ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، ان سے ابن المنکدر نے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم میں سے ایک صاحب کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا نام قاسم رکھا۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم تم کو ابوالقاسم کہہ کر نہیں پکاریں گے (کیونکہ ابوالقاسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت تھی) اور نہ ہم تمہاری عزت کے لیے ایسا کریں گے۔ ان صاحب نے اس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمٰن رکھ لے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6186]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6186
حدیث حاشیہ: حیات نبوی میں کسی کو ابو القاسم سے پکارنا باعث اشتباہ تھا کیونکہ ابو القاسم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ لہٰذا آپ نے ہر کسی کو کنیت ابو القاسم رکھنے سے منع فرمایا تاکہ اشتباہ نہ ہو۔ آپ کے بعد یہ کنیت رکھنا علماء نے جائز رکھا ہے۔ عبداللہ، عبدالرحمن اللہ کے نزدیک بڑے پیارے نام ہیں کیونکہ ان میں اللہ کی طرف نسبت ہے جو بندے کی بندگی کو ظاہر کرتے ہے۔ باب کا مضمون صریحاً ایک حدیث میں آیا ہے کہ أَحَبُّ الأسماء إلی اللہِ عبدُاللہ وعبدُ الرحمنِ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6186
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6186
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں ایک حدیث کا حصہ منتخب کیا ہے۔ پوری حدیث اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ہاں پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔ “(صحیح مسلم، الأدب، حدیث: 5587(2132) ان ناموں کے پسندیدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف بندگی کی نسبت کی۔ کسی بھی آدمی کے لیے بہت بڑی سعادت ہے کہ اسے ہر وقت اس عالی نسبت سے پکارا جائے۔ (2) ان دونوں ناموں کی خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم میں عبد کی اضافت اللہ اور الرحمٰن کی طرف ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ وہ نام بھی ان سے ملحق ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے کسی نام کی طرف عبدیت کی نسبت ہو، جیسے عبدالقیوم، عبدالجبار اور عبدالرب وغیرہ۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6186