم کھائے اور کہے: لات (بت) کی قسم، تو اسے چاہیئے کہ وہ لا الٰہ الا اللہ پڑھے، اور جو اپنے ساتھی سے کہے: آؤ تمہارے ساتھ جوا کھیلیں گے) تو اسے چاہیئے کہ صدقہ کرے۔“[سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3806]
اردو حاشہ: (1)”لات“ ایک بت کا نام ہے جو صفا پہاڑی پر رکھا ہوا تھا۔ جو شخص جان بوجھ کر تعظیماً ”لات“ وغیرہ کی قسم کھاتا ہے وہ کافر ہے۔ اس کے کفر میں کسی کو اختلاف نہیں۔ وہ خارج از اسلام ہوگا۔ اسے تجدید ایمان کے لیے دوبارہ کلمہ اسلام کا اقرار کرنا ہوگا۔ اور جو شخص جہالت (عدم علم) یا بھول کر قسم کھاے تو وہ لا الہ الا اللہ کہے۔ اس کلمے کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے اس نقصان کی تلافی فرما دے گا۔ (2)”صدقہ کرنا چاہیے“ جوا قبیح چیز ہے جو انسان کو مادہ پرست‘ کنجوس‘ خود غرض اور پتھر دل بنا دیتا ہے‘ لہٰذا اس قبیح لفظ کا علاج صدقہ بتلایا گیا جو انسان کو الٰہ پرست‘ سخی‘ ہم درد اور نرم دل بناتا ہے۔ (3) صدقہ کتنا ہو؟ بعض کے نزدیک جو میسر ہو اور بعض کے نزدیک وہ رقم صدقہ کرے جس میں جوا کھیلنا چاہتا تھا۔ کم ہو یا زیادہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3806
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3247
´غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا کیسا ہے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی قسم کھائے اور اپنی قسم میں یوں کہے کہ میں لات کی قسم کھاتا ہوں تو چاہیئے کہ وہ «لا إله إلا الله» کہے، اور جو کوئی اپنے دوست سے کہے کہ آؤ ہم تم جوا کھیلیں تو اس کو چاہیئے کہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرے“(تاکہ شرک اور کلمہ شرک کا کفارہ ہو جائے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3247]
فوائد ومسائل: غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا شرک ہے۔ اگر کسی سے دانستہ ایسا ہوجائے۔ تو ا پرکفارہ نہیں بلکہ توبہ استغفار اور تجدید ایمان لازم ہے۔ تاہم نادانستہ غیر ارادی طور پر ایسے الفاظ زبان سے نکل جایئں۔ تو اس کےلئے دل سے لا الہ الا اللہ پڑھ لینا کافی ہے۔ اس طرح جوا کھیلنا حرام ہے۔ تو اس کا کفارہ صدقہ کرنا ہے۔ فرمایا۔ (ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ)(ھود۔ 114) نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3247
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2096
´اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم کھائی، اور اپنی قسم میں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی، تو اسے چاہیئے کہ وہ «لا إله إلا الله» کہے: ”اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2096]
اردو حاشہ: ایک نو مسلم جو کفر کی حالت میں غیراللہ کی قسم کھانے کا عادی تھا، ہو سکتا ہے اسلام لانے کے بعد اس کے منہ سے پرانی عادت کے مطابق بلا ارادہ یہ شرکیہ الفاظ نکل جائیں اور بعد میں اسے غلطی کا احساس ہو تو ایسے موقع پر اسے چاہیے کہ دوبارہ توحید کا اقرار کرتے ہوئے لا الہ الا اللہ کہہ لے تاکہ یہ کلمہ اس کے شرکیہ الفاظ کا کفارہ بن جائے گا تاہم اس طرح کی غلطی سے آدمی مرتد نہیں ہوتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2096
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4260
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے قسم اٹھائی، اور قسم لات کی اٹھائی، وہ فورا لا الہ الا اللہ کہے، اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا، آئیے میں تم سے جوا کھلوں، وہ صدقہ کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4260]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: دور جاہلیت میں لوگ اپنے اپنے بتوں کی قسمیں اٹھایا کرتے تھے، اور وہ ان کی زبانوں پر چڑھ چکی تھیں، اس لیے اسلام لانے کے بعد بھی بعض دفعہ غیر شعوری طور پر ان کی زبانوں پر قسمیں جاری ہو جاتی تھیں، اس لیے جو انسان مسلمان ہو کر شعوری طور پر، عمدا بتوں کی تعظیم و توقیر کرتے ہوئے ان کی قسم اٹھائے تو، بقول ابن العربی مالکی کافر ہو گا، لیکن اگر غیر شعوری طور پر، غفلت اور بے خبری یا جہالت کی بنا پر یہ قسم اٹھائے تو پھر وہ کلمہ توحید کا اعادہ کرے اور بعض روایات کی رو سے استغفار اور تعوذ کرے گا، اور اگر دوسرے کو جوئے کی دعوت دے، لیکن کھیلے گا نہیں، تو پھر اس گناہ کا ارادہ کرنے کی بنا پر، صدقہ و خیرات کرے گا، اور یہ بہتر اور مستحسن ہے، فرض نہیں ہے، امام نووی لکھتے ہیں، ہمارے یعنی شوافع کے نزدیک، جس نے لات یا عزیٰ یا کسی اور بت کی قسم اٹھائی، یا اس نے یہ کہا، گر میں نے یہ کام کیا تو میں یہودی یا عیسائی ہوں یا میں اسلام سے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزار ہوں، یا اس قسم کی کوئی اور بات کہی، تو اس کی قسم منعقد نہیں ہو گی، اس پر کفارہ نہیں ہے، بلکہ اس پر توبہ و استغفار اور کلمہ توحید کا اعادہ لازم ہے، چاہے اس نے یہ کام کیا ہو یا نہ، امام شافعی، امام مالک اور جمہور فقہاء کا موقف یہی ہے، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ان تمام صورتوں میں کفارہ لازم ہے، الا یہ کہ وہ یہ کہے میں بدعتی ہوں یا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بری ہوں یا یہودیت سے بیزار ہوں۔ (صحیح مسلم، ج 2، ص 46) حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ج 11، ص 654 مکتبہ دارالسلام) میں یہی بات کہی ہے، لیکن علامہ تقی عثمانی اور علامہ سعیدی نے لکھا ہے، ہمارے نزدیک غیراللہ کی قسم منعقد نہیں ہوتی، (ہدایہ اولین ص 459، مکتبہ امدادیہ) میں بھی اس کی تصریح موجود ہے، ہاں بقول علامہ تقی، اگر یہ قسم اٹھاتا ہے، اگر میں یہ کام نہ کروں، تو میں کافر یا یہودی یا نصرانی ہوں، تو یہ احناف کے نزدیک قسم ہے، کیونکہ قسموں کا مدار عرف پر ہے، اور یہ الفاظ عرفا قسم ہیں۔ (تکملہ، ج 2، ص 183)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4260
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4860
4860. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص قسم اٹھائے اور اپنی قسم میں لات و عُزٰی کا نام لے تو اسے لا إله إلا اللہ پڑھنا چاہئے اور جو شخص اپنے ساتھی سے کہے آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ کرنا چاہئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4860]
حدیث حاشیہ: یہ صدقہ اس لئے کہ ایک خیالی گناہ کا یہ کفارہ بن جائے۔ کلمہ توحید پڑھنے کا حکم اس شخص کے لئے دیا گیا جو عربوں میں سے نیا نیا اسلام میں داخل ہوتا تھا۔ چونکہ پہلے سے زبان پر یہ کلمات چڑھے ہوئے تھے، اس لئے فرمایا کہ اگر غلطی سے زبان پر اس طرح کے کلمات آجائیں تو فوراً اس کی تلافی کر لینی چاہئے۔ اور کلمہ طیبہ پڑھ کر ایمان اور عقیدہ توحید کو تازہ کرنا چاہئے۔ ایسا ہی حکم ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنے پیروں مرشدوں غوث شاہ بزرگان یا زندہ انسانوں کی قسم کھاتے رہتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ جس نے غیراللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ بہر حال قسم تواللہ ہی کے نام کی کھانی چاہئے اور وہ بھی سچی قسم ہو ورنہ اللہ کے نام کی جھوٹی قسم کھانا بھی کبیرہ گناہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4860
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6650
6650. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو کوئی قسم اٹھائے اور اپنی قسم میں کہے: لات اور عزی کی قسم تو اسے چاہیے کہ فوراً لا إله إلا اللہ پڑھے۔ اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا: آ، میں تیرے ساتھ جوا کھیلتا ہوں تو اسے صدقہ کرنا چاہیئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6650]
حدیث حاشیہ: ہرچند غیراللہ کے قسم کھانا مطلقا منع ہے مگربتوں، دیوتاؤں یا پیروں ولیوں کی قسم کھانا قطعاً حرام ہے۔ اگر کوئی قسم کھالے تو ایسے شخص کو پھر کلمہ توحید پڑھ کر مسلمان ہونا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6650
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6107
6107. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے لات اور عزٰی کی قسم اٹھائی تو اسے لا إله الا اللہ پڑھنا چاہیے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ! جوا کھیلیں تو اسے بطور کفارہ صدقہ کرنا چاہیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6107]
حدیث حاشیہ: لات عزیٰ بتوں کی قسم وہی لوگ کھا سکتے ہیں جو ان کو معبود جانتے ہوں گے، لہٰذا اگر کوئی مسلمان ایسی قسم کھا بیٹھے تو لازم ہے کہ وہ دوبارہ کلمہ طیبہ پڑھ کر ایمان کی تجدید کرے۔ غیر اللہ میں سب داخل ہیں بت ہوں یا اوتار یا پیغمبر یا شہید یا ولی یا فرشتے کسی بھی بت یا حجر وغیرہ کی قسم کھانے والا دوبارہ کلمہ طیبہ پڑھ کر تجدید ایمان کے لئے مامور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6107
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4860
4860. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص قسم اٹھائے اور اپنی قسم میں لات و عُزٰی کا نام لے تو اسے لا إله إلا اللہ پڑھنا چاہئے اور جو شخص اپنے ساتھی سے کہے آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ کرنا چاہئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4860]
حدیث حاشیہ: 1۔ اگر کوئی شخص لات و منات کی قسم اٹھائے اور قسم اٹھانے میں ان کی تعظیم مقصود ہو تو وہ ایمان سے خالی ہو جاتا ہے۔ اس لیے اسے تجدید ایمان کے لیے لا إله إلااللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا چاہیے۔ اگر ان کی قسم اٹھاتے وقت ان کی تعظیم مقصود نہ تھی بلکہ سہواً یا غفلت کے طور پر زبان پر جاری ہو گیا تو بھی چونکہ بت کا نام لیا ہےاس لیے دل میں کچھ نہ کچھ ظلمت تو ضرور آئے گی اس کے ازالے کے لیے بھی کلمہ توحید پڑھ لینا چاہیے۔ 2۔ بہر حال معبود ان باطلہ کا نام دانسہ یا سہواً زبان پرآ جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس لیے کلمہ اخلاص سے اس کی تلافی کر لی جائے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4860
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6107
6107. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے لات اور عزٰی کی قسم اٹھائی تو اسے لا إله الا اللہ پڑھنا چاہیے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ! جوا کھیلیں تو اسے بطور کفارہ صدقہ کرنا چاہیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6107]
حدیث حاشیہ: (1) لات و عُزٰی اور دیگر بتوں کی قسم وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو انہیں معبود مانتے ہیں، لیکن ایک مسلمان کے لائق نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر معبودان باطلہ کی قسم اٹھائے۔ اگر لاعلمی یا جلدی سے اس نے ایسا کر لیا ہے تو کلمۂ توحید پڑھ کر اس کی تلافی کرے اور باطل کی نفی کرے کیونکہ لات و عُزٰی بتوں کے نام ہیں اور ان کی قسم اٹھانا گویا ان کی تعظیم بجا لانا ہے۔ (2) اگر کوئی انسان کسی بت کی قسم جان بوجھ کر اٹھاتا ہے اور اس کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی طرح بجا لاتا ہے تو اس کے مشرک ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ (3) اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ کلمۂ توحید پڑھ کر دوبارہ اسلام میں داخل ہو۔ واللہ المستعان (4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی بھول کر یا لاعلمی میں لات و عُزٰی کی قسم اٹھاتا ہے تو اسے جلدی سے ''کلمۂ کفر'' کی تلافی ''کلمۂ توحید'' سے کرنی چاہیے کیونکہ ایمان کے بعد کلمۂ کفر کہنے سے اس کے اعمال ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ (فتح الباري: 634/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6107
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6650
6650. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو کوئی قسم اٹھائے اور اپنی قسم میں کہے: لات اور عزی کی قسم تو اسے چاہیے کہ فوراً لا إله إلا اللہ پڑھے۔ اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا: آ، میں تیرے ساتھ جوا کھیلتا ہوں تو اسے صدقہ کرنا چاہیئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6650]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں لات و عزی کی قسم کھانے کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں طواغیت کا حوالہ ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس لفظ سے ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ ہیں: ”تم اپنے باپ دادا اور طواغیت کی قسم نہ اٹھاؤ۔ “(سنن النسائي، الأیمان والنذور، حدیث: 3805)(2) جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ جس نے لات و عزی یا اس کے علاوہ دیگر بتوں کی قسم اٹھائی یا کہا کہ اگر میں یہ کام کروں تو یہودی اور عیسائی ہوں گا یا میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بری ہوں تو اس طرح قسم منعقد نہیں ہو گی۔ اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے اس گناہ کی معافی مانگے اور اس پر توبہ کے علاوہ اور کوئی کفارہ نہیں۔ توبہ کے لیے وہ لا إله إلا اللہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔ (3) حدیث میں لا إله إلا اللہ پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے کیونکہ بتوں کے نام کی قسم کھا کر انسان نے کفار کی مشابہت کی ہے، اس لیے وہ لا إله إلا اللہ کلمۂ توحید پڑھ کر اس کی تلافی کرے اور جوئے کی دعوت دے کر اس نے کفار کے ساتھ ایک کھیل میں موافقت کی ہے، اس لیے حکم ہے کہ مالی صدقہ دے کر اس جرم کی معافی مانگے۔ اس میں صرف دعوت دینے والے کو صدقے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر کوئی عملی طور پر جوا کھیلتا ہے تو اسے بالاولیٰ صدقہ کرنا چاہیے تاکہ اس گناہ کا کفارہ ہو جائے۔ (فتح الباري: 654/11)(4) بہرحال غیراللہ کی قسم اٹھانا مطلقاً منع ہے۔ اگر کوئی بتوں، دیوتاؤں، ولیوں اور پیروں کی قسم اٹھاتا ہے تو وہ ایک حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے اسے چاہیے کہ کلمۂ توحید پڑھ کر اس کا ازالہ کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6650
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 45
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم کھائی اور اپنی قسم میں کہا کہ مجھے لات کی قسم، اُسے چاہیے کہ «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ کہے۔ اور جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا کہ... [صحيح ابن خزيمه ح: 45]
فوائد:
➊ غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے۔ اور نیز کسی کو اتنا کہنا کہ آؤ جوا کھیلیں یہ بھی حرام ہے اور اس کا کفارہ حسب استطاعت صدقہ کرنا ہے، لیکن جوا کھیلنے کا گناہ اس کی سزا سخت تر ہے۔
➋ فحش گوئی اور غیر شرعی باتوں سے وضو نہیں ٹوٹتا اور حیا باختہ باتوں کے بعد کلی کرنا بھی ثابت نہیں ہے۔ لٰہذا ان بری عادات کو ترک کرنا اور زبان کو محتاط رکھنا ضروری ہے نہ کہ ان کے ازالہ کے لیے شریعت سازی کی جائے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 45