تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب لايخطب علي خبطة أخيه حتي ينكح أو يدع، حديث:5143، ومسلم، البر والصلة، باب تحريم الظن والتجسس...،حديث:2563.»
تشریح:
ظن کو سب سے بڑا جھوٹ اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان اپنے دل ہی دل میں گمان و ظن کی پرورش کرتا رہتا ہے‘ پھر اسے زبان پر لاتا ہے۔
جھوٹ کی بنیاد کوئی نہیں ہوتی جب کہ برے گمان والا اپنے دل میں ایک بنیاد قائم کرتا ہے اور سامعین پر اس کا جھوٹا ہونا مخفی رہ جاتا ہے‘ چنانچہ عام جھوٹوں کی طرح اس کا پتہ نہیں چل سکتا‘ لہٰذا یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے‘ اس لیے علماء نے اسے تہمت قرار دیا ہے۔
اور تہمت لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔
گویا ظن کا دوسرا نام تہمت ہے اور تہمت کبیرہ گناہ ہے۔
اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ جس معاشرے میں بدگمانی پرورش پائے گی وہاں حسن ظن نام کی کوئی چیز ترقی نہیں کر سکتی اور نہ اس معاشرے کے افراد کے درمیان اعتماد کی فضا ہی پیدا ہو سکتی ہے بلکہ ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔
بہرحال یہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کی علامت نہیں بلکہ زوال و تخریب کی نشانی ہے۔
صالح معاشرے میں بدگمانی کے جراثیم کو پھولنے پھلنے نہیں دینا چاہیے۔