عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد سکھلایا تو میری دونوں ہتھیلیاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان تھیں اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے طلحہ بن عبیداللہ اٹھ کر بڑی تیزی سے میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور (توبہ قبول ہونے پر) مجھے مبارک باد دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: Q6263]
ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ان سے قتادہ نے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا مصافحہ کا دستور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں تھا؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں ضرور تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6263]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6263
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ملاقات کے وقت مصافحہ کرنے کا عمل ثابت ہوتا ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تو مصافحہ کرتے تھے۔ حدیث میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے، چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی دومسلمان ملاقات کرتے اور پھر مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ہی ان دونوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5212)(2) بہرحال مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ خوشی سے ملنا اور مصافحہ کرنا آپس میں محبت کے اضافے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مصافحے کے اس عمومی عمل سے اجنبی عورت اور خوبصورت بے ریش لڑکا مستثنیٰ ہے۔ اس سے مصافحہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بے شمار فتنے جنم لیتے ہیں۔ (فتح الباري: 66/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6263