الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
71. بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الأَذَى:
71. باب: تکلیف پر صبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: Q6099
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الرعد میں) فرمایا «إنما يوفى الصابرون أجرهم بغير حساب‏» بلاشبہ صبر کرنے والے بےحد اپنا ثواب پائیں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: Q6099]
حدیث نمبر: 6099
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَعْمَشُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَيْسَ أَحَدٌ أَوْ لَيْسَ شَيْءٌ أَصْبَرَ عَلَى أَذًى سَمِعَهُ مِنَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ لَيَدْعُونَ لَهُ وَلَدًا وَإِنَّهُ لَيُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا مجھ سے اعمش نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے، ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بھی یا کوئی چیز بھی تکلیف برداشت کرنے والی، جو اسے کسی چیز کو سن کر ہوئی ہو، اللہ سے زیادہ (صبر کرنے والا) نہیں ہے۔ لوگ اس کے لیے اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ انہیں تندرستی دیتا ہے بلکہ انہیں روزی بھی دیتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6099]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريما أحد أصبر على أذى سمعه من الله يدعون له الولد ثم يعافيهم ويرزقهم
   صحيح البخاريليس أحد أصبر على أذى سمعه من الله إنهم ليدعون له ولدا وإنه ليعافيهم ويرزقهم
   صحيح مسلمما أحد أصبر على أذى يسمعه من الله إنهم يجعلون له ندا ويجعلون له ولدا وهو مع ذلك يرزقهم ويعافيهم ويعطيهم
   صحيح مسلملا أحد أصبر على أذى يسمعه من الله إنه يشرك به ويجعل له الولد ثم هو يعافيهم ويرزقهم
   مشكوة المصابيحما احد اصبر على اذى يسمعه من الله يدعون له الولد ثم يعافيهم ويرزقهم
   مسندالحميديليس أحد أصبر على أذى يسمعه من الله عز وجل، يدعون له ندا ثم هو يرزقهم ويعافيهم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6099 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6099  
حدیث حاشیہ:
دنیا میں سب سے بڑا اتہام وہ ہے جو عیسائیوں نے اللہ کے ذمہ لگا یا ہے کہ حضرت مریم اللہ کی جورو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔
لیکن اللہ اتنا بردبار ہے کہ وہ اس اتہام کو ان ظالموں کے لئے تنگی وترشی کا سبب نہیں بناتا بلکہ ان کو زیادہ ہی دیتاہے۔
سچ ہے۔
اللہ الصمد۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6099   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6099  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں صبر کے معنی حلم و بردباری کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا جو اس کی طرف اولاد منسوب کرتے ہیں۔
دنیا میں سب سے بڑا الزام وہ ہے جو عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کے ذمے لگایا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام اللہ تعالیٰ کی بیوی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کے بیٹے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ اس قدر حلیم اور بردبار ہے کہ وہ ایسے ظلم پیشہ لوگوں کو جلدی نہیں پکڑتا بلکہ فراوانی کے ساتھ رزق مہیا کرتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6099   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 23  
´ابن آدم کا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا؟ `
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى يَسْمَعُهُ مِنَ اللَّهِ يَدْعُونَ لَهُ الْوَلَدَ ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ» . . .»
. . . سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ کلمات سن کر صبر اور تحمل کرنے والا کوئی نہیں ہے مشرکین اللہ کے لیے بیٹا اور اولاد تجویز کرتے ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ انہیں عافیت بخشتا اور روزی دیتا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 23]
تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 7378]،
[صحیح مسلم 7080]

فقہ الحدیث
➊ اللہ کے صبر کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہونے کے باوجود کافروں اور مشرکوں کو ڈھیل دیتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو سب کافروں اور مشرکوں کو آن واحد میں تہس نہس کر دے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ»
اور وہ انہیں ڈھیل دیتا ہے تو وہ اپنی سرکشی میں سرگردان پھرتے ہیں۔ [سورة البقره 15]
➋ اللہ کو ایذا اور تکلیف دینے سے مراد مشرکین کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا کی اولاد ہے۔ یعنی مشرکین اپنے شرک کی وجہ سے اپنے رب کو ناراض کر دیتے ہیں۔
➌ دنیا میں اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کو بھی رزق و خوشیاں دیتا ہے، لیکن مرنے کے بعد ان لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔ مرنے کے بعد رزق اور خوشیاں صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان لاتے ہیں، شرک و کفر نہیں کرتے، قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔
➍ صبر کرنا بہترین عمل ہے۔ رب کریم فرماتا ہے:
«إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ»
صرف صبر کرنے والوں کو ان کا اجر (بہترین بدلہ) بےحد و حساب دیا جائے گا۔ [سوره الزمر: 10]
➎ سب گناہوں سے بڑا گناہ شرک ہے۔ مشرک اگر بغیر توبہ کے مر گیا تو ابدی جہنمی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
«إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ»
بےشک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو یقیناً اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا (جہنم کی) آگ ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ [سورة المائده: 72]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 23   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7378  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ والذاریات میں) ارشاد میں بہت روزی دینے والا، زوردار مضبوط ہوں`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى سَمِعَهُ مِنَ اللَّهِ يَدَّعُونَ لَهُ الْوَلَدَ، ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ . . .»
. . . ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تکلیف دہ بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے، کم بخت مشرک کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے اور پھر بھی وہ انہیں معاف کرتا ہے اور انہیں روزی دیتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7378]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7378 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ}
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں آیت کریمہ پیش فرمائی جس میں حق تعالیٰ شانہ کی صفات عالیہ کا ذکر ہے، تحت الباب جس حدیث کو پیش فرمایا ہے اس کا باب سے مکمل طور پر تعلق دکھائی نہیں دیتا مگر غور کیا جائے تو ترجمۃ الباب سے حدیث کا ربط «الرزاق» سے مناسبت رکھتا ہے کیوں کہ حدیث میں «يرزقهم» کہ اللہ تعالیٰ انہیں رزق دیتا ہے کے الفاظ وارد ہیں مگر «ذو القوة المتين» سے باب کی مناسبت مشکل ہے، چنانچہ اس حوالے سے ابن المنیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«أما الرزاق فواضح بقوله: ويرزقهم أما القدرة و القوة فبقوله: ما أحد أصبر على أذى سمعه من الله عز و جل، ففيه إشارة إلى قدرة الله على الإحسان إليهم مع كفرهم به.» [المتوري على ابواب البخاري: ص 461]
رزاق کا مناسبت ہونا حدیث کے لفظ «ويرزقهم» سے واضح اور «القوة» کا تعلق حدیث کے الفاظ تکلیف دہ الفاظ سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے میں ہے، پس اس میں اشارہ ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ان کے کفر کرنے کے باوجود بھی ان پر احسان کر رہا ہے۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ترجمۃ الباب دو اوصاف پر مبنی ہے، پہلی صفت «الرزاق» اور دوسری «القوة»، یعنی لوگوں کی ایذاء والی بات پر بھی اللہ تعالی ان پر احسان کرتا ہے اور صبر کرتا ہے۔
«ثم أورد البخاري فى الباب حديث أبى موسى، و وجه المطابقة للترجمة من جهة اشتمال الحديث على الصفتين: الرزق، و القوة الدالة على القدرة، أما الرزق، فواضح من قوله: ويرزقهم، وأما القوة، فمن قوله: أصبر فإن فيه إشارة إلى القدرة على الإحسان إليهم مع إساءتهم، بخلاف طبع البشر، فإنه لا يقدر على الإحسان إلى المشيء إلا من جهة تكلفه ذالك شرعًا.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 252/5]

ابن بطال رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«تضمن هذا الباب صفتين لله تعالى: صفة ذات، و صفة فعل، فالرزق فعل من أفعاله تعالى، فهو من صفات فعله، والقوة من صفات الذات، وهى بمعني القدرة.» [شرح ابن بطال 404/10]
اس باب میں دو صفات اللہ تعالیٰ کی ضم ہیں، ایک صفت ذات اور دوسری صفت فعل، پس رزق کی جو صفت ہے وہ فعل ہے اللہ تعالیٰ کے افعال میں سے، اور وہ اس کے فعلی صفات سے ہے، اور دوسری صفت قوت کی ہے جو صفت ذات کی ہے اور یہ بمعنی قدرت کے ہیں۔ (جس سے باب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے)۔

علامہ عینی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کا تعلق حدیث کے آخری حصے سے ہے۔ [عمدة القاري للعيني: 129/25]

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک ترجمۃ الباب کا تعلق اولی کے ساتھ ہے صرف، کیوں کہ «صفة القوة» آنے والے باب میں اس کا تعلق موجود ہے: «باب قل هو القادر» ۔ [الابواب و التراجم: 780/6]

یہ عاجز اور حقیر بندہ کہتا ہے کہ ترجمۃ الباب کے آخری حصہ کا تعلق اسی حدیث کے ساتھ ضم ہے کیوں کہ اس مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے قوۃ کا ذکر فرمایا ہے اور قوت کا استعمال انتقام کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ حدیث میں اللہ تعالیٰ تکلیف والی بات پر صبر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا صبر کرنا اس کی اس قوت کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ انتقام کو روک کر رکھتا ہے، لہٰذا باب کے ساتھ اسی جہت سے مناسبت بنتی ہے، اور جہاں تک تعلق ہے «باب قل هو القادر» کا تو اس باب میں صرف صبر کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق مخلوقات کی حاجتیں پوری کرنا ہے، اسی لیے تحت الباب دعائے استخارہ کا ذکر فرمایا ہے۔ فافہم!
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 313   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:792  
792-سعید بن جبیر فرماتے ہیں: تکلیف دہ بات کو سن کر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ لوگ اس کے شریک کو پکارتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی ان لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ انہیں عافیت فراہم کرتا ہے۔ اعمش کہتے ہیں: سعید بن جبیر سے کہا گیا: اے عبداللہ! آپ نے یہ روایت کس سے سنی ہے؟ تو وہ بولے: میں غلط بیانی نہیں کروں گا، ابوعبدالرحمن سلمی نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:792]
فائدہ:
اس حدیث میں صبر کے معنی علم و بردباری کے ہیں۔ اور حلیم اللہ تعالیٰ کی صفات میں ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی حلیم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو اپنی ذات کے ساتھ شریک کرنے والوں کی باتوں پر بھی صبر کرتا ہے۔
موجودہ دور میں کام الٹ نظر آتا ہے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور انھیں ناکام کرنے کی کرنے والوں کو بھی عطا فرماتا ہے۔
عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ پر کتنا بڑا الزام دیا کہ سیدہ مریم علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ کی بیوی اور سیدنا عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا، اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ ان کو تندرستی اور فراوانی کے ساتھ رزق مہیا کرتا ہے۔ سبحان اللہ!
نیز اس سے معلوم ہوا کہ تندرستی اور رزق کی فراوانی اللہ تعالیٰ کی دو عظیم نعمتیں ہیں۔ ہرانسان کو اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے دین اسلام کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ شرک، اکبر الکبائر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے معاف نہیں کرنا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 792   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7080  
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل سے بڑھ کر کوئی اذیت ناک باتوں کو برداشت کرنے والا نہیں ہے اس کے ساتھ شریک قراردئیے جاتے ہیں اور اس کے لیے اولاد قراردی جاتی ہے پھر بھی وہ ایسے لوگوں کو عافیت و تندرستی عنایت فرماتا ہے اور نہیں رزق سے نوازتا ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7080]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ شریک و سہیم اور اولادوبیوی سے بلندو بالا اور پاک ومنزہ ہے،
وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے،
لیکن مشرک اس کے لیے شریک اور اولاد ثابت کرتے ہیں اور اس کی بے نیازی کا انکار کرتے ہیں،
اس کے باوجود وہ انہیں صحت و عافیت اور مال و دولت سے نوازتاہے اور فورا ان کا مواخذہ نہیں فرماتا اور قدرت و طاقت کے باوجود انتقام نہیں لیتا اور اللہ کا صبر،
اس کی شان رفیع کے لائق ہوگا،
اس کی کنہہ اور حقیقت کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی تاویل یا تشبیہ و تعطیل کی ضرورت ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7080   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7378  
7378. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: اذیت ناک اور تکلیف وہ بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔ وہ (مشرکین) اس کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں۔ اور وہ اس کے باوجود انہیں عافیت دیتا اور رزق عطا کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7378]
حدیث حاشیہ:

صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں آیت اس طرح ہے:
میں ہی رزاق، بڑی قوت والا (اور)
نہایت طاقتور ہوں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح پڑھا ہے۔
انھوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح پڑھایا تھا۔
(فتح الباري: 440/13 ومسند أحمد: 394/1)

یہ آیت اور اس طرح کہ دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی عالی صفات سے متصف ہے اور اس کے اچھے اچھے نام ہیں۔
اس آیت کریمہ میں "القوۃ" اس کی صفت ہے اور "الرزاق" اس کا نام ہے۔
ہم پہلے بھی بیان کر آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام ایک صفت کو متضمن ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان آیات سے منکرین صفات باری تعالیٰ کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے حلم، اس کی بردباری اور حوصلے کو بیان کیا گیا ہے حتی کہ وہ کافر جو اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد اور شراکت کو منسوب کرتا ہے اسے بھی صحت وعافیت دیتا ہے اور اسے رزق وافر عطا کرتا ہے۔
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت صبر کو بیان کیا گیا ہے جو اپنے معنی میں مبنی برحقیقت ہے۔
صبر یہ ہے کہ قوت انتقام کے باوجود درگزر سے کام لینا۔
اللہ تعالیٰ کی صفتِ صفبر اور حلم کا اندازہ درج ذیل آیات سے لگایا جا سکتا ہے:
اللہ تعالیٰ ہی یقیناً آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ کہیں سرک نہ جائیں اور اگر وہ سرک جائیں تو اس کے بعد انھین کوئی بھی اپنی جگہ پر برقرار رکھ سکتا۔
بلاشبہ وہ بڑا بردبار بے حد معاف کرنے والا ہے۔
(فاطر 35/41)
یعنی وہ ہستی اس قدر قوت اور اختیار رکھنے کے باوجود بردبار ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ شرک کرنے والوں کو فوراً تباہ نہیں کر دیتا بلکہ اپنے باغیوں، منکرین اور نافرمانوں سے درگزر کیے جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔
یہ تو اتنی بُری بات تم گھڑ لائے ہو جس سے ابھی آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اورپہاڑ دھڑام سے گر پڑیں اس بات پر کہ انھوں نے رحمٰن کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا، حالانکہ رحمٰن کی شان کے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔
(مریم 88۔
92)

یعنی محض یہ اللہ تعالیٰ کی بردباری ہے کہ ایسی بے ہودہ بات سن کر بھی یکدم تباہ نہیں کرتا۔

اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ عنوان میں دو صفات کا ذکر ہے:
ایک مخلوق کو رزق فراہم کرنا، دوسرے زبردست قوت کا مالک ہونا جو اس کی قدرت کاملہ سے عبارت ہے۔
رزق دینے کا ذکر تو حدیث میں موجود ہے اور قوت کا ثبوت اس طرح ہے کہ تکلیف دہ باتیں سن کر صبر کرنا اس کی قوت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بشری طبیعت تو ایسی تکلیف دہ اور اذیت ناک باتیں سن کر انتقام لینے کے لیے بھڑک اٹھتی ہے۔
انسان ایسے حالات میں فوراً بدلہ لینے میں جلدی کرتا ہے تاکہ موقع ضائع نہ ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی زبردست طاقت کے باوجود انتقام نہیں لیتا اور یہ کسی عجز یا بے بسی کی وجہ سے نہیں بلکہ صبر، بردباری اور حوصلے کی وجہ سے جو اس کی قوت وطاقت کی علامت ہے۔
(فتح الباري: 441/13)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوبصورت ناموں اور بلند پایہ صفات کو مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے جیسا کہ مذکورہ الفاظ سے ان کا مفہوم فورا ذہن میں آتا ہے۔
اس کے متعلق کسی قسم کی تاویل نہ کی جائے اور نہ انھیں سمجھنے کے لیے منطقی اصطلاح یا کسی فلسفی کی موشگانی ہی کی ضرورت ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 102/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7378