علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 155
´نماز کے لیے اذان کہنا`
«. . . وعن مالك بن الحويرث رضي الله عنه قال: قال لنا النبي صلى الله عليه وآله وسلم: إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم . . .»
”. . . سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ارشاد فرمایا ”جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی آدمی تمہیں بلانے کے لیے اذان کہے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 155]
� راوئ حدیث:
(سیدنا مالک بن حویرث لیثی رضی اللہ عنہ) حویرث کی ”حا“ پر ضمہ، ”واؤ“ پر فتحہ، ”یا“ ساکن اور ”راء“ مکسور ہے۔ ان کی کنیت ابوسلمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حصول تعلیم دین کے لیے آئے تھے اور بیس روز تک آپ کے پاس قیام کیا۔ جب واپس جانے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راستے میں جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور جو تم میں سے عمر میں بڑا ہو وہ جماعت کرائے۔“ اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ مسافروں کو بھی اذان اور جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو برتری اور فضیلت حاصل ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 155
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 259
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے تم نے پڑھتے دیکھا ہے۔“ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 259»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأذان، باب الأذان للمسافرين إذا كانوا جماعة، حديث:631.»
تشریح:
اس حدیث کے مخاطب براہ راست تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں لیکن عمومی حکم میں امت مسلمہ کا ہر فرد اس کا مخاطب ہے۔
امیر یمانی نے کہا: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں آپ نے جو افعال جس طرح ادا فرمائے بعینہ اسی طرح ادا کرنا واجب ہیں‘ البتہ جس کا کسی دوسری دلیل سے غیر واجب ہونا ثابت ہو جائے تو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوگا۔
(سبل السلام) بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 259
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 635
´سفر میں دو شخص ہوں تو ان کے اذان کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچا زاد بھائی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (دوسری بار انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک ساتھی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم دونوں سفر کرو تو دونوں اذان کہو ۱؎ اور دونوں اقامت کہو، اور جو تم دونوں میں بڑا ہو وہ امامت کرے۔“ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 635]
635 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر مسافر ایسی جگہ ہے جہاں اذان نہیں ہوتی یا سنائی نہیں دیتی تو اسے اذان کہہ کر نماز پڑھنی چاہیے۔ ایک سے زائد ہوں تو نماز باجماعت کرائیں، البتہ اگر اذان ہوتی ہے یا سنائی دیتی ہے تو پھر اذان دینا کوئی ضروری نہیں۔ «أذانُ الحيِّ يكفينا»
➋ اذان تو کوئی شخص بھی کہہ سکتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا، عالم ہو یا عامی، مگر جماعت کے لیے مناسب یہ ہے کہ افضل ہو، علم میں یا عمر میں یا مرتبے میں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کے لیے بڑے کی قید لگائی جب کہ اذان کے لیے صرف یہ فرمایا کہ اذان کہو، یعنی تم میں اذان و اقامت ہونی چاہیے، کوئی ایک کہہ دے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 635
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 636
´حضر میں دوسرے کی اذان پر آدمی کے اکتفاء کرنے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے، ہم نے آپ کے پاس بیس روز قیام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحیم (بہت مہربان) اور نرم دل تھے، آپ نے سمجھا کہ ہم اپنے گھر والوں کے مشتاق ہوں گے، تو آپ نے ہم سے پوچھا: ہم اپنے گھروں میں کن کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ ہم نے آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا: ”تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ، (اور) ان کے پاس رہو، اور (جو کچھ سیکھا ہے اسے) ان لوگوں کو بھی سیکھاؤ، اور جب نماز کا وقت آ پہنچے تو انہیں حکم دو کہ تم میں سے کوئی ایک اذان کہے، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے۔“ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 636]
636 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سابقہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: ”تم اذان کہو۔“ اس سے غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ شاید سب اذان کہیں۔ یہ روایت وضاحت کرتی ہے کہ صرف ایک آدمی اذان کہے، دوسرے لوگ اسی کی اذان پر اکتفا کریں۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔
➋ احکام دین کا علم حاصل کرنا چاہیے اگرچہ اس کے لیے دور دراز کا سفر بھی کرنا پڑے۔
➌ دین سے ناواقف آدمی کو تعلیم دینا عالم پر فرض ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 636
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 670
´ہر ایک کا اپنے لیے الگ الگ اقامت کہنے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میرے ایک ساتھی سے فرمایا: ”جب نماز کا وقت آ جائے تو تم دونوں اذان دو، پھر دونوں اقامت کہو، پھر تم دونوں میں سے کوئی ایک امامت کرے۔“ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 670]
670 ۔ اردو حاشیہ: ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ تم سب اذان کہو اور سب اقامت کہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی ایک شخص اذان اور اقامت کہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 635، 636) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف اسفار میں صرف ایک ہی اذان کہلوائی ہے، نیز سفر اور حضر کا فرق بھی معتبر نہیں، حکم ایک ہی ہے، لہٰذا اس حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ کا ہر آدمی کے لیے اقامت کی مشروعیت کا استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 670
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 782
´امامت کے لیے عمردراز شخص کو آگے بڑھانے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچازاد بھائی (اور کبھی انہوں) نے کہا: میں اور میرے ایک ساتھی، دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم دونوں سفر کرو تو تم دونوں اذان اور اقامت کہو، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 782]
782 ۔ اردو حاشیہ: بڑی عمر والا امامت اس وقت کرائے گا جب سب علم میں برابر ہوں۔ یہ دونوں اکٹھے مسلمان ہوئے، اکٹھے آئے اور اکٹھے آپ کے پاس رہے، لہٰذا علم میں برابر تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 782
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1535
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ہم عمر نوجوان، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم آپ ﷺ کے پاس بیس دن ٹھہرے، رسول اللہ ﷺ بہت مہربان اور نرم دل تھے تو آپﷺ نے خیال کیا کہ ہم اپنے گھر والوں کو چاہنے لگے ہیں، یعنی ہم گھر جانا چاہتے ہیں تو آپﷺ نے ہم سے پوچھا، ہم کن گھر والوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ تو ہم نے آپﷺ کو بتا دیا، آپﷺ نے فرمایا: اپنے خاندان کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں میں ٹھہرو، انہیں تعلیم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1535]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ تقریباً ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حصول تعلیم کے لیے حاضر ہوئے تھے اور سب نے برابر تعلیم حاصل کی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ ترجیح عمر میں بزرگی کو قراردیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1535
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1538
حضرت مالک بن حویرث ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرا دوست نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئےتو جب ہم نے آپ ﷺ کے ہاں سے واپس جانے کا ارادہ کیا، آپﷺ نے ہمیں فرمایا: جب نماز کا وقت ہوجائے تو اذان کا انتظام کرنا، پھر اقامت کہنا اور جو تم میں سے بڑا ہے وہ امامت کرائے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1538]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سفر میں بھی اذان اور جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے موذن کے لیے بہتر اور افضل ہونا شرط نہیں ہے امامت کا حقدار افضل اور بہتر ہی ہے آتے وقت سب ساتھی اکٹھے آتے جاتے وقت سب سے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو الوداع کہنے والے یہ دونوں ساتھی تھے اس لیے آپﷺ نے ان کو خصوصی ہدایات دیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1538
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 628
628. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم کے چند آدمیوں کے ہمراہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے آپ کے ہاں بیس راتیں قیام کیا۔ آپ انتہائی مہربان اور نرم دل تھے۔ جب آپ نے محسوس فرمایا کہ ہمارا اشتیاق اہل خانہ کی طرف ہے تو فرمایا: ”اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھا کرو۔ اذان کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:628]
حدیث حاشیہ:
آداب سفرمیں سے ہے کہ امیر سفر کے ساتھ ساتھ امام ومؤذن کا بھی تقرر کر لیا جائے۔
تاکہ سفرمیں نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاسکے۔
حدیث نبوی کا یہی منشا ہے اور یہی مقصد باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 628
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 630
630. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: دو آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم سفر پر روانہ ہو جاؤ تو دوران سفر میں آذان دو اور تکبیر کہو، پھر تم میں سے جو عمر میں بڑا ہو، وہ امامت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:630]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ کہ سفرمیں نماز باجماعت سے غافل نہ ہونا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 630
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 631
631. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم چند ایک ہم عمر نوجوان ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا۔ آپ انتہائی نرم دل اور بڑے مہربان تھے۔ جب آپ نے خیال کیا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کا شوق بےچین کر رہا ہے تو آپ نے ہم سے ان کی احوال پرسی فرمائی جنہیں ہم اپنے پیچھے چھوڑے آئے تھے۔ ہم نے آپ کو ان کے حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”واپس اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں کے پاس رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور انہیں اچھی باتوں کی تلقین کرو۔“ آپ ﷺ نے مزید باتیں بیان فرمائیں جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان کہہ دے، البتہ تم میں سے عمر کے اعتبار سے بڑا جماعت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:631]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ حالت سفرمیں اگرچند مسلمان یکجا ہوں توان کو نماز اذان اور جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئیے۔
ان نوجوانوں کو آپ نے بہت سی نصائح کے ساتھ آخرمیں یہ تاکید فرمائی کہ جیسے تم نے مجھ کونماز پڑھتے دیکھا ہے۔
عین اسی طرح میری سنت کے مطابق نماز پڑھنا۔
معلوم ہوا کہ نماز کا ہر ہر رکن فرض واجب مستحب سب رسول ﷺ کے بتلائے ہوئے طریقہ پرادا ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ نماز صحیح نہ ہوگی۔
اس معیار پر دیکھا جائے توآج کتنے نمازی ملیں گے جوبحالت قیام ورکوع وسجدہ و قومہ سنت رسول کوملحوظ رکھتے ہیں۔
سچ ہے:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 631
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 658
658. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تکبیر کہے پھر تم میں سے بڑی عمر والا امامت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:658]
حدیث حاشیہ:
اس سے پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ دوشخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔
انھیں دواصحاب کو آپ نے یہ ہدایت فرمائی تھی۔
اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ اگرصرف دو آدمی ہوں تو بھی نماز کے لیے جماعت کرنی چاہئیے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
المُرَاد بقوله أذنا أَي من أحب مِنْكُمَا أَن يُؤذن فليؤذن وَذَلِكَ لِاسْتِوَائِهِمَا فِي الْفضل وَلَا يعْتَبر فِي الْأَذَان السن بِخِلَاف الْإِمَامَة۔
(فتح الباری)
حافظ ابن حجر لفظ آذنا کی تفسیر کرتے ہیں کہ تم میں سے جو چاہے اذان دے یہ اس لیے کہ وہ دونوں فضیلت میں برابر تھے اور اذان میں عمر کا اعتبار نہیں۔
بخلاف امامت کے کہ اس میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 658
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 685
685. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم چند ایک نوجوان تھے۔ ہم تقریبا بیس راتیں رسول اللہ ﷺ کے ہاں مقیم رہے۔ آپ انتہائی مہربان اور رحم دل تھے۔ آپ نے (ہماری غریب الوطنی کو محسوس کیا اور) فرمایا: ”جب تم اپنے وطن کو لوٹ کر جاؤ تو انہیں دین کی تعلیم سے آراستہ کرنا۔ انہیں تلقین کرنا کہ فلاں فلاں نماز، فلاں فلاں وقت میں ادا کریں۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:685]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
حدیث میں اکبرہم سے عمر میں بڑا مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 685
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 819
819. انہوں (حضرت مالک بن حویرث ؓ) نے کہا کہ ہم (اسلام لانے کے بعد) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ ہم نے آپ کے پاس قیام کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے اہل و عیال میں واپس جاؤ تو اس طرح ان اوقات میں نماز ادا کیا کرو، فلاں نماز، فلاں وقت میں پڑھا کرو، لہذا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان کہہ دے اور امامت تم میں سے وہ کرائے جو عمر میں بڑا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:819]
حدیث حاشیہ:
مراد جلسہ استراحت ہے جو پہلی اور تیسری رکعت کے خاتمہ پر سجدہ سے اٹھتے ہوئے تھوڑی دیر بیٹھ لینے کو کہتے ہیں۔
بعض نسخوں میں یہ عبارت ثم سجد ثم رفع رأسه ھنیة ایک ہی بار ہے چنانچہ نسخہ قسطلانی ؒ میں بھی یہ عبارت ایک ہی بار ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے اگر دوبارہ ہو پھر بھی مطلب یہی ہوگا کہ دوسرا سجدہ کرکے ذرا بیٹھ گئے جلسہ استراحت کیا پھر کھڑے ہوئے یہ جلسہ استراحت مستحب ہے اور حدیث ہٰذا سے ثابت ہے شارحین لکھتے ہیں:
بذلك أخذ الإمام الشافعي وطائفة من أھل الحدیث وذھبوا إلی سنیة جلسة الاستراحة۔
یعنی اس حدیث کی بنا پر امام شافعی اور جماعت اہل حدیث نے جلسہ استراحت کو سنت تسلیم کیا ہے۔
کچھ ائمہ اس کے قائل نہیں ہیں بعض صحابہ سے بھی اس کا ترک منقول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جلسہ فرض وواجب نہیں ہے مگر اس کے سنت اور مستحب ہونے سے انکار بھی صحیح نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 819
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2848
2848. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب میں نبی ﷺ کے پاس سے واپس (اپنے گھر) آنے لگا تو آپ ﷺ نے مجھے اور میرے ایک ساتھی سے فرمایا: ”تم میں سے کوئی بھی بوقت ضرورت اذان دے سکتا ہے اور اقامت کہہ سکتا ہے لیکن امامت وہی کرائے جو تم میں بڑا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2848]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الصلوٰۃ میں گزر چکی ہے یہاں حضرت امام بخاری ؒ اس کو اس لئے لائے کہ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اکیلا سفر کرنے والا شیطان ہے اور دو شخص سفر کرنے والے دو شیطان ہیں اور تین شخص جماعت۔
اس حدیث کی رو سے بعضوں نے دو شخصوں کا سفر مکروہ رکھا ہے‘ امام بخاریؒ نے اسی حدیث سے اس کا جواز نکالا معلوم ہوا کہ ضرورت سے دو آدمی بھی سفر کرسکتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2848
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7246
7246. سیدنا مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان ہم عمر تھے۔ ہم آپ کی خدمت میں بیس دن ٹھہرے رہے۔ رسول اللہ ﷺ بڑے رحم دل تھے۔ جب آپ نے سمجھا کہ ہمارا گھر جانے کا شوق ہے تو آپ نے ہم سے پوچھا کہ ہم اپنے پیچھے کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں تو ہم نے آپ کو بتایا۔ آپ نےفر مایا: ”اب تم اپنے گھروں کو چلے جاؤ اور ان کے ساتھ رہو۔ انہیں اسلام سکھاؤ اور دین کی باتیں بتاؤ۔“ آپ نے بہت سی باتیں بتائیں جن میں سے مجھے کچھ یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ نے فرمایا: ”اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھو، جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7246]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آپ نے فرمایا تم میں سے ایک شخص اذان دے تو معلوم ہوا کہ ایک شخص کے اذان دینے پر لوگوں کو عمل کرنا اور نماز پڑھ لینا درست ہے۔
آخر یہ بھی تو خبر واحد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7246
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:628
628. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم کے چند آدمیوں کے ہمراہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے آپ کے ہاں بیس راتیں قیام کیا۔ آپ انتہائی مہربان اور نرم دل تھے۔ جب آپ نے محسوس فرمایا کہ ہمارا اشتیاق اہل خانہ کی طرف ہے تو فرمایا: ”اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھا کرو۔ اذان کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:628]
حدیث حاشیہ:
مصنف عبدالرزاق میں سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں صبح کی دو اذانیں کہا کرتے تھے۔
گویا ان کے نزدیک سفروحضر کی کوئی تفریق نہ تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر میں اذان میں تکرار نہیں ہونی چاہیے، لیکن حدیث کے ظاہری سیاق میں سفر وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔
امام بخاری ؒ نے گویا ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں سفر کی وضاحت ہے۔
اس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے، سفر کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔
آپ نے ان سے فرمایا:
”جب تم سفر پر روانہ ہوجاؤ تو دوران سفر میں اذان دو، پھر تکبیر کہو، اس کے بعد تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔
“(صحیح البخاری، الاذان، حدیث: 630)
لیکن اس دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر میں دونوں حضرات کو اذان کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ان الفاظ کی وضاحت فرمائی ہے کہ تم دونوں میں سے جو اذان دینا چاہے وہ اذان دے۔
(فتح الباري: 145/2-
146)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 628
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:630
630. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: دو آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم سفر پر روانہ ہو جاؤ تو دوران سفر میں آذان دو اور تکبیر کہو، پھر تم میں سے جو عمر میں بڑا ہو، وہ امامت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:630]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں واضح طور پر حکم ہے کہ دوران سفر میں اذان دی جائے، تکبیر بھی کہی جائے اور پھر باجماعت نماز ادا کی جائے۔
اس میں امیر کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں، لیکن اس حدیث کے ظاہری سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اذان دیں اور دونوں تکبیر کہیں۔
بعض اسلاف نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دوران سفر میں دونوں کو بیک وقت اذان دینی چاہیے، لیکن ان کا موقوف مرجوح ہے۔
ان الفاظ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی اذان دے اور دوسرا تکبیر کہہ دے۔
جیسا کہ حدیث: 631 سے معلوم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ طبرانی کی روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ جب تو اپنے ساتھی کے ہمراہ سفر کرے تو تجھے اذان دینی ہے اور تکبیر بھی کہنی ہے، پھر جو تم میں عمر کے اعتبار سے بڑا ہے وہ جماعت کرائے۔
(فتح الباري: 147/2)
اس حدیث میں کچھ ابہام اور اجمال ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے وضاحت اور تفصیل کے لیے درج ذیل ایک دوسری روایت کو بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 630
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:631
631. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم چند ایک ہم عمر نوجوان ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا۔ آپ انتہائی نرم دل اور بڑے مہربان تھے۔ جب آپ نے خیال کیا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کا شوق بےچین کر رہا ہے تو آپ نے ہم سے ان کی احوال پرسی فرمائی جنہیں ہم اپنے پیچھے چھوڑے آئے تھے۔ ہم نے آپ کو ان کے حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”واپس اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں کے پاس رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور انہیں اچھی باتوں کی تلقین کرو۔“ آپ ﷺ نے مزید باتیں بیان فرمائیں جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان کہہ دے، البتہ تم میں سے عمر کے اعتبار سے بڑا جماعت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:631]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث سابق میں ابہام تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے۔
اس حدیث میں ان کی تعیین ہے کہ وہ حضرت مالک بن حویرث ؓ اور ان کے ساتھی تھے بلکہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
حضرت مالک بن حویرث ؓ خود فرماتےہیں کہ خود میں اور میرا ایک ساتھی رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس ہوئے۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2848)
البتہ حدیث کی کسی روایت میں اس ساتھی کا نام ذکر نہیں ہوا۔
(فتح الباري: 147/2)
نیز پہلی حدیث میں کچھ اجمال تھا کہ تم دونوں اذان کہو۔
اس روایت میں تفصیل ہے کہ تم میں سے کوئی ایک اذان دے اور دوسرا تکبیر کہے، یعنی بیک وقت دونوں نے اذان نہیں دینی بلکہ کوئی ایک اذان کہے۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ دوران سفر میں اذان دی جائے اور تکبیر بھی کہی جائے، پھر جماعت کرائی جائے، خواہ سفر میں امیر ہو یا نہ ہو۔
(2)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت مالک بن حویرث اور ان کے رفقاء کو نماز کے متعلق ایک خاص ہدایت فرمائی ہے کہ جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔
نماز کے متعلق مذکورہ امر نبوی وجوب کےلیے ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے۔
اس امر نبوی میں وہ تمام اعمال آجاتے ہیں جو تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک بجالائے جاتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی ہرہر ادا کو بجالانا ضروری ہے، البتہ اس کے استحباب یا جواز کی کوئی دلیل مل جائے تو وجوب کے بجائے استحباب اور جواز پر محمول کیا جاسکتا ہے۔
لیکن دلیل کے بغیر اعمال نماز کے متعلق استحباب و جواز کی تقسیم درست نہیں۔
عام طور پر رفع الیدین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے کرنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم منقول نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک رفع الیدین کرنے کا حکم اس امر نبوی کے تحت ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔
اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
إن شاء الله.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 631
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:658
658. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تکبیر کہے پھر تم میں سے بڑی عمر والا امامت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:658]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ عنوان حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ایک حدیث ہے جسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 972)
امام بخاری ؒ کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی حدیث باعتبار لفظ ان کی شرط کے مطابق نہ ہو لیکن باعتبار معنی وہ صحیح ہو تو دیگر روایات سے اس کی تائید کرتے ہیں۔
آپ نے اسی اصول کے پیش نظر سنن ابن ماجہ کی حدیث کو عنوان قرار دیا ہے اور اپنی پیش کردہ روایت سے اس کے مضمون کو ثابت کیا ہے کہ جماعت کا اطلاق اگرچہ کم از کم تین پر ہوتا ہے مگر نماز میں دو پر بھی جماعت کا اطلاق ہوسکتا ہے، یعنی اگر دو آدمی باجماعت نماز ادا کریں تو بھی انھیں پوری جماعت کا ثواب ملے گا۔
(2)
امام بخاری کےاستدلال پر اعتراض کیا گیا ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ کے ہمراہ تو ان کے دیگر ساتھی بھی تھے۔
روایت میں صرف دو کا ذکر تصرف رواۃ معلوم ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ دو مختلف واقعات ہیں:
ایک دفعہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ آئے تھے اور دوسری دفعہ وہ اپنے ساتھی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جماعت کم از کم امام اور ماموم(مقتدی)
پر مشتمل ہوتی ہے، خواہ ماموم آدمی یا بچہ یا عورت ہو۔
(فتح الباري: 185/2) (3)
علم کے اعتبار سے وہ دونوں برابر تھے، اس لیے اذان اور تکبیر کے متعلق بلا تفریق کسی ایک کو یہ فریضہ سرانجام دینے کا حکم دیا لیکن امامت میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے کیونکہ اگر نمازی علم وفضل میں برابر ہوں تو جماعت کے لیے بڑی عمر والے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 658
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:685
685. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم چند ایک نوجوان تھے۔ ہم تقریبا بیس راتیں رسول اللہ ﷺ کے ہاں مقیم رہے۔ آپ انتہائی مہربان اور رحم دل تھے۔ آپ نے (ہماری غریب الوطنی کو محسوس کیا اور) فرمایا: ”جب تم اپنے وطن کو لوٹ کر جاؤ تو انہیں دین کی تعلیم سے آراستہ کرنا۔ انہیں تلقین کرنا کہ فلاں فلاں نماز، فلاں فلاں وقت میں ادا کریں۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:685]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا عنوان قائم کر کے حدیث کی تشریح کی ہے، یعنی حدیث میں جو بڑی عمر والے کو امامت کے لیے آگے بڑھانے کی بات ہے وہ اس وقت ہے کہ جب لوگ قراءت قرآن اور علم وفضل میں مساوی ہوں، بصورت دیگر بڑی عمر والے کی تقدیم نہ ہوگی، چنانچہ حدیث بالا میں جن اصحاب کا ذکر ہے وہ جہاں علم وفضل میں برابر تھے وہاں قراءت میں بھی یکساں مقام رکھتے تھے۔
جیسا کہ حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ ہم سب ان دنوں علمی لحاظ سے یکساں درجہ رکھتے تھے۔
بعض روایات میں ہے کہ راوئ حدیث خالد نے حضرت ابو قلابہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بڑی عمر والے کو امام بنانے کی تلقین کی ہے اندریں حالات قراءت کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟ حضرت ابو قلابہ نے فرمایا:
قراءت میں وہ سب برابر تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں تعلیم دی کہ بڑی عمر والا امامت کے فرائض سرانجام دے۔
(فتح الباري: 221/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 685
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:819
819. انہوں (حضرت مالک بن حویرث ؓ) نے کہا کہ ہم (اسلام لانے کے بعد) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ ہم نے آپ کے پاس قیام کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے اہل و عیال میں واپس جاؤ تو اس طرح ان اوقات میں نماز ادا کیا کرو، فلاں نماز، فلاں وقت میں پڑھا کرو، لہذا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان کہہ دے اور امامت تم میں سے وہ کرائے جو عمر میں بڑا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:819]
حدیث حاشیہ:
دو سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھنے کو قعدہ کہا جاتا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اسے ثابت کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث و آثار کو پیش کیا ہے، چنانچہ حدیث میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی صراحت موجود ہے۔
اس قعدہ کی کیفیت حضرت ابو حمید ساعدی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنا بایاں پاؤں موڑتے، پھر اس پر بیٹھ جاتے اور سیدھے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے ٹھکانے پر آ جاتی پھر دوسرا سجدہ کرتے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 730)
رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ بیٹھتے وقت اپنا دایاں پاؤں کھڑا کر لیتے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 828)
اور کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ اپنے قدموں اور ہڈیوں پر بیٹھتے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1198(536)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 819
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2848
2848. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب میں نبی ﷺ کے پاس سے واپس (اپنے گھر) آنے لگا تو آپ ﷺ نے مجھے اور میرے ایک ساتھی سے فرمایا: ”تم میں سے کوئی بھی بوقت ضرورت اذان دے سکتا ہے اور اقامت کہہ سکتا ہے لیکن امامت وہی کرائے جو تم میں بڑا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2848]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒنے دوآدمیوں کے سفرکرنے کو جائز ثابت کیا ہے۔
جس حدیث میں اس کی ممانعت ہے وہ محض ارشاد پرمحمول ہے۔
دوآدمیوں کا سفرکرنا حرام نہیں بلکہ بوقت ضرورت ایسا کیا جاسکتاہے۔
جس حدیث میں اکیلے سفرکرنے کی ممانعت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اکیلا سفر کرنے والا نافرمان ہے۔
اس پر شیطان حملہ آورہو سکتا ہے۔
2۔
واضح رہے کہ عنوان میں اثنین سے مراد دوشخص ہیں۔
سوموار کا دن مراد نہیں جیساکہ بعض شارحین سے ایسا منقول ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2848
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7246
7246. سیدنا مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان ہم عمر تھے۔ ہم آپ کی خدمت میں بیس دن ٹھہرے رہے۔ رسول اللہ ﷺ بڑے رحم دل تھے۔ جب آپ نے سمجھا کہ ہمارا گھر جانے کا شوق ہے تو آپ نے ہم سے پوچھا کہ ہم اپنے پیچھے کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں تو ہم نے آپ کو بتایا۔ آپ نےفر مایا: ”اب تم اپنے گھروں کو چلے جاؤ اور ان کے ساتھ رہو۔ انہیں اسلام سکھاؤ اور دین کی باتیں بتاؤ۔“ آپ نے بہت سی باتیں بتائیں جن میں سے مجھے کچھ یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ نے فرمایا: ”اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھو، جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7246]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی وفد کی صورت میں غزوہ تبوک سے پہلے حاضر خدمت ہوئے اورغزوہ تبوک رجب نو (9)
ہجری میں ہوا تھا۔
یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تقریباً بیس دن رہے۔
ان کی واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دیں۔
چونکہ یہ حضرات قرآءت میں برابر تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم میں سے جماعت وہ کرائے جو عمر میں بڑا ہو۔
“ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث 631)
البتہ اذان دینے کے متعلق کوئی پابندی نہیں اسے کوئی پابندی نہیں اسے کوئی بھی دے سکتا ہے۔
2۔
ایک آدمی کی اذان پر نماز پڑھنا درست ہے۔
یہ خبر واحد کے قابل حجت ہونے کی دلیل ہے کیونکہ ایک آدمی کی اذان پر نماز پڑھنا اور روزہ افطار کرنا اگر صحیح ہے تو اس کی بیان کردہ روایت کیوں قابل قبول نہیں؟
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7246