حدیث حاشیہ: ان احادیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جن لوگوں کا دعوی ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں اگر ان کا دعوی صحیح ہوتا تو تصاویر بنانے والوں کو اس قدر شرمسار اور ذلیل نہ کیا جاتا۔
ان کی طرف پیدا کرنے کی نسبت بطور استہزا ہے دراصل ان کا کسب اور فعل تھا یا ان کے زعم فاسد کی بنیاد پر خلق کا اطلاق کیا گیا ہے۔
بہرحال تصویر بنانا ان کا فعل اور عمل ہے جس کی بنیاد پر انھیں عذاب کا حق اور ٹھہرایا گیا ہے کیونکہ انھوں نے اسے اپنے ارادے اور اختیار سے بنایا تھا اور یہ ان کا حقیقی فعل تھا جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا کیونکہ اس نے ہی اس عمل کا راستہ ان کے لیے آسان کیا تھا۔
چونکہ انھوں نے اپنے ارادے کو استعمال کرتے ہوئے اسے اختیار کیا۔
اس لیے عذاب کے مستحق ہوئے۔
انتہائی ضروری نوٹ:
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تین قسم کی تصاویر تھیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں۔
لکڑی اور پتھروں کے بت تھے جنھیں تمثال کہا جاتا تھا۔
ان کا جسم ہوتا تھا ان کی عبادت کے لیے انھیں تراشا جاتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس قسم کی مورتیوں کو توڑ دیا جائے۔
کپڑوں پر تصاویر کے نقش ہوتے تھے۔
ان کا الگ کوئی وجود نہ تھا۔
ان کے متعلق حکم دیا کہ ایسے کپڑوں کو پھاڑ دیا جائے یا انھیں نیچے بچھا کر ان کی توہین کی جائے یا ان کے سر کاٹ کر درختوں کی طرح بنا لیا جائے۔
بہر حال اس قسم کی تصاویر کے متعلق بھی سخت ممانعت ہے۔
شیشے پر کسی چیز کا عکس آتا، اسے بھی تصویر کا نام دیا جاتا۔
جب انسان شیشے کے سامنے ہوتا وہ تصویر برقرار رہتی۔
جب اس کے سامنے سے ہٹ جاتا تو تصویر بھی غائب ہو جاتی۔
اس کے متعلق کوئی وعید نہیں ہے بلکہ اسے دیکھ کر ایک دعا پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
دور حاضر میں دو تصاویر مزید ہمارے سامنے آئی ہیں ان کا حکم بھی درج بالا تصاویر کے حکم سے ملتا جلتا ہے۔
وہ تصاویر یہ ہیں۔
کاغذ پر چھپی ہوئی تصویر جیسا کہ اخبارات میں فوٹو شائع ہوتے ہیں۔
اس کا وہی حکم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کپڑے پر نقش تصویر کا ہے۔
ویڈیوں کی تصویر جسے لہروں کے ذریعے سے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
اس کے متعلق علماء کی مختلف آراء ہیں۔
بعض اسے شیشے کی تصویر سے ملحق کر کے اس کے جواز کو ثابت کرتے ہیں اور بعض اسے دوسری تصاویر کے ساتھ ملا کر اس کے متعلق حرمت کا فتوی دیتے ہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق اسے کپڑے پر نقش تصویر کی طرح قراردینا مناسب ہے کیونکہ اسے محفوظ کر لیا جاتا ہے جب بھی ضرورت پڑے اسے دیکھا جا سکتا ہے۔
فتنے کے سد باب کے لیے اسے ناجائز قرار دینا ہی مناسب ہے ہاں اگر کوئی ضرورت ہو تو اس کے متعلق نرم گوشہ رکھا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔