ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے، ان سے برید ابن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ خیبر میں گئے اور ہم نے رات میں سفر کیا، اتنے میں مسلمانوں کے آدمی نے عامر بن اکوع رضی للہ عنہ سے کہا کہ اپنے کچھ شعر اشعار سناؤ۔ راوی نے بیان کیا کہ عامر شاعر تھے۔ وہ لوگوں کو اپنی حدی سنانے لگے۔ ”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔ ہم تجھ پر فدا ہوں، ہم نے جو کچھ پہلے گناہ کئے ان کو تو معاف کر دے اور جب (دشمن سے) ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہم پر سکون نازل فرما۔ جب ہمیں جنگ کے لیے بلایا جاتا ہے، تو ہم موجود ہو جاتے ہیں اور دشمن نے بھی پکار کر ہم سے نجات چاہی ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون اونٹوں کو ہانک رہا ہے جو حدی گا رہا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ عامر بن اکوع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک اس پر رحم کرے۔ ایک صحابی یعنی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اب تو عامر شہید ہوئے۔ کاش اور چند روز آپ ہم کو عامر سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم خیبر آئے اور اس کو گھیر لیا اس گھراؤ میں ہم شدید فاقوں میں مبتلا ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے خیبر والوں پر ہم کو فتح عطا فرمائی جس دن ان پر فتح ہوئی اس کی شام کو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ آگ کیسی ہے، کس کام کے لیے تم لوگوں نے یہ آگ جلائی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ گوشت پکانے کے لیے۔ اس پر آپ نے دریافت فرمایا کس چیز کے گوشت کے لیے؟ صحابہ نے کہا کہ بستی کے پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گوشت کو برتنوں میں سے پھینک دو اور برتنوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم گوشت تو پھینک دیں، مگر برتن توڑنے کے بجائے اگر دھو لیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا یوں ہی کر لو۔ جب لوگوں نے جنگ کی صف بندی کر لی تو عامر (ابن اکوع شاعر) نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا، ان کی تلوار چھوٹی تھی اس کی نوک پلٹ کر خود ان کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہو گئی۔ جب لوگ واپس آنے لگے تو سلمہ (عامر کے بھائی) نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ میرے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہو گئے۔ (کیونکہ ان کی موت خود ان کی تلوار سے ہوئی ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: فلاں، فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے یہ بات کہی اس نے جھوٹ کہا ہے انہیں تو دوہرا اجر ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا کہ وہ عابد بھی تھا اور مجاہد بھی (تو عبادت اور جہاد دونوں کا ثواب اس نے پایا) عامر کی طرح تو بہت کم بہادر عرب میں پیدا ہوئے ہیں (وہ ایسا بہادر اور نیک آدمی تھا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6148]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6148
حدیث حاشیہ: عامرکےلیے جو لفظ آپ نے استعمال فرمائے وہ ان کی شہادت کی پیش گوئی تھی، کیونکہ جس کےلیے آپ لفظ ''برحمة اللہ'' فرما دیتے وہ ضرور شہید ہو جاتا یہ آپ کا ایک معجزہ تھا۔ اسی سے لوگوں نے لفظ مرحوم نکالا ہے، جو فوت شدہ مسلمانوں پر بولا جاتا ہے اورروایت میں حدی خوانی اوررجز وغیرہ کا ذکر ہے، باب سے یہی مناسبت ہے۔ اشعار مذکورہ کا ترجمہ حضرت مولاناوحید الزمان مرحوم کےلفظوں میں یہ ہے۔ گر نہ ہوتی تیری رحمت اے شہ عالی صفات! تو نمازیں ہم نہ پڑھتے اورنہ دیتے ہم زکوۃ تجھ پہ صدقے جب تک دنیا میں ہم زندہ رہیں بخش دے ہم کو، لڑائی میں عطا فرما ثبات اپنی رحمت ہم پہ نازل کر شہ والا صفات جب وہ ناحق چیختے سنتے نہیں ہم ان کی صفات چیخ چلا کر انہوں نے ہم سے چاہی ہے نجات چیخ چلا کرانہوں نے ہم سے چاہی نجات حدی ایک خاص لہجہ کا گانا جس کوسن کر تھکا ہوا اونٹ تازہ دم ہو کر مست ہو جاتا ہے (اکمال، صفحہ: 468) اس سے رزمیہ نظموں کا جواز نکلتا ہے۔ یہاں مذکورہ احادیث میں کچھ جنگ خیبر کے واقعات بیان کئےگئے ہیں اور یہ ہمارے محترم کاتب صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے پچھلے صفحات میں اردو کو اتنا خفی کر دیا کہ صفحات کےمطابق عربی اردو میں کافی تفاوت واقع ہو گیا اور یہ آخری صفحات خالی رہ گئے یہاں مرقومہ احادیث کا ترجمہ پچھلے صفحات پرچلا گیا۔ امید ہےکہ اس سلسلہ میں قارئین کرام ہم کو معذور تصور فرماتے ہوئے ان خالی صفحات پر جنگ خیبر کی تفصیلات معلوم کر کے محفوظ ہوں گے جنگ خیبر حدیبیہ کےبعد واقع ہوئی۔ جس کے موقعہ پر اللہ پاک نے آیت ﴿وَعَدَکُمُ اللہُ مَغانِمَ کثیرة﴾(الفتح: 20) ناز ل فرما کربعد کی ہونے والی فتوحات پراشارہ فرما دیا اس لیے مناسب ہوگا کہ صلح حدیبیہ ہی سے آپ مطالعہ فرما کر جنگ خیبر کی تفصیلات معلوم کریں یہ مذکورہ ذیل تفصیلات ہمارے بزرگ ترین استاذ حضرت قاضی سلیمان صاحب سلمان ؒ کی قلم حقیقت رقم سے معطالعہ فرما رہے ہیں۔ حضرت مرحوم یوں شروع فرما رہے ہیں: صلح حدیبیہ (6 ہجری مقدس) اس سال نبی ﷺ نےاپنا ایک خواب مسلمانوں کو سنایا فرمایا ”میں نےدیکھا گویا میں اور سلمان مکہ پہنچ گئے ہیں اوربیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں،، اس خواب کےسننے سے غریب الوطن مسلمانوں کو اس شوق نے جو بیت اللہ کےطواف کا ان کےدل میں تھا بے چین کر دیا اور انہوں نے اسی سال نبی ﷺ کو سفر مکہ کے لیے آمادہ کر لیا، مدینہ سےمسلمانوں نےسامان جنگ ساتھ نہیں لیا۔ بلکہ قربانی کےاونٹ ساتھ لئے اورسفر بھی ذیقعدہ کےمہینہ میں کیا جس میں عرب قدیم رواج کی پابندی سےجنگ ہرگز نہ کیا کرتے تھے اورجس میں ہر ایک دشمن کوبلا روک ٹوک مکہ آنے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ جب مکہ 19 میل رہ گیا تونبی ﷺ نےمقام حدیبیہ سے قریش کے پاس اپنے آنے کی اطلاع بھیج دی اور آگے بڑھنے کی اجازت بھی ان سے چاہی۔ عثمان بن عفان جن کا اسلامی تاریخ میں ذولنورین لقب ہے، سفیر بنا کر بھیجے گئے۔ ان کے جانے کےبعد لشکر اسلامی میں یہ خبر پھیل گئی کہ قریش نے حضرت عثمان کو قتل یا قید کر دیا ہے۔ اس لیے نبی ﷺ نےاس بے سرو سامانی میں جمعیت سےجان نثاری کی بیعت لی کہ اگر لڑنا بھی پڑا تو ثابت قدم رہیں گے۔ بیعت کرنے والوں کی تعداد چودہ سو تھی۔ قرآن مجید میں ہے۔ ﴿لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾ اس بیعت میں نبی کریم ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کو عثمان کا داہنا ہاتھ قرار دیا اور ان کی جانب سے اپنے ہاتھ پربیعت کی۔ اس بیعت کا حال سن کر قریش ڈر گئے اور ان کےسردار یکے بعد دیگر ے حدیبیہ میں حاضر ہوئے۔ عروہ بن مسعود جو قریش کی جانب سے آیا اس نے قریش کو واپس جا کر کہا (یہ عروہ جو آج قریش کا سفیر بن کر آیا تھا، چند سال کے بعد خود بخود مسلماں ہو گیا تھا، اور اپنی قوم میں تبلیغ اسلام کے لیے سفیر اسلام بن کر گیا تھا۔ اے قوم! مجھے بارہا نجاشی (بادشاہ حبش) قیصر (بادشاہ قسطنطنیہ) کسریٰ (بادشاہ ایران) کے دربار میں جانے کا اتقاق ہوا ہے مگر مجھے کوئی بھی ایسا بادشاہ نظرنہ آیا جس کی عظمت اس کے دربار والوں کے دل میں ایسی ہو جیسے اصحاب محمد کے دل میں محمد کی ہے (ﷺ) محمدﷺ تھوکتا ہے تو اس کا آب دہن زمین پر گرنے نہیں پاتا۔ کسی نہ کسی کے ہاتھ ہی پر گرتا ہے اور وہ شخص اس آب دہن کو اپنے چہرے پرمل لیتا ہے۔ جب محمد (ﷺ) کوئی حکم دیتا ہے توتعمیل کے لیے سب مبادرت کرتےہیں۔ جب وہ وضو کرتا ہے تو آب مستعمل وضو کے لیے گرے پڑتے ہیں گویا لڑائی ہو پڑے گی۔ جب کلام کرتا ہے تو سب کےسب چپ ہو جاتے ہیں۔ ان کے دل میں محمد (ﷺ) کا اتنا ادب ہے کہ وہ اس کے سامنے نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ میری رائے ہے کہ ان سےصلح کر لو جس طرح بھی بنے۔ سوچ سمجھ کر قریش صلح پر آمادہ ہوئے۔ صلح کے لیے مندرجہ ذیل شرائط طے ہوئیں۔ (1) دس سال تک باہمی صلح رہےگی، جانبین کی آمدوروفت میں کسی کوروک ٹوٹ نہ ہوگی۔ (2) جو قبائل چاہیں، قریش سےمل جائیں اورجو قبائل چاہیں وہ مسلمانوں کی جانب شامل ہو جائیں۔ دوست دار قبائل کےحقوق بھی یہی ہوں گے۔ (3) اگلے سال مسلمانوں کوطواف کعبہ کی اجازت ہوگی۔ اس وقت ہتھیار ان کے جسم پر نہ ہوں گے گو سفر میں ساتھ ہوں (4) اگر قریش میں سے کوئی شخص نبی ﷺ کے پاس مسلمان ہو کر چلا جائے تونبی ﷺ اس شخص کوقریش کے طلب کرنے پر واپس کر دیں گے، لیکن اگر کوئی شخص اسلام چھوڑ کر قریش سےجا ملے تو قریش اسے واپس نہ کریں گے۔ آخری شرط سن کر تمام مسلمان بجز ابوبکر صدیق گھبرا اٹھے،عمر فاروق اس بارے میں زیادہ پرجوش تھے۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ہنس کر اس شرط کو بھی منظور فرما لیا۔ معاہد ہ حضرت علی مرتضیٰ نےلکھا تھا۔ انہوں نے شروع میں لکھا، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سہیل جو قریش کی طرف سےمختار معاہدہ تھا، بولا، بخدا ہم نہیں جانتے کہ رحمن کسے کہتے ہیں باسمِكَ اللھم لکھو۔ نبی ﷺ نے وہی لکھ دینےکا حکم دیا۔ حضرت علی نے پھر لکھا یہ معاہدہ ''محمد رسول اللہ'' اور قریش کے درمیان منعقد ہوا ہے۔ سہیل نےاس پر بھی اعتراض کیا اور نبی کریم ﷺ نےاس کی درخواست پر محمد بن عبداللہ لکھنے کا حکم دیا۔ (بخاري عن مسور بن مخرمة، باب الشروط في الجهاد) یہی سہیل جو آج اسم مبارک محمد ﷺ کے ساتھ رسول لکھنے پراعتراض کرتا ہے چند سال کے بعد دلی شوق اور امنگ سےمسلمان ہو گیا۔ انتقال نبوی ﷺ کے بعد مکہ مکرمہ میں اس نےاسلام کی حقانیت پر ایسی زبردست تقریر کی تھی، جو ہزاروں مسلمانوں کے لیے استحکام اور تازگی ایمان باعث ٹھہر ی تھی، بے شک یہ اسلام کاعجیب اثر ہے کہ وہ جانی اوردلی دشمنوں کو دم بھر میں اپنا فدائی بنا لیتا ہے۔ معاہد ہ کی آخری شرط کی نسبت قریش کا خیال تھا کہ اس شرط سے ڈر کر کوئی شخص آئندہ مسلمان نہ ہوگا، لیکن یہ شرط ابھی طے ہی ہوئی تھی اور عہد نامہ لکھا ہی جا رہا تھا، دونوں طرف سے معاہدہ دستخط بھی نہ ہوئے تھے کہ سہیل بن عمرو (جواہل مکہ کی طرف سےمعاہدہ پر دستخط کرنے کا اختیار ر کھتا تھا) کے سامنے ابو جندل اسی جلسہ میں پہنچ گیا اور ابو جندل مکہ میں مسلمان ہو گیا تھا، قریش نے اسے قید کر رکھا تھا اور اب وہ موقع پاکر زنجروں سمیت ہی بھاگ کر لشکر اسلامی میں پہنچا تھا۔ سہیل نے کہا کہ اسے ہمارے حوالہ کیا جائے۔ عہد نامہ کب واجب العمل ہوتا ہے: نبی ﷺ نےفرمایا کہ عہد نامے کےمکمل ہو جانے پراس کےخلاف نہ ہوگا، یعنی تک عہد نامہ مکمل نہ ہو جائے اس کی شرط پرعمل نہیں ہو سکتا۔ سہیل نے بگڑ کر کہا کہ تب ہم صلح ہی نہیں کرتے۔ نبی ﷺنےحکم دیا اور ابوجندل قریش کےسپرد کر دیا گیا۔ قریش نےمسلمانوں کےکیمپ میں اس کی مشکیں باندھیں، پاؤں میں زنجیر ڈالی اور کشاں کشاں لے گئے۔ نبی ﷺ نے جاتے وقت اس قدر فرما دیا تھا کہ ابوجندل! خدا تیری کشائش کےلیے کوئی سبیل نکال دے گا۔ ابو جندل کی ذلت اور قریش کا ظلم دیکھ کر مسلمانوں کے اندر جوش اور طیش تو پیدا ہوا، مگر نبی ﷺ کا حکم سمجھ کرضبط وصبر کئے رہے۔ نبی ﷺ حدیبیہ ہی میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ اسی (80) آدمی کوہ تنعیم سےصبح کے وقت جب مسلمانوں نماز میں مصروف تھے اس ارادے سے اترے کہ مسلمانوں کو نماز میں قتل کر دیں یہ سب گرفتار کر لئے گئے اور آنحضرت ﷺ نے انہیں ازراہ رحم دلی وعفو چھوڑ دیا۔ حملہ آور اعداء کومعافی: اسی واقعہ پر قرآن مجید میں اس آیت کانزول ہوا۔ ﴿وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ﴾(سورۂ الفتح آیت: 23) خدا وہ ہے جس نے وادی مکہ میں تمہارے دشمنوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے اورتمہارے ہاتھ بھی (ان پر قابو پانے کےبعد) ان سے روک دیئے۔ الغرض یہ سفر بہت خیر وبرکت کا موجب ہوا۔ آنحضرت ﷺ نےمعاندین کےساتھ معاہدہ کرنے میں فیاضی، حزم، دور بینی اور حملہ آور دشمنوں کی معافی میں عفو اور حمۃاللعالمینی کے انور کا ظہور دکھایا، حدیبیہ ہی سے مدینہ منورہ کو واپس تشریف لے گئے۔ اسی معاہدہ کے بعد سورۃ الفتح کا نزول حدیبیہ میں ہوا تھا۔ عمر فاروق نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا یہ معاہدہ ہمارے لئے فتح ہے؟ فرمایا ہاں! ابوجندل نے زندان مکہ میں پہنچ کر دین حق کی تبلیغ شروع کر دی، جو کوئی اس کی نگرانی پرمامور ہوتا، وہ اسے توحید کی خوبیاں سناتا، اللہ کی عظمت و جلالت بیان کرکے ایمان کی ہدایت کرتا۔ خدا کی قدرت کہ ابوجندل اپنے سچے ارادے اور سعی میں کامیاب ہو جاتا اور وہ شخص مسلمان ہو جاتا۔ قریش اس دوسرے ایمان لانے والے کو بھی قید کر دیتے، اب یہ دونوں مل کر تبلیغ کا کا م اسی قید خانہ میں کرتے۔ الغرض اس طرح ایک ابوجندل کےقید ہو کر مکہ پہنچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال کے اندر قریبا تین سو اشخاص نبی ﷺ کی خدمت میں بھیجے، آنحضرت ﷺ نےابو بصیر کو ان کے سپرد کر دیا۔ راستہ میں ابوبصیر نےان میں سے ایک کو دھوکا دے کر مار دیا، دو سرا نبی ﷺ کی خدمت میں اطلاع دینے کے لیے گیا۔ اس کے پیچھے ہی ابوبصیر پہنچا، نبی ﷺ نےاسے فساد انگیز فرمایا اس عتاب سےخوف زدہ ہو کر وہاں سے بھی بھاگا۔ قریش نے ابوجندل اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کومکہ سےنکال دیا۔ ابو جندل کو چونکہ مدینہ آنے کی اجازت نہ تھی، اس نے مکہ سے شام کے راستہ پرایک پہاڑی پر قبضہ کر لیا، جو قافلہ قریش کا آتا جاتا اسے لوٹ لیتا (کیونکہ قریش فریق جنگ تھے) ابوبصیر بھی اسی سے جلا ملا۔ ایک دفعہ ابوالعاص بن ربیع کا قافلہ بھی شام سےآیا۔ ابو جندل وغیرہ ابوالعاص سےواقف تھے، سیدہ زینب بنت رسول ﷺ کا اس سے نکاح ہوا تھا (گو ابوالعاص کے مشرک رہنے سے افراق ہو چکا تھا) ابوجندل نےقافلہ لوٹ کیا۔ مگر کسی جان کا نقصان نہ ہوا۔ اس لیے کہ ابوالعاص ان میں تھا۔ ابوالعاص وہاں سے سیدھا مدینہ آیا اور حضرت زینب ؓ کی وساطت سےماجرا کی اطلاع نبی ﷺ تک پہنچائی۔ نبی ﷺ نےمعاملہ صحابہ کےمشورہ پرچھوڑ دیا۔ صحابہ نے ابوالعاص کی تائید میں فیصلہ کیا۔ جب ابو جندل کو اس فیصلہ کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے سارا اسباب رسی اور مہار شتر تک ابوالعاص کو واپس کر دیا، ابوالعاص مکہ پہنچا۔ سب لوگوں کا روپیہ پیسہ اسباب ادا کیا۔ پھر منادی کرائی کہ اگر کسی کا کوئی حق مجھ پررہ گیا ہوتو بتا دے۔ سب نے کہا تو بڑا امین ہے۔ ابوالعاص نےکہا اب میں جاتا ہوں اور مسلمان ہوتا ہوں۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر اس سے پہلے ہو جاتا مسلمان ہو جاتا تو لوگ الزام لگاتے کہ ہمارا مال مارکر مسلمان ہو گیا ہے۔ نبی ﷺ نے ابوجندل اور اس کے ساتھیوں کوبھی اب مدینہ منورہ بلا لیا تھا تاکہ وہ قریش کونہ لوٹ سکیں۔ اب قریش گھبرائے کہ ہم نے کیوں عہدنامے میں ان ایمان والوں کوواپس لینے کی شرط درج کرائی پھر انہوں نے مکہ کے چند منتخب شخصوں کو نبی ﷺ کے خدمت میں بھیجا کہ ہم عہد نامہ کی اس شرط سے دستبردار ہوتے ہیں۔ ان نومسلموں کو اپنے پاس واپس بلا لیجئے۔ نبی ﷺ نے معاہدہ کے خلاف کرنا ناپسند نہ فرمایا۔ اس وقت عام مسلمان بھی سمجھ گئے کہ معاہدہ کی وہ شرط جو بظاہر ہم کو ناگوار تھی اس کا منظورکر لینا کس قدر مفید ثابت ہوا۔ ابوجندل کے حال سے کیا نتیجہ حاصل ہوتا ہے! ابوجندل کے قصہ سے ہرشخص جو سر میں دماغ اوردماغ میں فہم کا مادہ رکھتا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی صداقت کیسی الہیٰ طاقت کےساتھ پھیل رہی تھی اور کس طرح طالبان حق کے دل میں قبضہ کر رہی تھی کہ وطن کی دوری، اقارب کی جدائی، قید، ذلت، بھوک، پیاس، خوف وطمع، تلوار، پھانسی غرض دنیا کی کوئی چیز اور کوئی جذبہ ان کو اسلام سے نہ روک سکتا تھا۔ صلح کاحقیقی فائدہ: امام زہری نےمعاہدہ کی دفعہ او ل کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ جانبین سے آمد ورفت کی روک ٹوک کےاٹھ جانے سے یہ فائدہ ہوا کہ لوگ مسلمانوں سے ملنے جلنے لگے اور اس طرح ان کو اسلام کی حقیقت اور صداقت معلوم کرنے کے مواقع ملے اور اسی وجہ سے اس سال اتنے زیادہ لوگوں نے اسلا م قبول کیا کہ اس سے پیشتر کسی سال اتنے مسلمان نہ ہوئے تھے۔ مسلمانوں کا طواف کعبہ کے لیے جانا اور اس کے نتائج (7ہجری مقدس 9) معاہد حدیبیہ کی شرط دوم کی رو سے مسلمان اس سال مکہ پہنچ کرعمرہ کرنے کا حق رکھتے تھے۔ اس لیے اللہ کا رسول دوہزار صحابہ کو ساتھ لے کر مکہ پہنچا۔ مکہ والوں نے نبی ﷺ کو مکہ آنے سےتونہ روکا لیکن خود گھروں کومقفل کرکے کوہ ابو قبیس کی چوٹی پرجس کے نیچے مکہ آباد ہے چلے گئے، پہاڑ پر سے مسلمانوں کے کام دیکھتے رہے۔ خدا کانبی ﷺ تین دن تک کے لیے مکہ میں رہا اورپھر ساری جمعیت کے ساتھ مدینہ کو واپس چلا گیا۔ ان منکروں پر مسلمانوں کے سچے جوش، سادہ اورمؤثر طریق عبادت کا اور ان کی اعلیٰ دیانت وامانت کا (کہ خالی شدہ شہر میں کسی کا ایک پائی کا بھی نقصان نہ ہوا تھا) عجیب اثر ہوا، جس نے سینکڑوں کو اسلام کی طرف مائل کر دیا۔ جنگ خیبر (محرم 7ھ) : خیبر مدینہ سےشام کی جانب تین منزل پر ایک مقام کانام ہے، یہ یہودیوں کی خالص آبادی کا قصبہ تھا۔ آبادی کے گردا گرد مستحکم قلعے بنائے ہوئےتھے۔ نبی ﷺ کو سفر حدیبیہ سے پہنچے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن (ایک ماہ سےکم) ہوئے تھےکہ یہ سننے میں آیا کہ خیبر کے یہودی پھرمدینہ پرحملہ کرنے والے ہیں اور جنگ احزاب کی ناکامی کا بدلہ لینے اور اپنی کھوئی ہوئی جنگی عز ت وقوت کا ملک بھر میں بحال کرنے کے لیے ایک خونخوار جنگ کی تیار ی کرچکے ہیں۔ انہوں نے قبیلہ غطفان کے چار ہزار جنگجو بہادروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور معاہدہ یہ تھا کہ اگر مدینہ فتح ہو گیا تو پیدا وار خیبر کا نصف حصہ ہمیشہ بنو غطفان کو دیتے رہیں گے۔ مسلمان محاصرہ کی سختی کو جو پچھلے سال ہی جنگ احزاب میں انہیں اٹھانی پڑی تھی، ہنوز نہیں بھولے تھے۔ اس لئے سب مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہو گیا کہ حملہ آور دشمن کو آگے بڑھ کر لینا چاہیے۔ نبی ﷺ نے اس غزوہ میں صرف انہی صحابہ کو ہم رکاب چلنے کی اجازت دی تھی جو لقد ﴿لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ﴾ کی بشارت سے ممتاز تھے اور جن کو ﴿وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا﴾ کا مژدہ مل چکا تھا۔ ان کی تعداد چودہ سو تھی جن میں سےدو سو اسپ سوار تھے۔ مقدمہ لشکر کے سردار عکاشہ بن محصن اسدی اور میمنہ لشکر کے سردار عمربن الخطاب تھے۔ سردار میسرہ کوئی اور صحابی تھے۔ صحابیہ عورتیں بھی شامل تھیں، جو بیماروں اور زخمیوں کی خبر گیری اور تیمارداری کے لیے ساتھ ہولی تھیں۔ لشکر اسلام آبادی خیبر کے متصل رات کے وقت پہنچ گیا تھا لیکن نبی ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ لڑائی رات کو شروع نہ کرتے تھے اور نہ شب خون ڈالا کرتے تھے۔ اس لیے لشکر اسلام نےمیدان میں ڈیرے ڈال دئیے۔ معرکہ کے لیے اس مقام کا انتخاب مرد جنگ آزما خباب بن المنذر نے کیا تھا۔ یہ میدان اہل خیبر اور بنو غطفان کے درمیان پڑتا تھا۔ اس تدبیر کا فائدہ یہ ہوا کہ جب بنو غطفان یہودیان خیبر کی مدد کے لیے نکلے تو انہوں نے لشکر اسلام کو سدراہ پایا اور اس لیے چپ چاپ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ نبی ﷺ نے حکم دیا تھا کہ لشکر کا بڑا کیمپ اسی جگہ رہے گا اور حملہ آور فوج کےدستے کیمپ سےجایا کریں گے۔ لشکر کےاندر فوراً مسجد تیار کرلی گئی تھی اور جنگ کے دوش بدوش تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری فرما دیا گیا تھا۔ حضرت عثمان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کیمپ کے ذمہ دار افسر تھے۔ قصبہ خیبر کے قلعے جو آبادی کے دائیں بائیں واقع تھے شمار میں د س تھے، جس کےاندر دس ہزار جنگی مرد رہتے تھے، ہم ان کوتین حصوں پر تقسیم کر سکتے ہیں (1) قلعہ ناعم (2) قلعہ نطاۃ (3) حصن صعب بن معاذ۔ یہ چاروں حصوں نطاۃ کے نام سے نامزد تھے (4) حصن الزبیر (5) حصن شن (6) حصن البر۔ یہ تینوں حصوں شن کا نام سے نامزد تھے۔ (7) حصن ابی (8) حصن قموص طبر ی (9) حصن وطیح (10) حصن سلالم۔ جسے حصن بنی الحقیق بھی کہتے ہیں۔ یہ تینوں حصوں کتبیہ کے نام سے نامزد تھے۔ محمود بن مسلمہ کو حملہ آور فوج کا سردار بنایا گیا اور انہوں نے قلعہ نطاۃ پرجنگ کا آغاز کر دیا۔ نبی ﷺ خود بھی حملہ آور فوج میں شامل ہوئے تھے، باقی ماندہ فوجی کیمپ زیر نگرانی حضرت عثمان بن عفان تھا۔ محمود بن مسلمہ پانچ روز تک برابر حملہ کرتے رہے لیکن قلعہ فتح نہ ہوا، پانچویں یا چھٹے روز کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذکر ہے کہ محمود میدان جنگ کی گرمی سےذرا سستانےکے لیے پائیں قلعہ دیوار کے سایہ میں لیٹ گئے۔ کنانہ بن الحقیق یہودی نےانہیں غافل دیکھ کر ایک پتھر ان کے سرپر دے مارا جس سےوہ شہید ہو گئے۔ فوج کی کمان محمد بن مسلمہ کے بھائی نے سنبھال لی اور شام تک کمال شجاعت ودلاوری سے لڑتے رہے۔ محمد بن مسلمہ کی رائے ہوئی کہ یہودیوں کےنخلستان کو کاٹا جائے کیونکہ ان لوگوں کو ایک ایک درخت ایک ایک بچہ کے برابر پیارا ہے۔ اس تدبیر سے اہل قلعہ پراثر ڈالا جا سکے گا۔ اس تدبیر پرعمل شروع ہو گیا تھا کہ ابوبکر صدیق نے نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہو کر التماس کیا کہ یہ علاقہ یقینا مسلمانوں کے ہاتھ پر فتح ہونےوالا ہے پھر ہم اسے اپنے ہاتھوں کیوں خراب کریں۔ نبیﷺ نے اس رائے کو پسند فرمایا اور ابن مسلمہ کے پاس نخلستان کاٹنے کا حکم امتناعی بھیج دیا۔ شام کومحمد بن مسلمہ نے اپنے بھائی کی مظلومانہ شہادت کا قصہ خود ہی نبی ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا، نبی ﷺ نےفرمایا لأعطین (أو لیأتین) الرایة غدا رجل یحبه اللہ ورسوله یفتح اللہ علیه کل فوج کا نشان اس شخص کو دیا جائے گا (یا وہ شخص نشان ہاتھ میں لے گا) جس سے خدا تعالیٰ محبت کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔ یہ ایسی تعریف تھی، جسے سن کر فوج کے بڑے بڑے بہادر اگلے دن کی کمان ملنے کے آرزو مند ہو گئے۔ اس رات پاسبانی لشکر کی خدمت حضرت عمر بن الخطاب کے سپرد تھی۔ انہوں نے گرداوری کرتے ہوئے ایک یہودی کو گرفتار کیا اور اسی وقت نبی ﷺ کی خدمت میں لائے۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائے۔ آنحضرت ﷺ نماز تہجد میں تھے، جب فارغ ہوئے تو یہودی سے گفتکو فرمائی۔ یہودی نے کہا کہ اگر اسے اور اس کی زن وبچہ کو جو قلعہ کے اندر ہیں امان عطا ہو تو وہ بہت سے جنگی راز بتا سکتا ہے۔ یہ وعدہ اس سے کر لیا گیا۔ یہودی نے بتایا کہ نطاۃ کے یہودی آج کی رات اپنے زن وبچہ کو قلعہ شن میں بھیج رہے ہیں اور نقدو جنس کو قلعہ کو قلعہ نطاۃ کےاندر دفن کر رہےہیں۔ مجھے وہ مقام معلوم ہے۔ جب مسلمان قلعہ نطاۃ لے لیں گےتومیں وہ جگہ بتا دوں گا۔ بتایا کہ قلعہ شن کے تہ خانوں میں قلعہ شکنی کے بہت سے آلات منجنیق وغیرہ موجود ہیں۔ جب مسلمان قلعہ شن فتح کر لیں گے تو میں وہ تہ خانے بھی سب بتا دوں گا۔ صبح ہوئی تو نبی کریمﷺ نے حضرت علی مرتضیٰ کو یاد فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ انہیں آشوب چشم ہے اور آنکھوں میں درد بھی ہوتا رہا ہے۔ حضرت علی آگئے تونبی ﷺ نےلب مبارک جناب علی مرتضیٰ کى آنکھوں کو لگا دیا۔ اسی وقت آنکھیں کھل گئیں نہ آشوب کی سرخی باقی تھی اور نہ درد کی تکلیف۔ پھر فرمایا علی! جاؤ راہ خدا میں جہاد کرو، پہلے اسلام کی دعوت دو، بعد میں جنگ کرو۔ علی! اگر تمہارے ہاتھ پر ایک شخص بھی مسلمان ہو جائے تو یہ کام بھاری غنیمتوں کےحاصل ہو جانے سے بہتر ہوگا۔ حضرت علی مرتضی نے قلعہ ناعم پر جنگ کی طرح ڈالی۔ مقابلہ کے لیے قلعہ کا مشہور سردار مرحب میدان میں نکلا۔ یہ اپنے آپ کو ہزاروں بہادروں کے برابر کہا کرتا تھا۔ اس نے آتے ہی یہ رجز پڑھنا شروع کر دیا۔ قد علمت خیبر أني مرحب۔ شاکي السلاح بطل مجرب۔ إذ القلوب أقبلت تلهب!۔ ”خیبر جانتا ہےکہ میں ہتھیار سجانے والا بہادر تجربہ کار مرحب ہوں۔ جب لوگوں کے ہوش مارے جاتے ہیں، تو میں بہادر ی دکھاتا ہوں،، اس مقابلہ کے لیے عامر بن الاکوع نکلے۔ وہ بھی اپنا رجز پڑھتے جاتے تھے۔ قد علمت خیبر أني عامر۔ شاکي السلاح بطل مقائر۔ خیبر جانتا ہے کہ ہتھیار چلانے میں استاد نبردآزما تلخ ہوں۔ میرا نام عامر ہے۔ مرحب نے ان پرتلوار سے وار کیا۔ عامر نے اسے ڈھال پرروکا اورمرحب کےحصہ زیریں پر وار چلایا۔ مگر ان کی تلوار جو لمبائی میں چھوٹی تھی۔ ان ہی کے گھنٹے پر لگی، جس کے صدمے سے بالآخر شہید ہو گئے۔ پھر حضرت علی مرتضیٰ نکلے۔ رجز حیدری سے میدان گونج اٹھا۔ أنا الذي سمتني أمي حيدره- أكيلكم بالسيف كيل السندره –كليت باغات شديدقسورة ”میں ہوں کہ میری ماں نے میرا نام شیرغضبناک رکھا ہے، میں اپنی تلوار کی سخاوت سےتمہیں بڑے بڑے پیمانے عطا کروں گا۔ شیر ببرحملہ آور ہنرمیدان ہوں۔ ،، حضرت علی مرتضیٰ نے ایک ہی ہاتھ تلوار کا ایسا مارا کہ مرحب کے خود آہنی کو کاٹتا ہوا عمامہ کو قطع کرتا سر کے دو ٹکڑے بناتا ہوا گردن تک جا پہنچا۔ مرحب کا بھائی یاسر نکلا اسے زبیر بن العوام نے خاک میں سلا دیا۔ اس کے بعد حضرت علی مرتضی کےعام حملہ سے قلعہ ناعم فتح ہو گیا۔ اسی روز قلعہ صعب کو حضرت حباب بن المنذر نے محاصرہ سے تیسرے دن بعد فتح کر لیا۔ حبات بن المنذر انصاری السلمی ابوعمرو کنیت اور ذوالرائے لقب تھا۔ غزوہ بدر میں 33سال کےتھے، میدان جنگ بدر کےمتعلق بھی آنحضرت ﷺ نے ان کے رائے کوپسند فرمایا تھا۔ حضرت عمر کی خلافت میں انتقال فرمایا، قلعہ صعب سے مسلمانوں کوجو، کھجور، چھوہارے، مکھن، روغن، زیتون، چربی اور پارچہ جات کی مقدارکثیر ملی۔ فوج میں قلت رسد سے جو تکلیف ہو رہی تھی و ہ رفع ہو گئی۔ اس قلعہ کے آلات قلعہ شکن بھی برآمد ہوئے، جس کی خبر یہودی جاسوس دے چکا تھا۔ اس سے اگلے روز قلعہ نطاۃ فتح ہو گیا۔ اب قلعہ الزبیر جو ایک ایک پہاڑی ٹیلہ پر واقعہ تھا اور اپنے بانی زبیر کے نام موسوم تھا، پرحملہ کیا گیا۔ دو روز کے بعد ایک یہودی لشکر اسلام میں آیا۔ اس نے کہا یہ قلعہ تو مہینہ تک بھی تم فتح نہ کر سکو گے میں ایک راز بتاتا ہوں۔ اس قلعہ کےاندر پانی زیر زمین نالہ کی راہ سے جاتا ہے اگر پانی کا راستہ بند کر دیا جائے تو قتح ممکن ہے۔ مسلمانوں نے پانی پرقبضہ کر لیا۔ اب اہل قلعہ، قلعہ سے نکل كر کھلے میدان میں آکر لڑے اور مسلمانوں نے انہیں شکست دے کر قلعہ کوفتح کر لیا۔ پھر حصن ابی پرحملہ شروع ہوا۔ اس قلعہ والوں نے سخت مدافعت کی، ان میں سے ایک شخص جس کا نام غزوان تھا، مبارزت کے لیے باہر نکلا۔ حباب مقابلہ کو گئے اس کا بازو راست کٹ گیا۔ وہ قلعہ کو بھاگا، حباب نے تعاقب کیا اور اس کی رگ شاشنہ کو بھی کاٹ ڈالا، وہ گر پڑا اور پھر قتل کیا گیا۔ قلعہ سےایک اور یہودی نکلا، جس کا مقابلہ ایک مسلمان نےکیا۔ مگر مسلمان اس کےہاتھ سےشہید ہو گیا۔ اب ابودجانہ نکلے۔ انہوں نے جاتے ہی اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے اور پھرقتل کر ڈالا۔ یہود پررعب طاری ہو گیا اور باہر نکلنے سے رک گئے۔ ابودجانہ آگے بڑھے۔ مسلمانوں نے ان کا ساتھ دیا۔ تکبیر کہتے ہوئے قلعہ کی دیوار پرچڑھے۔ قلعہ فتح کر لیا۔ اہل قلعہ بھاگ گئے اس قلعہ سے بکریاں اور کپڑے اور اسباب بہت سا ملا۔ اب مسلمانوں نےحصن البربرحملہ کر دیا۔ یہاں کے قلعہ نشینوں نے مسلمانوں پر اتنے تیر برسائے اور اتنے پتھر گرائے کہ مسلمانوں کوبھی مقابلہ میں منجنیق کا استعال کرنا پڑا۔ منجنیق وہی تھے جوحصن صعب سےغنیمت میں ملے تھے۔ منجنیقوں سےقلعہ کی دیواریں گرائی گئیں اور قعلہ فتح ہو گیا۔ (اس عظیم فتح کے بعد بہت سے اکابر نےاسلام قبول کر لیا) انہیں ایمان لانے والوں میں خالد بن ولید تھے، جو جنگ احد میں کافروں کا رسالہ کے افسر تھے اور مسلمانوں کو انہوں نے سخت نقصان پہنچایا۔ یہی وہ خالد ہیں جنہوں نےاسلامی جنرل ہونے کی حیثیت میں مسلمہ کذاب کوشکست دی، تمام عراق اور نصف شام کا ملک فتح کیا تھا۔ مسلمانوں کےایسے جانی دشمن اورایسے جانباز اعلیٰ سپاہی کا خود بخود مسلمان ہو جانا اسلام کی سچائی کا معجزہ ہے۔ عمرو بن عاص کا اسلام لانا 8 ھ: انہی اسلام لانے والوں میں عمروبن العاص تھے، قریش نے ان ہی کو مسلمانوں سے عداوت اور بیرونی معاملات میں اعلیٰ قابلیت رکھنے کی وجہ سے اس ڈیپوپیشن کا سردار بنایا تھا جو شاہ حبش کا پاس گیا تھا تاکہ وہ حبش میں گئے ہوئے مسلمانوں کو قریش کے حوالے کر دے۔ انہیں عمروبن عاص نےحضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ملک مصرکو فتح کیا تھا۔ ایسے مدبروماہر سیاست اور فاتح ممالک کا مسلمان ہو جانا بھی اسلام کا اعجاز ہے۔ انہی اسلام لانے والوں میں عثمان بن طلحہ بھی تھے۔ جو کعبہ کے اعلیٰ مہتمم وکلید بردار تھےجب یہ نامی سردار (جن کی شرافت حسب ونسب سارے عرب میں مسلمہ تھی) نبی ﷺ کی خدمت میں جا پہنچا تونبی ﷺ نےفرمایا کہ آج مکہ نے جگر کے دوٹکڑے ہم کو دے ڈالے۔ (منتخب از رحمۃاللعالمین۔ جلد اول) قارئین کرام بخاری نےبیشتر احادیث کی روایت کرنے والی خاتون ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کانام نامی واسم گرامی پڑھا ہوگا مگر ایسے بہت کم ہوں گے جوحضرت صدیقہ کےحالات سے وقفیت رکھتے ہوں گے اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ حضرت صدیقہ ؓ کےکچھ حالات زندگی درج کر دئیے جائیں اللہ پاک ایمان والوں کی ماں رسول کریم ﷺ کی حرم محترم حضرت عائشہ ؓ کی روح پاک پرہماری طرف سے بے شمار سلام اور رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا: عائشہ بن ابوبکر صدیق ؓ عبداللہ بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمربن کعب بن سعد ابن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن قالب بن بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ۔ ننہال کی طرف سےعائشہ ؓ بنت ام ہارون بنت عامر بن عویمر بن عبدالشمس بن عتاب بن اذنیہ ابن سبیع بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔ آپ کا نسب نامہ حضور سرور کائنات سے باپ کی طرف سے آٹھویں اورماں کی طرف سے ہارہویں پشت میں کنانہ سے جا ملتا ہے اس طرح سے آپ باپ کی طرف سے قریشی اور ماں کی طرف سے کنانی ہیں۔ لقب وخطاب: آپ کانام عائشہ، لقب حمیر اور صدیقہ اور خطاب ام المؤمنین، کنیت ام عبداللہ۔ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی جس کے نام سے وہ اپنی کنیت مقرر کرتیں اور کنیت سے کسی کا پکارا جانا عرب میں چونکہ عزت کی نشانی سمجھی جاتی تھی، اس لیے آپ نے حضور ﷺ کےمشورہ سے اپنی بہن اسماء کے بیٹے عبداللہ بن زبیر کے نام پر اپنی کنیت ام عبداللہ رکھ لی تھی۔ تاریخ ولادت: آپ کی ولادت کی صحیح تاریخ تو معلوم نہیں، لیکن اس قدر ثابت ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت کے پانچویں اور ہجرت نبوی سے نوسال پہلے پیداہوئی تھیں۔ کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے جب آپ کا حضور سرور کائنات سےنکاح ہوا تو اس وقت آپ کی عمر چھ سال تھی اورمدینہ منورہ پہنچ کر 1ھ میں آپ کاشانہ نبوی میں داخل ہوئیں تو آپ کی عمر نو سال کی تھی۔ رضاعت: شرفائے عرب کے دستور کے موافق آ پ کو وائل کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ (اسدالغابہ میں وائل کی ماں لکھا ہے لیکن صحیح بخاری باب الرضاعت میں بیوی لکھا ہے اور یہی صحیح ہے) ایک دفعہ وائل کے بھائی افلح یعنی آپ کےرضاعی چچا آپ سے ملنے کو آئے اور انہوں نے اندر آنے اجازت مانگی، حضر ت عائشہ ؓ نےفرمایا کہ جب تک میں رسول اللہ ﷺ سے نہ پوچھ لوں، اجازت نہیں دے سکتی۔ جس وقت حضورﷺ گھر میں تشریف لائے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ وہ تمہارے چچا ہیں حضرت عائشہ ؓ نےعرض کیا کہ حضور ﷺ، دودھ توعورت پلاتی ہے مرد نہیں پلاتا۔ حضور ﷺ نےفرمایا وہ تمہارے چچا ہیں۔ تمہارے پاس آ سکتےہیں۔ بچپن: آپ کے والدین آپ کی پیدائش سے پیشتر ہی مسلمان ہو چکے تھے۔ اس لیے دنیا میں آنکھ ہی توحید کی صدا ان کے کان میں پہنچنے لگی اور شرک وکفر کی آلودگی سے بالکل پاک رہیں۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، آپ بچپن ہی میں فہم وذکا، قدوقامت اور صورت وسیرت میں ممتاز تھیں۔ اعضاء مضبوط اور جسم توانا تھا، عام بچوں کی طرح بچپن میں حضرت عائشہ ؓ بھی کھیل کود کی بہت دلدادہ تھیں، گڑیوں سے کھیلنا اور جھولے جھولنا آپ کےدو مرغوب ترین کھیل تھے، محلّہ کی تمام لڑکیاں آپ کے گھر میں جمع ہو جاتیں اورکھیل کود میں ان کےاشاروں پر چلتیں۔ وہ آپ کے سامنے ایسی مرعوب ومؤدب رہتیں، گویا کہ حضرت عائشہ ؓ ان کی سردار ہیں۔ والدین اس چھوٹی سی عمر میں آپ کی فراست ورعب دیکھ کر خوش ہوتے اور انہیں بعض اوقات خیال گزرتا کہ یہ کسی دن ضرور معزز وممتاز ہوگی سچ ہے۔ بالا ئے سرش زہو شمندی مے نافت ستارہ بلندیآپ کی ذہانت کا یہ حال تھا کہ بچپن کی ذرا ذرا سی باتیں بتفصیل آپ کو یاد تھیں اورانہیں اس طرح بیان فرما دیا کرتی تھیں گویا کہ ابھی سامنے واقع ہو رہی تھیں۔ شادی: نبوت کےدسویں سال ماہ رمضان المبارک میں حضرت خدیجہ الکبریٰ 65سال کی عمر میں انتقال فرما گئیں۔ ان کی جدائی کا حضور ﷺ کو سخت صدمہ ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ کفار مکہ حضور ﷺ کو ستانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتے تھے۔ ان کی کلفتوں اور اذیتوں کو بھلانے اور دل وجان کو تسکین دینے والی، تنہائی کی مونس بیوی جب دینا سے رخصت ہو گئیں تو حضور ﷺ بےحد ملول رہنے لگے۔ آپ کو مغموم دیکھ کر مشہور صحابی عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم نےایک دن عرض کیا یارسو ل اللہ! حضورﷺ کسی عورت سےنکاح کر لیجیے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کس عورت سے؟ عرض کیا، کنواری اور بیوہ دونوں موجود ہیں،جس سےحکم ہو، اس کےمتعلق سلسلہ جنبانی کی جائے۔ فرمایا کون کون؟ عرض کیا بیوہ توسودہ بنت زمعہ ہیں۔ جو حضور پر ایمان لاچکی ہیں اور کنواری حضرت ابوبکر صدیق کی، جو حضور ﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں، بیٹی عائشہ ہیں۔ حضور ﷺ نےفرمایا بہتر ان دونوں کی بابت سلسلہ جنبانی کرو۔ حضور ﷺ کی رضا حاصل کر کےخولہ خوشی خوشی حضرت ابوبکر کےگھر گئیں اور ام رومان سےاس کا تذکرہ کیا۔ ام رومان نےکہا عائشہ کے والد کو آلینےدو، وہ باہر گئے ہوئے ہیں۔ تھوڑے دیر بعد جب حضرت ابوبکر گھر آئے تو یہ مژدہ آپ کو سنایا گیا۔ انہوں نے فرمایا اگر حضور کی مرضی ہے تو اس میں مجھے کیا عذر ہے، لیکن حضور ﷺ تو میرے بھائی ہیں، عائشہ کا نکاح حضور ﷺ سے کیونکہ ہوتا ہے؟ (زمانہ جاہلیت میں عرب میں دستور تھا کہ جس طرح سگے بھائی کی لڑکی سے نکاح جائزنہ تھا اسی طرح منہ بولے بھائی کی لڑکی کو بھی اپنے لیےحرام تھے) خولہ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا کہ ابوبکر نے یہ اعتراض کیا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں نہ کہ سگے بھائی اس لیے ان کی لڑکی سےنکاح جائز ہے۔ وہاں کیا عذر تھا، حضرت ابوبکر نے سرتسلیم خم کر دیا۔ احادیث میں ہے کہ نکاح سے پہلے حضورﷺ نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیز حضور ﷺ کے سامنے پیش کر رہا ہے، حضور ﷺ نے پوچھا کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ حضور کی بیوی ہیں۔ حضور ﷺ نے کھول کر دیکھا توعائشہ رضی للہ عنہا تھیں۔ نکاح کے وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر 6 سال تھی۔ نکاح رسم بڑے طریق سے عمل میں آئی۔ وہ اپنی جن سہلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں کہ ان کی انا آئی اور ان کو لے گئی۔ ان کے والد نے آکر نکاح پڑھا دیا۔ پانچ سو درہم مہرمقررہوا۔ حضرت عائشہ ؓ خود فرمایا کرتی تھیں کہ میرانکاح ہو گیا اور مجھےخبر تک نہ تھی، آخر آہستہ آہستہ میری والدہ نے مجھے اس امر کی اطلاع دے دی۔ فضائل: آ پ میں چند ایک ایسی خصوصیتیں تھیں، جودوسری امہات المؤمنین کو حاصل نہ تھیں اوروہ یہ ہیں: (1) حضور ﷺ کی صرف آپ ہی ایک ایسی بیوی تھیں، جوکنواری حضور ﷺکےنکاح میں آئیں،فرشتے نےآپ کی صو رت خواب میں حضورﷺ کے سامنے پیش کی (2) آپ پیدائش ہی سے شرک وکفر کی آلودگی سے پاک رہیں (3) آپ کےوالدین مہاجر تھے۔ (4) آپ کی برأت میں قرآن شریف کی آیات نازل ہوئیں۔ (5) آپ ہی کے لحاف میں حضور ﷺ کو کئی بار وحی ہوئی، کسی اوربیوی کےلحاف میں نہیں ہوئی۔ (6) آپ ہی حجرے میں اور آپ ہی کےآغوش میں سررکھے ہوئے حضورﷺ نے وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ وفات: 85 ہجری مقدس ماہ رمضان میں آپ کی طبیعت علیل ہوئی اور چند روز تک بیمار رہیں، وصیت کی کہ مجھے حضورﷺ کےساتھ اس حجرہ میں دفن نہ کیجیو، بلکہ دیگر ازواج النبی کے ساتھ مجھ کو بھی جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔ رات ہی کو دفن کر دی جاؤں اور صبح کا انتظار نہ کیا جائے۔ 17 رمضان المبارک کی شب کو وفات پائی، جنازہ حسب وصیت رات ہی کے وقت اٹھایا گیا۔ لیکن مردوں اورعورتوں کا اتنا ہجوم تھا کہ رات کے وقت کبھی نہیں دیکھا گیا۔ حضرت ابوہریرہ نے جو ان دنوں حاکم مدینہ تھے۔ نماز جنازہ پڑھائی۔ بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا اور وہ شمع رشد وہدایت دنیا کی نظروں سے پنہاں ہوگئی۔ إناللہ وإنا إلیه راجعون۔ ابوہریرہ (ابوہریرہﷺ: اپنی کنیت ہی سے ایسے مشہور ہوئے کہ ان کا صحیح نام دریافت کرنا مشکل ہے، کوئی کہتا ہےعبداللہ بن عامر نام تھا۔ کوئی کہتا ہےعمیر بن عامر، کوئی کہتا ہے بریربن عشرقہ، کوئی کہتا ہے سکین بن دومہ، کوئی کہتا ہےعبداللہ بن عبد شمس، کوئی کہتا ہےعامر،کوئی کہتا ہے عبد نہم، کوئی کہتا ہے عبدغنم۔ کوئی کہتا ہےعبدشمس، کوئی کہتا ہے عبدعمرو بن غنیم، کوئی کہتا ہے مردوس بن عامر۔ ابوعامر کہتے ہیں کہ جاہلیت میں ان میں سے کوئی نام ہوگا۔ اسلامی نام عبداللہ یاعبدالرحمن ہے۔ ازدی دوسی ہیں، آپ کے پاس ایک چھوٹی سی بلی تھی۔ جس کو ساتھ رکھتے تھےاس لیے کنیت ابوہریرہ ہوگئی۔ جنگ خیبر کےزمانہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لائے۔ پھر ہر وقت حضور ﷺ کی خدمت میں رہنے لگے۔ سب سے زیادہ حدیثیں انہی کی روایت کردہ ہیں۔ 57ھ یا 58ھ یا 59ھ میں فوت ہوئے۔ (ماخوذ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6148
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6148
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ کے لیے دو قسم کے ثواب ملنے کی بشارت دی: ایک ثواب اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کوشش کرنے کا اور دوسرا ثواب اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ دینے کا۔ عنوان کی مناسبت سے دو ثواب یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ایک ثواب تو اللہ کی راہ میں شہید ہونے کا، دوسرا اشعار کے ذریعے سے لوگوں کو کفار سے لڑنے کے لیے آمادہ کرنے کا۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر رضی اللہ عنہ کی تحسین فرمائی کہ ایسے اوصاف رکھنے والے عربوں میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ عنوان میں حُدی خوانی اور اشعار پڑھنے کا ذکر تھا جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے، پھر یہ اشعار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے گئے، اس لیے ان کے صحیح ہونے پر آپ کی طرف سے تائید حاصل ہو گئی۔ (3) واضح رہے کہ حُدی ایک خاص طرز پر اشعار پڑھنا ہے جنہیں سن کر ایک تھکا ماندہ اونٹ بھی تازہ دم ہو جاتا ہے اور مست ہو کر تیز چلنے لگتا ہے جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہو گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6148
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3195
´نیل گائے کے گوشت کا حکم۔` سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی لڑائی لڑی، پھر شام ہو گئی اور لوگوں نے آگ جلائی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا پکا رہے ہو“؟ لوگوں نے کہا: پالتو گدھے کا گوشت (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ ہانڈی میں ہے اسے بہا دو، اور ہانڈیاں توڑ دو“ تو لوگوں میں سے ایک نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ایسا نہ کریں کہ جو ہانڈی میں ہے اسے بہا دیں اور ہانڈی کو دھل (دھو) ڈالیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا ہی کر لو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3195]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) غلط کام کی اطلاع ملتے ہی سختی سے روک تھام کرنی چاہیے۔
(2) امام اور قائد یا عالم کو اپنے متبعین کے حالات سے باخبر رہنا چاہیے۔
(3) حرام چیز برتن میں ڈالنے یا پکانے سے برتن ناپاک ہوجاتا ہے (4) ۔ ناپاک برتن دھونے سے ناپاک ہوجاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3195
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5018
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے لیے نکلے، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے لیے فتح کر دیا، جب فتح کے دن کی شام ہوئی تو لوگوں نے بہت سی آگیں روشن کیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”یہ آگیں کیسی ہیں، کس لیے انہیں جلایا گیا ہے؟“ لوگوں نے کہا، گوشت کی خاطر، آپ نے فرمایا: ”کس گوشت کے لیے؟“ لوگوں نے کہا، پالتو گدھوں کے گوشت کی خاطر، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5018]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپﷺ نے پہلے ہانڈیوں کو شدت اختیار کرتے ہوئے توڑنے کا حکم دیا، جب ایک آدمی نے عرض کیا، ہم ان کو دھو نہ لیں، تو آپﷺ نے فرمایا، چلو ایسا کر لو، جس سے معلوم ہوا، جس برتن کو نجاست لگ جائے، اس کو دھو کر استعمال کرنا درست ہے، چونکہ یہاں عدد کی قید نہیں لگائی گئی، اس سے معلوم ہوتا ہے، اگر ضرورت محسوس نہ ہو تو ایک دفعہ دھونا کافی ہے، ہاں کتے کا جوٹھا برتن، سات دفعہ دھونا ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5018
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5497
5497. سیدنا بن سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب فتح خیبر کے دن، شام ہوئی تو صحابہ کرام ؓ نے آگ روشن کی۔ نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: ”تم لوگوں نے آگ کیوں جلائی ہے؟“ لوگوں نے کہا: گھریلو گدھوں کا گوشت پکا رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو کچھ ہانڈیوں میں ہے اسے باہر پھینک دو اور ہانڈیاں توڑ ڈالو۔“ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کی: ان ہانڈیوں میں جو کچھ ہے اسے ہم پھینک دیتے ہیں اور انہیں دھو ڈالتے ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”یہ بھی کر سکتے ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5497]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ گدھا چونکہ حرام تھا تو ذبح سے کچھ فائدہ نہ ہوا وہ مردار ہی رہا اور مردار کا حکم ہوا کہ جس ہانڈی میں مردار پکایا جائے وہ ہانڈی بھی توڑ دی جائے یا دھو ڈالے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5497
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2477
2477. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے خیبر کے دن جلتی ہوئی آگ دیکھی تو فرمایا: ”یہ آگ کس چیزپر جلائی گئی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: گھر یلو گدھوں کا گوشت پکایا جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہنڈیوں کو توڑدو اور گوشت کو پھینک دو۔“ لوگوں نے عرض کیا: ہم گوشت تو پھینک دیتےہیں لیکن ہنڈیوں کو دھونہ لیں؟ آپ نے فرمایا: ”دھولو۔“ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی اویس کے کہنے کے مطابق (الْأَنَسِيَّةِ) کا الف اور نون مفتوح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2477]
حدیث حاشیہ: پہلے آپ ﷺ نے سختی کے لیے ہانڈیوں کے توڑ ڈالنے کا حکم دیا۔ پھر شاید آپ پر وحی آئی اورآپ نے ان کا دھو ڈالنا بھی کافی سمجھا۔ ا س حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ حرام چیزوں کے ظروف کو توڑ ڈالنا درست ہے مگر وہ ظروف اگر ذمی غیر مسلموں کے ہیں تو یہ ان کے لیے نہیں ہے۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں فإن کان الأوعیة بحیث یراق ما فیها فإذا غسلت طهرت و انتفع بها لم یجز إتلافها و الإجازة۔ (نیل) یعنی اگر وہ برتن ایسا ہے کہ اس میں سے شراب گرا کر اسے دھویا جاسکتا ہے اور اس کا پاک ہونا ممکن ہے تو اسے پاک کرکے اس سے نفع اٹھایا جاسکتاہے اور اگر ایسا نہیں تو جائز نہیں۔ پھر اسے تلف ہی کرنا ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2477
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2477
2477. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے خیبر کے دن جلتی ہوئی آگ دیکھی تو فرمایا: ”یہ آگ کس چیزپر جلائی گئی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: گھر یلو گدھوں کا گوشت پکایا جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہنڈیوں کو توڑدو اور گوشت کو پھینک دو۔“ لوگوں نے عرض کیا: ہم گوشت تو پھینک دیتےہیں لیکن ہنڈیوں کو دھونہ لیں؟ آپ نے فرمایا: ”دھولو۔“ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی اویس کے کہنے کے مطابق (الْأَنَسِيَّةِ) کا الف اور نون مفتوح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2477]
حدیث حاشیہ: (1) صحابۂ کرام ؓ نے قرینے سے معلوم کر لیا کہ آپ کا حکم وجوب کے بجائے استحباب کے لیے ہے، اس لیے انہوں نے کہا کہ ہم گوشت تو پھینک دیتے ہیں لیکن ہنڈیوں کو توڑنے کی بجائے دھو کر پاک کر لیتے ہیں تاکہ ہم انہیں استعمال میں لائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ (2) جس برتن میں ناپاک چیز ہو اسے توڑنے کے بجائے ناپاک چیز پھینک کر برتن وغیرہ صاف کر کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ (3) گھریلو گدھوں کا گوشت پلید ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پھینکنے کا حکم دیا، حالانکہ اس سے پہلے ان کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ مذکورہ حدیث گھریلو گدھے کا گوشت حرام ہونے پر واضح دلیل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2477
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5497
5497. سیدنا بن سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب فتح خیبر کے دن، شام ہوئی تو صحابہ کرام ؓ نے آگ روشن کی۔ نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: ”تم لوگوں نے آگ کیوں جلائی ہے؟“ لوگوں نے کہا: گھریلو گدھوں کا گوشت پکا رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو کچھ ہانڈیوں میں ہے اسے باہر پھینک دو اور ہانڈیاں توڑ ڈالو۔“ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کی: ان ہانڈیوں میں جو کچھ ہے اسے ہم پھینک دیتے ہیں اور انہیں دھو ڈالتے ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”یہ بھی کر سکتے ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5497]
حدیث حاشیہ: یہ بات طے شدہ ہے کہ گھریلو گدھوں کا گوشت حرام ہے اور انہیں ذبح کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ وہ اس کے باوجود حرام ہی رہا اور وہ حکم کے اعتبار سے مردار جیسا ہے تو اس سے مردار کا حکم بھی معلوم ہوا کہ جس ہانڈی میں مردار پکایا جائے وہ ہانڈی توڑ دی جائے یا کم از کم اسے دھو لیا جائے۔ اسی طرح مجوسیوں کے برتن ہیں کہ انہیں دھونے کے بعد استعمال کرنا مباح ہے کیونکہ مجوسیوں کا ذبح کردہ جانور بھی مردار کے حکم میں ہے۔ واللہ أعلم۔ (عمدة القاري: 502/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5497