فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: باب اور حدیث میں مناسبت بظاہر خلاف ہے کیونکہ حدیث میں قیام کا مختصر ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں رکوع اور سجود کا ذکر بھی فرمایا کہ ان کو مکمل ادا کیا جائے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں واضح الفاظ ہیں کہ رکوع اور سجود کو مکمل کرنا چاہئے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و فى الطبراني من حديث عدي بن حاتم رضى الله عنه من امنا فليتم الركوع والسجود» [فتح الباري ج 2 ص252] ”جو کوئی امامت کروائے تو اسے چاہئیے کہ وہ رکوع اور سجود کو پورا کرے۔
“ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تخفیف کا حکم دینا قیام کے لیے تھا نہ کہ رکوع اور سجود کے لیے یہی بات ابن المنیر نے بھی فرمائی ہے۔
[ديكهيے المتواري ج1 ص100] ◈ علامہ عینی رحمہ اللہ نے اسی تطبیق کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ قیام میں تو تخفیف سے کام لیا جائے، مگر رکوع اور سجود کے مکمل میں کسی کو کوئی مشق نہیں ہوتی۔
[عمدة القاري ج5 ص257] لہٰذا ان احادیث و اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ قیام اگرچہ مختصر ہو مگر رکوع اور سجود مکمل ہوں کیونکہ رکوع اور سجود کے مکمل کرنے میں کسی کو کوئی مشقت نہیں۔
◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ان الوارد التخفيف فى القيام لا فى الركوع والسجود» [المتواري, ص100] ”اس تخفیف کا حکم قیام میں ہے نہ کہ رکوع اور سجود میں۔
“ ◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس ترجمۃ الباب سے حدیث میں مذکور لفظ
«فليتجوز» کی تفسیر ہے کہ تجوز اختصار کا تعلق قرآت و قیام کے ساتھ ہے، باقی اس کے علاوہ رکوع و سجود مکمل ادا کرنا چاہیے۔
“ [شرح تراجم ابواب البخاري، ص226] اشکال: یہاں پر ایک اشکال بھی وارد ہوتا ہے کہ حدیث مبارک کے الفاظ عام ہیں کہ جو بھی نماز پڑھائے تو وہ تخفیف کرے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تخفیف کو صرف قیام پر ہی لاگو کیوں فرمایا؟
الجواب: اس اعتراض کا جواب دیتے ہوے علامہ کرمانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«الواو بمعنى مع كأنه قال باب التخفيف بحيث لا يفوته شيئ من الواجبات» [الكواكب الدراري، ج5، ص75] ” «واتمام الركوع والسجود» میں واؤ بمعنیٰ مع ہے یعنی تخفیف قیام میں ہو گی مع اتمام الرکوع والسجود کے
“ شارحین کی وضاحت سے واضح ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ قیام ہلکا ہو لیکن رکوع اور سجود کا اتمام ضرور ہو تخفیف کا حکم قیام کے ساتھ ہے نہ کہ رکوع اور سجود کے ساتھ۔
فائدہ: مندرجہ بالا حدیث سے مطلق نماز میں تخفیف ہے کیونکہ اکثریت میں کمزور، حاجت مند اور بوڑھے ہوتے ہیں بالغرض اگر یہ نا بھی ہوں تب بھی نماز کے قیام کو ہلکا پڑھنا بالاولی بہتر ہے ہاں اگر بندہ تنہا نماز پڑھے تو جتنی چاہے نماز کو طول دے تو وہ دے سکتا ہے بعین اسی طرح کا واقعہ ایک اور صحابی سے منقول ہے جسے امام ابویعلیٰ الموصلی نے حسن سند کے ساتھ ذکر فرمایا کہ:
«كان ابي بن كعب يصلي باهل قباء فاستفتح سورة طويلة فدخل معه غلام من الانصار فى الصلاة، فلما سمعه استفتاحه انفتل من صلاته، فغضب ابي فاتى النبى صلى الله عليه وسلم يشكو الغلام، واتى الغلام يشكوا ابيا، فغضب النبى صلى الله عليه وسلم حتي عرف الغضب فى وجهه ثم قال: ان منكم منفرين، فاذا صليتم فاوجزوا فان خلفكم الضعيف والكبير والمريض و ذالحاجة» [مسند ابي يعلي الموصلي رقم الحديث 1792, وذكره حافظ فى ”الفتح“ ج2 ص252] ” سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ اہل قباء والوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے پس انہوں نے ایک لمبی سورت نماز میں شروع کی تو ایک غلام انصار کا وہ نماز سے پھر گیا
(اس کے اس فعل پر) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ غصے ہوئے اور وہ اس لڑکے کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور اس نے ابی بن کعب کی شکایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی
(ابی بن کعب کے نماز طویل پڑھانے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرے پر غصہ نمایاں ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد مبارک فرمایا یقیناًً تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو
(عبادت سے) نفرت کرواتے ہیں، پس جب تم نماز پڑھاؤ تو ہلکی پڑھاؤ، یقیناًً تمہارے پیچھے کمزور، بوڑھے مریض اور ضرورت مند ہوا کرتے ہیں۔
“ مندرجہ بالاحدیث سے واضح ہوا کہ نماز میں تخفیف کرنے کو پسند کیا گیا ہے۔ جب کہ آدمی نماز پڑھا رہا ہو۔