69. باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ الحجرات میں ارشاد فرمانا ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو۔“ اور جھوٹ بولنے کی ممانعت کا بیان۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6094]
الصدق يهدي إلى البر وإن البر يهدي إلى الجنة وإن الرجل ليصدق حتى يكون صديقا وإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وإن الرجل ليكذب حتى يكتب عند الله كذابا
عليكم بالصدق الصدق يهدي إلى البر البر يهدي إلى الجنة ما يزال الرجل يصدق يتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا إياكم والكذب الكذب يهدي إلى الفجور الفجور يهدي إلى النار ما يزال الرجل يكذب يتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا
عليكم بالصدق الصدق يهدي إلى البر البر يهدي إلى الجنة ما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا إياكم والكذب الكذب يهدي إلى الفجور الفجور يهدي إلى النار ما يزال العبد يكذب يتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا
إياكم والكذب الكذب يهدي إلى الفجور الفجور يهدي إلى النار الرجل ليكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا عليكم بالصدق الصدق يهدي إلى البر البر يهدي إلى الجنة الرجل ليصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا
عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر وإن البر يهدي إلى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6094
حدیث حاشیہ: اسی لئے فرمایا ''إِنما الأَعمالُ بِخواتیمِھَا'' عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو، ہر بخاری شریف کے پڑھنے والے کو اور مجھ نا چیز گنہگار بندے کو خاتمہ بالخیر نصیب کرے، توحید وسنت وکلمہ طیبہ پر خاتمہ ہو۔ امید ہے کہ اس مقام پر جملہ قارئین کرام آمین کہیں گے. آمین۔ یارب العالمین!
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6094
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6094
حدیث حاشیہ: (1) انسان سچ بولتے بولتے سچ کا عادی بن جاتا ہے اور اسے سچائی کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے حتی کہ وہ صدقی کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے جو نبوت سے نچلا مرتبہ ہے، اور جھوٹ کا عادی انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے اور تمام مخلوق پر اس کے کذاب ہونے کا القا کیا جاتا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن تعلیمات پر اپنی دعوت کی بنیاد رکھی تھی ان میں ایک سچائی کو اختیار کرنا بھی ہے، چنانچہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے ہرقل کے دربار میں اس بات کا اقرار کیا تھا، (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 7) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان و کفر، سچ اور جھوٹ اور امانت و خیانت ایک مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ “(مسند أحمد: 349/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6094
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1314
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان` سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” سچائی کو لازم پکڑو کہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے حتیٰ کہ اسے اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ گناہ کی جانب لے جاتا ہے اور گناہ آتشیں جہنم کی جانب لے جاتا ہے اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ میں کوشش کرتا رہتا ہے تو اسے اللہ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1314»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأدب، باب قول الله تعالي: "يأيها الذين آمنوا اتقوا الله"، حديث:6094، ومسلم، البر والصلة، باب قبح الكذب...، حديث:2607.»
تشریح: اس حدیث میں سچ بولنے والے کے حسن خاتمہ اور اس کے برے انجام سے مامون و محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1314
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4989
´جھوٹ بولنے کی شناعت کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اور سچ بولنے کو لازم کر لو اس لیے کہ سچ بھلائی اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4989]
فوائد ومسائل: سچ اور جھوٹ (صدق وکذب) کا تعلق صرف زبان کے الفاظ ہی سےنہیں بلکہ اس کا دائرہ فعل اور نیت تک وسیع ہے۔ فکری اعتبار سے انسان صدق کو متلاشی اور اس کےمطابق اپنے اعمال کوسر انجام دینے والا ہو اور اس کے برخلاف سے بچنے والا ہو تو یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔ ورنہ جلد یا بد دیر فضیحت سے بچ نہیں سکے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4989
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1971
´سچ کی فضیلت اور جھوٹ کی برائی کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچ بولو، اس لیے کہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے، اور جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتا ہے، آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1971]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہواکہ ہمیشہ جھوٹ سے بچنا اور سچائی کو اختیار کرنا چاہیے، کیوں کہ جھوٹ کا نتیجہ جہنم اور سچائی کا نتیجہ جنت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1971
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6637
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" بلا شبہ سچ نیکی کے راستے پر ڈال دیتا ہے اور نیکی جنت تک پہنچادیتی ہے اور بلا شبہ آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے حتی کہ صدیق (انتہائی سچا جس کے قول و فعل میں یکسانیت ہو) لکھ دیا جاتا ہے اور یقیناً جھوٹ برائی اور بد کاری کے راستے پر ڈال دیتا ہے اور بدکاری دوزخ تک پہنچا دیتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے(جھوٹ کاعادی ہو جاتا ہے) حتی کہ کذاب (بہت جھوٹا) لکھ دیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6637]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: صديق: جس کے قول و فعل اور زبان و دل میں موافقت ہو، کیونکہ صدق قول کے دل اور واقعہ کے مطابق ہونے کا نام ہے اور جو انسان صدق کو اختیار کرتا ہے، وہ اللہ کے ہاں صدیق ٹھہرتا ہے اور ان کا ثواب پائے گا اور لوگوں کے ہاں بھی سچا سمجھا جائے گا، اس کے برعکس جو جھوٹ بولنے کو عادت بنا لیتا ہے، وہ اللہ کے ہاں جھوٹا ٹھہرتا ہے اور ان ہی کی سزا اور عقوبت کا مستحق ہو گا اور لوگوں میں بھی جھوٹا مشہور و معروف ہو گا۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا، سچ بولنا بذات خود اچھی اور پسندیدہ عادت ہے، جس کی خاصیت اور امتیاز یہ ہے کہ آدمی کو زندگی کے تمام پہلوؤں میں نیک کردار اور صالح بنا کر جنت کا مستحق بنا دیتی ہے، کیونکہ " بِر " تمام امور کا مجموعہ کا نام ہے اور ہمیشہ سچ بولنے والا آدمی مقام صدیقیت پر فائز ہو جاتا ہے، اس کے برعکس جھوٹ بولنا بذات خود ایک خبیث اور بری خصلت ہے، جس کی خاصیت، انسان کے اندر فسق و فجور اور بدی کا میلان و رجحان پیدا کر کے، اس کی پوری زندگی کو بدکاری کی زندگی بنا کر دوزخ میں پہنچاتا ہے اور جھوٹ بولنے کا عادی، کذابیت کے درجے تک پہنچ کر اللہ کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6637
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6638
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"صدق وفاداری اور ادائے حقوق کا نام ہے اور وفاداری جنت تک پہنچا دیتی ہے اور انسان سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتاہے حتی کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ بد کرداری کا نام ہے اور بد کاری دوزخ تک پہنچاتی ہے اور انسان جھوٹ بولنے کا قصد کرتا ہے حتی کہ کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔"ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ عن... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6638]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: بر کا عربی لغت میں اصل مفہوم، کسی کا حق پورا کرنا ہے، اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے اور اس کے مقابلہ میں فجور، راہ سے ہٹ جانے اور استقامت سے کنارہ کشی اختیار کر لینے کا نام ہے۔