ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ(ان کی والدہ) ام سلیم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چمڑے کا فرش بچھا دیتی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں اسی پر قیلولہ کر لیتے تھے۔ بیان کیا پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے (اور بیدار ہوئے) تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور (جھڑے ہوئے) آپ کے بال لے لیے اور (پسینہ کو) ایک شیشی میں جمع کیا اور پھر «سك»(ایک خوشبو) میں اسے ملا لیا۔ بیان کیا ہے کہ پھر جب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے وصیت کی کہ اس «سك»(جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ ملا ہوا تھا) میں سے ان کے حنوط میں ملا دیا جائے۔ بیان کیا ہے کہ پھر ان کے حنوط میں اسے ملایا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6281]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6281
حدیث حاشیہ: حافظ نے کہا کہ یہ بال حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے لئے تھے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ بال اسی وقت لے لئے تھے جب آپ نے منیٰ میں سر منڈایا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا آپ کے بدن کا پسینہ جمع کر رہی تھیں اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جاگے تو فرمایا ام سلیم یہ کیا کر رہی ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کا پسینہ خوشبو میں ڈالنے کے لئے جمع کرتی ہوں وہ خود بھی نہایت خوشبودار ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ ہم برکت کے لئے آپ کا پسینہ اپنے بچوں کے واسطے جمع کرتی ہوں چنانچہ حنوط میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال اور پسینہ ملا ہوا تھا ولا معارضة بین قولھا إنھا کانت تجمعه لأجل طیبة وبین قولھا للبرکة بل یحمل علی أنھا کانت تفصل ذلك الأمرین معا (فتح) یعنی یہ کام برکت اورخوشبو ہر دو مقاصد کے لئے کیا کرتی تھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6281
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6281
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزرگانِ دین کا اپنے عقیدت مندوں، رشتے داروں اور معتبر دوست احباب کے ہاں قیلولہ کرنا جائز ہے۔ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ (2) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور آپ نے ہمارے ہاں قیلولہ فرمایا تو آپ کو پسینا آ گیا۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا شیشی لے کر آئیں اور اس پسینے کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو فرمایا: ”ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟“ انھوں نے کہا: آپ کا پسینہ جمع کر رہی ہوں، ہم اسے خوشبو میں ڈالیں گے تو یہ تمام خوشبوؤں میں سے اعلیٰ خوشبو ہوگی۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ ہمارے بچوں کے لیے باعث خیرو برکت ہوگا۔ (صحیح مسلم، الفضائل،حدیث: 6056(2331)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6281
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5373
´چمڑے کے بچھونے کا کیا حکم ہے؟` انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھال پر لیٹے تو آپ کو پسینہ آ گیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا اٹھیں اور پسینہ اکٹھا کر کے ایک شیشی میں بھرنے لگیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا: ”ام سلیم! یہ تم کیا کر رہی ہو؟“ وہ بولیں: میں آپ کے پسینے کو عطر میں ملاؤں گی، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5373]
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث مبارکہ میں اس مسئلے کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا پسینہ مبارک متبرک تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے تبرک حاصل کیا ہے۔ نبیٔ اکرم ﷺ کو اس بات کا علم تھا اور آپ نے انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ مزید برآں یہ کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے مبارک بالوں اور ناخنوں کو بھی بابرکت سمجھتے تھے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو آپ ﷺ سے بے انتہا محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپ کے پسینے مبارک کو بھی محبوب متاع سمجھتے تھے اور آپ کے آثار کریمہ سے تبرک حاصل کرتے تھے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انسان کا چمڑا، اس کا پسینہ اور اسی طرح انسانی بال بھی پاک اور طاہر ہیں، نیز اس سے قیلولے کی مشروعیت بھی ثابت ہوئی۔ (3)”چمڑے کا بچھونا“ کپڑے کی چادر سے بہر صورت بہتر ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اچھی چیز کا استعمال معیوب نہیں۔ (4)”استراحت فرما ہوئے“ پیچھے گزرچکا ہے کہ حضرت ام سلیم اور حضرت ام حرام سے جوکہ بہنیں تھیں، آپ کا کوئی ایسا رشتہ تھا جس کی بنا پر وہ آپ کی محرم تھیں، اس لیے آپ کبھی کبھی ان کے گھروں میں جاتے تھے اور کبھی استرحت بھی فرماتے تھے۔ (5)”اکٹھا کرکے“ عربی میں لفظ نشَّفَتْهُ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ خشک کرنے کے ہیں۔ گویا انہوں نے کسی کپڑے میں پسینہ جذب کر لیا اور وہ کپڑا اپنی خوشبو میں نچوڑ لیا یا خالی شیشی میں۔ واللہ أعلم۔ (6)”مسکرانے لگے“ ان کے حسن عقیدت پر اور حسن ادب کو دیکھ کر۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے کہ ایسا تبرک صرف رسول اللہ ﷺ سے خاص تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5373
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6055
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہمارے ہاں قیلولہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم [صحيح مسلم، حديث نمبر:6055]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی شناسا اور عزیز کے ہاں جا کر قیلولہ کر سکتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ہمیشہ انتہائی پاکیزہ خوشبو آتی تھی اور آپ کا پسینہ انتہائی معطر ہوتا تھا، جو عام خوشبو میں مزید نکھار پیدا کر دیتا تھا، جس سے معلوم ہوا آپ ہر وقت صاف ستھرے رہتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6055
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6057
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاں آتے اور اس کے ہاں قیلولہ کرتے، وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے چمڑے کا ٹکڑا بچھا دیتیں، جس پر آپ قیلولہ کرتے اور آپ کو پسینہ بہت آتا تھا تو وہ آپ کا پسینہ جمع کرکے خوشبو اور شیشی میں ڈال لیتیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”اے ام سلیم! یہ کیا ہے؟“ اس نے کہا،آپ کا پسینہ ہے،میں اسے اپنی خوشبو میں ملا لیتی ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6057]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) نطع: چمڑے کا بچھونا۔ (2) أدوف: میں ملا لیتی ہوں۔