الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
61. بَابُ الْكِبْرِ:
61. باب: تکبر کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 6072
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ:" إِنْ كَانَتِ الْأَمَةُ مِنْ إِمَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَنْطَلِقُ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ".
اور محمد بن عیسیٰ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی، کہا ہم سے انس بن مالک نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا یہ حال تھا کہ ایک لونڈی مدینہ کی لونڈیوں میں سے آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6072]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6072 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6072  
حدیث حاشیہ:
آپ اس کے ساتھ چلے جاتے انکار نہ کرتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6072   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6072  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6072 کا باب: «بَابُ الْكِبْرِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے غرور اور تکبر کے مسئلے پر وضاحت فرمائی ہے کہ یہ اعمال اللہ تعالی کو ناپسند ہیں، تحت الباب سیدنا حارثہ بن وہب الغزالی رضی اللہ عنہ سے اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل فرمائی، سیدنا حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے مطابقت ظاہر ہے مگر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں غرور اور تکبر کا کوئی ذکر نہیں ہے، لیکن حدیث میں اگر غور کیا جائے تو باب سے اس کا تعلق بنتا ہے، چنانچہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«حديث أنس، و المقصود منه: وصف النبى صلى الله عليه وسلم بعدم الكبر.» (2)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کا ذکر ہے، جو کہ عدم کبر کی دلیل ہے۔
یعنی مدینے کی لونڈی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی لے جاتی، کسی کام وغیرہ کے لیے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں تواضع نہ ہوتا تو آپ اس کے کام ہرگز نہ آتے۔
حالانکہ لونڈیوں کو ہر دور میں حقیر جانا گیا ہے لیکن اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تواضع اور انکساری اتنا زبردست تھا کہ جس کی مثال نہیں ملتی، یہ تواضع کرنا عدم کبر پر دلیل ہے اور یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«و المراد بالأخز باليد لازمه وهو الانقياد فيه غاية تواضعه وبراءته من جميع أنواع الكبر صلى الله عليه وسلم كثيرة.»
یعنی لونڈی کا ہاتھ پکڑنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کام میں مدد لینا ہے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تواضع اور ہر قسم کی کبر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برأت کی دلیل ہے۔
لہذا ان اقوال کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےانتہا تواضع اور انکساری کے مالک تھے کہ ایک عام عورت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کام کروا لیا کرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے انکار نہ کرتے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
ایک اشکال اور اس کا جواب:
یہاں پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ غیر مرد اور عورت کس طرح سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ سکتے ہیں؟
حالانکہ یہ فعل ناجائز ہے جس سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو روکا ہے، اس کا جواب کئی ایک طریقوں سے دیا جا سکتا ہے۔ پہلی بات یاد رکھیں کہ امت میں کسی کے لیے جائز و درست نہیں کہ کسی غیر محرم عورت کا ہاتھ کوئی شخص پکڑے یا پھر کسی شخص کا ہاتھ کوئی غیر محرم عورت پکڑے، کیوں کہ عمومی احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہے، جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کیوں کہ کسی لونڈی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک کو پکڑنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مضر نہ تھا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم عن الخطاء تھے، اس کے علاوہ ایک اور نکتہ کی طرف بھی غور فرمائیں، جب خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت لینے کے لیے آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کبھی بھی ان کے ہاتھوں سے ہاتھ لگا کر بیعت نہ کرتے بلکہ آپ دور ہی سے فرما دیتے کہ میں نے آپ سے بیعت لے لی، چنانچہ اس بارے میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان بہت مفید اور واضح ہے، آپ فرماتی ہیں:
«والله ما مسّت يدُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يد امرأة قط، غير أنه بايعهن بالكلام.» (1)
اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی بھی کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے زبانی بیعت لیتے۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی خود سے کسی عورت کا ہاتھ نہیں تھاما، چاہے وہ آزاد ہو یا غیر آزاد، اس مسئلے پرتفصیلی گفتگو کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«هذا القدر أفرده النسائي فأخرجه عن محمد بن يحيى عن عبد الرزاق بسند حديث الباب بلفظ لكن ما مس و قال: يد أمرأة قط، وكذا أفرده مالك عن الزهري بلفظ ما مس رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده امرأة قط، إلا أن يأخذ عليها فإذا أخذ عليها فأعطته قال: اذهبي فقد بايعتك، أخرجه مسلم، قال النووي: هذا الاستثناء منقطع و تقدير الكلام ما مس يد امرأة قط، و لكن يأخذ عليها البيعة: ثم يقول لها اذهبي إلخ، قال و هذا التقدير مصرح به فى الرواية الأخرى فلا بد منه.» (1)
اس قدر حدیث کو امام نسائی رحمہ اللہ نے مفرداً محمد بن یحیی عن عبدالرزاق سے حدیث باب کی سند کے ساتھ تخریج فرمایا، «لكن ما مس» اور «يد امرأه قط» کے الفاظ ذکر کیے، اسی طرح مالک نے بھی اسے زہری سے ان الفاظ کے ساتھ مفرداً نقل کیا . . . . . بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ میں نے تفسیر سورہ الممتحنہ میں حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ظاہر کی مخالفت کرنے والے کا ذکر کیا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عورتوں سے مبایعت کے سلسلہ میں کلام پر اقتصار کے ضمن میں وہاں وارد ہوا تھا کہ کسی حائل کے ساتھ بیعت لی تھی، یہ ان کے اس تقریر پر جزم کے لیے منکر ہے، اگلی حدیث میں مذکور سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے قول: «فقبضت أمرأة يدها» سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عورتوں کی بیعت بھی ہاتھوں کے ساتھ ہوتی تھی تو یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول اس حصر کے مخالف ہے، حائل کا جو ذکر ہوا، (اس کا) جواب یہ دیا گیا کہ خواتین (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو) چھوئے بغیر ہاتھوں سے بیعت کے وقت اشارہ کرتی تھیں، ابن راہویہ نے حسن سند کے ساتھ اسماء بنت یزید سے مرفوعا نقل کیا کہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ اجنبیہ کی کلام کا سماع مباح ہے اور یہ کہ اس کی آواز عورۃ نہیں اور یہ کہ بغیر ضرورت اجنبیہ کے جسم کو چھونا منع ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خواتین سے بیعت لیا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبانی بیعت لیتے اور قوی دلائل سے یہی ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی اجنبی عورت سے کلام کرنا، خلوت میں باتیں کرنا وغیرہ، یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضر نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«قال ابن الملقن: و النبى صلى الله عليه وسلم معصوم فيقال كان من خصائصه الخلوة بالأجنبية وقد ادعاه بعض شيوخنا.» (2)
ابن الملقن رحمہ اللہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجنبی عورت سے خلوت کرنا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔
حدیث کے متن شریف سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ہاتھ پکڑنے والیاں مدینے کی کنیزیں ہوا کرتی تھیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں پہل نہیں فرماتے تھے، بلکہ وہ خواتین خود اس فعل کو کرتیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہے لے جاتیں، لہذا ایک اور روایت سے اس مسئلے میں مزید تقویت حاصل ہوتی ہے، ابن الملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و ذكر الحافظ أبو سعيد النيسابوري فى شرف المصطفى التاليف الكبير أن على بن زيد بن جدعان روي عن انس رضي الله عنه قال: إن كانت الوليدة من ولائد المدينة لتجئي فتأخر بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم فتذهب به فما ينزع يده من يدها حتى تذهب به حيث شاءت . . . . . بزيادة حتى تكون هي تنزعها.» (1)
حافظ ابوسعید نیساپوری نے «شرف المصطفى» میں ذکر فرمایا، جو کہ بڑی تالیف ہے، یہ کہ علی بن زید روایت کرتے ہیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہ وہ فرماتے ہیں: مدینے کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتی اور لے جاتی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے اور اس سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے، یہاں تک کہ وہ جہاں چاہتی لے جاتی، اور دوسری روایت میں اضافہ ہے: یہاں تک کہ وہ خود اپنا ہاتھ کھینچ لیتی۔
اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی لونڈی کا ہاتھ خود نہیں پکڑتے، بلکہ وہ لونڈی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی وجہ سے لے جاتی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ مبارک پکڑی ہوئی تھی، اس حدیث میں بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ نہ پکڑتے۔
مذکورہ بالا گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کبھی بھی کسی غیر محرم عورت کا ہاتھ نہیں پکڑتے، اور اگر کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس فتنہ سے محفوظ تھے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم تھے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہاتھ اس لیے نہیں چھڑواتے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم اور تواضع و انکساری کی دلیل ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے سمجھایا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 176   

  ابوبكر قدوسي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6072  
فوائد و مسائل
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
ان کا کہنا ہے کہ عورت اور مردکا ایک دوسرے سے ایسا اختلاط جائز ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صاحب نے تین راویات لکھ کے اہنی دانست میں ثابت کیا کہ:
غیر محرم عورت کسی مرد کو اور مرد اس کو چھو سکتے ہیں -- بخاری کی دو روایات اور مسلم کی ایک روایت ہے -
لیجئے ان کی اپنی پوسٹ سے راویت کا ترجمہ پڑھئے:
.............
عرض ہے کہ ضرورت کے تحت ایسا اختلاط جائز و مباح ہے اور اس پر یہ دلائل موجود ہیں:
1) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی کام کے لئے جہاں چاہتی لے جاتی۔ [صحيح بخاري، كتاب الادب، باب الكبر، حديث 6072]
2) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنا دورانِ حج کا واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں: پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اور کنگھی کی۔ [صحيح بخاري، كتاب المغازي، باب حجة الوداع، حديث 4397]
3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کو سر پر وزن لادا ہوا آتے دیکھ کر اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھایا تھا۔ [صحيح مسلم رقم 2182، دارالسلام 5692]
مشہور محدث و امام نووی نے اس واقعہ سے استدلال لیتے ہوئے باب باندھا ہے:
«باب جواز إرداف المرأة الأجنبية إذا أعيت فى الطريق»
یعنی راستے میں تھک جانے والی اجنبی عورت کو اپنے ساتھ سواری پر بیٹھانے کا جواز
لہٰذا کریم اور اوبر سروس کا استعمال بلاشبہ مباح اور جائز ہے۔ «هٰذا ما عندي والله اعلم»
.......................
جی یہ تھا ان کا موقف۔۔۔۔
پہلی راویت میں لکھا ہے کہ مدینے کی لونڈیوں سے کوئی لونڈی ...اب ترجمہ کرنے والے کی مہارت دیکھیے کہ آسان سا ترجمہ (مدینے کی لونڈیوں سے ایک لونڈی) بھی کیا جا سکتا تھا ..لیکن اس طرح مقصد حاصل نہیں ہوتا تھا - کیونکہ اس طرح واضح ہو جاتا کہ وہ ایک لونڈی ایسا کیونکر کرتی تھی ... اور وہی ایسا کیوں کرتی تھی .اب ایک i بجائے کوئی لونڈی کرنے سے یہ تاثر پڑا کہ کبھی کوئی اور کبھی کوئی ایسا کر لیتی تھی .. روایت کے الفاظ ہیں:
«ان كانت الامه من اماء اهل المدينه»
اور امام بخاری نے اس پر باب باندھا ہے:
«باب الكبر» یعنی تکبر کی برائی ..
مطلوب معنی یہ ہے کہ عورت پاگل تھی پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اہمیت دیتے۔
.دوستو! اسی لونڈی کا تذکرہ ایک اور حدیث میں بھی ہے جس میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے بہت دیر تک کھڑی رہی اور آپ نے اس سے ہاتھ نہیں چھڑایا .... جی ہاں یہی حدیث ہے جس سے غامدی صاحب نے بھی استدلال کرتے ہوے عورت اور مرد کا مصافحہ جائز قرار دیا تھا .....
دوستو! مدینے میں موجود یہ لونڈی اصل میں ذہنی طور پر معذور یا مجذوب تھی اور اس کی اس حالت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت کے سبب اس سے ہاتھ نہ چھڑایا ... یہی وجہ ہے کہ اوپر بیان کردہ پہلی حدیث میں جس میں وہ لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے آپ کو کسی نہ کسی کام سے لے جاتی ....کیا عنوان امام بخاری رحمہ اللہ نے تکبر سے اعراض باندھا ہے .. یعنی اس کو آپ کی نرمی اور شفقت اور عدم غرور پر محمول کیا ہے ...
------------------

دوسری حدیث جو سیدنا ابو موسی اشعری والی ہے خود صاحب پوسٹ کے عنوان سے ہی نہیں ملتی کہ مجبوری میں غیر محرم سے اختلاط کیا جا سکتا ہے ... سوال یہ ہے سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کو کیا مجبوری تھی .؟..
کیا جوئیں نکلوانا بھی کوئی ایسی مجبوری ہو جاتی ہے کہ غیر محرم سے یہ کام کروایا جائے؟
... اصل قصہ جو چھپا لیا گیا کہ ہے وہ یہ تھا کہ خاتون ان کی رضاعی خالہ تھیں ... دوستو! ایک حدیث کو پکڑ لیا جاتا ہے، اپنی مرضی کا مفھوم پیش کیا جاتا ہے، جب کہ بسا اوقات اس حدیث سے محدثین کوئی اور مفھوم مراد لے رہے ہوتے ہیں اور ان کی مراد جو مفھوم ہوتا ہے، تو ضرورت کے واسطے وہ مختصر حدیث لے کے آتے ہیں ..جب کہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ اس "اعتراض " کی صورت میں مکمل حدیث پیش کی جا سکتی ہے یا دوسری حدیث جو اس اعتراض کو رفع کرتی ہے اس کو بیان کیا جائے گا ...مگر آجکل کے دانش ور کبھی لاعلمی سے اور کبھی مجرمانہ طور پر ادھوری احادیث لے کے آتے ہیں اور ہمارے معصوم دوست الجھ کے رہ جاتے ہیں - سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی یہی معاملہ ہے ...کہ دوسری روایت ان کے اس عورت سے رشتے کو واضح کر رہی تھی لیکن اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا - ظاہر ہے پھر "تھرتھلی " کس طرح مچتی، اور ذہنوں میں شکوک کہاں سے انڈیلے جاتے۔
------------------

تیسری راویت کا بھی یہی معاملہ ہے ...کس طرح ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر محرم خاتون کو اس طرح اونٹ پر بٹھا لیں کہ اس کا جسم آپ سے چھو جائے، بھلے وہ آپ سے عمر میں بہت چھوٹی اور رشتے میں سالی ہی تھیں ..جب کہ انہی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی سگی چھوٹی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہی روایت ہے کہ:
اللہ کی قسم نبی کریم نے کبھی بیعت کے واسطے بھی کسی غیر محرم عورت کو نہیں چھوا۔
دوستو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ پر ایک کجاوہ دھرا ہوتا تھا اس کے پیچھے باقاعدہ ٹیک کے لیے اونچی لکڑی ہوتی تھی ...
یوں اگر کوئی پیچھے بٹھ بھی جائے، بیچ میں لکڑی کی رکاوٹ موجود رہتی تھی ... جیسا کی بخاری حدیث نمبر [5967] میں، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے کی کفیت بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں:
«ليس بيني و بينه الا آخره الرحل»
میرےاور آپ کے درمیان سواے کجاوۓ کی لکڑی کے بیچ کچھ نہ تھا۔
اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو چھونے سے بہتر ہے کہ جسم میں کوئی لوہے کی کنگھی داخل ہو ے زخمی کر دے - اب خود ہی سوچئے کہ اس تعلیم دینے کے بعد کیا اس بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ خود آپ ہی اس کا اہتمام نہ کریں۔
جہاں تک تعلق ہے امام نووی رحمہ اللہ کے کے باب کا جو انہوں نے حدیث پر باندھا ہے تو اس سے کس کو انکار ہے .. بنا چھوے، اور جسم ملائے کسی خاتون کو ساتھ بٹھا لینا جائز ضرور ہے .. لیکن یاد رکھیے اس جواز کی صورت وہی ہو گی جو دوسری احادیث کی بیان کردہ شرائط کے مطابق ہو گی۔۔۔۔
ابوبکر قدوسی -
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 0   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6072  
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کے تکبر سے پاک تھے بلکہ آپ میں انتہا درجے کی تواضع اور انکساری تھی جس کی دلیل یہ ہے کہ ادنیٰ سی لونڈی جب چاہتی، جس کام کے لیے جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی، آپ انکار نہ کرتے تھے۔
(2)
تکبر کی مذمت میں بہت سی احادیث وارد ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس انسان کے دل میں ذرا بھر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔
پوچھا گیا:
ایک آدمی کی خواہش ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتا اچھا ہو، کیا یہ بھی تکبر ہے؟ آپ نے فرمایا:
نہیں بلکہ تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 265(91)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی ہے کہ تم تواضع اور انکساری اختیار کرو حتی کہ کوئی آدمی دوسرے پر سرکشی نہ کرے۔
(صحیح مسلم، الجنة ونعیمھا، حدیث: 7110(2865)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6072