ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے عمر بن محمد نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جبرائیل علیہ السلام مجھے اس طرح باربار پڑوسی کے حق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کر دیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6015]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6015
حدیث حاشیہ: (1) اسلام میں پڑوس کی بہت اہمیت ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، عبادت گزار ہو یا فاسق و فاجر، دوست ہو یا دشمن، اپنا ہویا بیگانہ، قریبی ہو یا اجنبی، خیرخواہ ہو یا بدخواہ ہر قسم کے پڑوسی کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا حکم ہے۔ (2) پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو مشرک ہو۔ اس کا صرف ایک حق ہے۔ دوسرا وہ جو مسلمان ہو۔ اس کے دو حق ہیں: ایک پڑوسی ہونے کا دوسرا مسلمان ہونے کا، تیسرا وہ جو رشتے دار بھی ہو۔ اس کے تین حق ہیں: ایک پڑوس کا، دوسرا اسلام کا اور تیسرا رشتے داری کا۔ دور جاہلیت میں بھی لوگ ہمسائیگی کے حق ادا کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا ہے۔ (3) مذکورہ احادیث سے بھی ہمسائے کی حیثیت کا پتا چلتا ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جب گھر میں بکری ذبح کرتے تو اپنے ایک یہودی پڑوسی کے گھر اس کا گوشت ضرور بھیجتے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5152) ان احادیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک انصاری صحابی اپنے گھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے نکلے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص سے محو گفتگو پایا۔ وہ بیٹھ کر انتظار کرتے رہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تادیر کھڑے دیکھ کر اسے آپ پر ترس آنے لگا....۔ آخر کار جب ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”کیا تجھے علم ہے کہ یہ کون تھے؟“ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو مجھے پڑوسی کے متعلق وصیت کررہے تھے، یہاں تک کہ مجھے شک گزرا کہ وہ میرا وارث بن جائے گا۔ “(مسند أحمد: 32/5) اگرچہ پڑوسی مالی ترکے میں وارچ نہیں ہوتا، تاہم وہ علمی جائیداد میں وراثت کا حق دار ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6015