الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس کے بیان میں
37. بَابُ النِّعَالِ السِّبْتِيَّةِ وَغَيْرِهَا:
37. باب: صاف چمڑے کی جوتی پہننا۔
حدیث نمبر: 5850
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ أَبِي مَسْلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا،" أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی مسلمہ نے، انہوں نے کہا میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5850]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارييصلي في نعليه
   صحيح البخارييصلي في نعليه
   صحيح مسلميصلي في النعلين قال نعم
   جامع الترمذييصلي في نعليه
   سنن النسائى الصغرىيصلي في النعلين قال نعم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5850 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5850  
حدیث حاشیہ:
اس روایت کی تطبیق ترجمہ باب سے مشکل ہے مگر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس سے استدلال کیا کیونکہ جوتی عام طور پر دونوں طرح کی جوتی کو شامل ہے یعنی اس چمڑے کی جوتی کو جس پر بال ہوں اور اس کو بھی جس کے بال نکال دیئے گئے ہوں۔
پاک صاف ستھری جوتیوں میں نماز پڑھنا بلا شک جائز درست ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر یہ معمول تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5850   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5850  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5850 کا باب: «بَابُ النِّعَالِ السِّبْتِيَّةِ وَغَيْرِهَا:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
یہاں پر ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت بہت مشکل ہے، کیوں کہ باب میں ان جوتیوں کا ذکر ہے جس پر سے بال نکال دیئے گئے ہوں، مگر تحت الباب صرف جوتیوں کا ذکر ہے، اس میں بالوں کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، «سبتيّة» النعال کی صفت ہے، «سب» کے معنی ہیں کاٹنے کے، «نعال سبتيّة» سے ایسے چمڑے کے جوتے مراد ہیں جن کی کھال سے بال صاف کر کے جوتے بنائے گئے ہوں، زمانہ قدیم میں کھال سے بنے ہوئے دونوں قسم کے جوتوں کا رواج تھا، کھال سے بال صاف کر کے جوتے بنائے جاتے۔ مالدار حضرات ایسے ہی جوتے استعمال کرتے اور بال صاف کیے بغیر بھی بنائے جاتے۔
«سِبْتِيَّة» (سین کے کسرہ، باء کے سکون، تاء کے کسرہ اور یاء مفتوحہ مشددہ کے ساتھ ہے)
شیخ محمد داؤد راز رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اس روایت کی تطبیق ترجمہ باب سے مشکل ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس سے استدلال کیا کیوں کہ جوتا عام طور پر دونوں طرح کے جوتے کو شامل ہے، یعنی اس چمڑے کے جوتے کو جس پر بال ہوں اور اس کو بھی جس کے بال نکال دیئے گئے ہوں۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
«و عندي أن المصنف إنها ترجم بالنعال السبتية لما يتوهم من بعض الروايات من كراهيتها و لما قال عبيد بن جريج كما فى رواية الباب من قوله: لم أر أحدا يصنعها فأشار المصنف بالترجمة إلى مشروعيتها.» (2)
یعنی بستی جوتیوں کو بعض لوگوں نے مکروہ کہا ہے، اور بعض روایات سے بھی اس کی کراہیت کا وہم ہوتا ہے۔ روایت باب کے اندر عبید بن جریج نے بھی کہا: میں نے کسی کو یہ جوتے بناتے ہوئے نہیں دیکھا، اس قول سے بھی کراہیت کا وہم کسی کو ہو سکتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترجمۃ الباب سے اس کی بلا کراہیت مشروعیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «سبتيّة» کے جائز ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور تحت الباب جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے حدیث ذکر فرمائی ہے اس میں ایک عام اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتیاں پہن کر نماز پڑھی، امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنے کا اشارہ فرما رہے ہیں کہ جس طرح ہر جوتی میں نماز ادا کی جا سکتی ہے تو بعین اسی طرح سے «سبتيّة» کی جوتی بھی جائز ہے، کیوں کہ دونوں طرح کے جوتے پہننا جائز ہے، اور جن حضرات نے «سبتيّة» جوتیوں کو مکروہ جانا ہے، ان کا رد بھی قیاس کے ذریعے یہاں مقصود ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 171   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5850  
حدیث حاشیہ:
(1)
عربوں کے ہاں غریب لوگ بالوں والے جوتے استعمال کرتے تھے جبکہ امیر لوگ رنگے ہوئے صاف چمڑے کے جوتے پہنتے تھے۔
رنگے ہوئے چمڑے کے جوتوں کو سبتیہ کہا جاتا ہے۔
نعل کا لفظ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، خواہ رنگے ہوئے چمڑے سے بنے ہوں یا غیر رنگے چمڑے سے۔
(2)
اس عموم سے امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ ہر قسم کا جوتا استعمال کیا جا سکتا ہے، خواہ وہ صاف چمڑے کا ہو یا بالوں والے چمڑے کا۔
ان کا صاف ستھرا اور پاک ہونا ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صاف اور پاک جوتا پہن کر نماز پڑھ لیتے تھے۔
جب جوتے پہن کر مسجد میں آنا اور ان میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
تو عام حالات میں اس قسم کے جوتے پہننے میں کیا خرابی ہو سکتی ہے؟ واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5850   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 776  
´جوتوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوسلمہ (ان کا نام سعید بن یزید بصریٰ ہے اور وہ ثقہ ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں (پڑھتے تھے)۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 776]
776 ۔ اردو حاشیہ:
➊ جوتوں میں نماز پڑھی جا سکتی ے مگر چند باتیں قابل لحاظ ہیں: جوتے پاک اور صاف ستھرے ہوں۔ بہتر ہے کہ جوتے اس قسم کے ہوں کہ ان میں سجدے اور قعدے میں دقت پیش نہ آئے، یعنی ان پر بیٹھنے میں تکلیف نہ ہو۔ یہ سب کچھ تب ہے جب مسجد جوتوں سے میلی نہ ہوتی ہو۔ اگر فرش جوتوں سے میلا ہوتا ہو یا صفیں ٹوٹتی ہوں تو جوتوں سمیت مسجد میں نماز نہ پڑھی جائے، البتہ کھلی جگہ (مسجد سے باہر) یا کچے فرش پر کوئی حرج نہیں۔ چونکہ آج کل مساجد میں عموماً فرش بنے ہوتے ہیں، صفیں، دریاں اور قالین بچھے ہوتے ہیں، لہٰذا جوتوں میں نماز پڑھنے سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ مساجد میں میل کچیل اور آلودگی نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مساجد کچی ہوتی تھیں۔
➋ ابوداود کی ایک روایت میں جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا امر بھی ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 650، 652]
لیکن وہ امر استحباب پر محمول ہے کیونکہ ابوداود ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننگے پاؤں بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 648]
یہ امر یہود کی مخالفت کی بنا پر ہے۔ یہود سے آپ کی موافقت اور مخالفت وقتی چیز ہے۔ یہود کا نماز میں جوتے پہننے کو ناپسند کرنا شاید اس بنا پر ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے موقع پر موسیٰ علیہ السلام کو وادیٔ مقدس میں جوتے اتارنے کا حکم دیا گیا تھا: « ﴿فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ طُوًى﴾ » [طه 12: 20]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 776   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 400  
´جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن یزید (ابو مسلمہ) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پڑھتے تھے۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 400]
اردو حاشہ:
1؎:
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یہودیوں کی مخالفت کرو وہ جوتوں میں نماز نہیں پڑھتے،
علماء کہتے ہیں کہ اگر جوتوں مں نجاست نہ لگی ہو تو ان میں نماز یہودیوں کی مخالفت کے پیش نظر مستحب ہو گی ورنہ اسے رخصت پر محمول کیا جائے گا،
مساجد کی تحسین و طہارت کے پیش نظر جہاں دریاں،
قالین وغیرہ بچھے ہوں وہاں جوتے اُتار کر نماز پڑھنی چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 400   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:386  
386. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، ان سے دریافت کیا گیا: کیا نبی ﷺ جوتوں سمیت نماز پڑھ لیتے تھے؟انھوں نے جواب دیا: ہاں پڑھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:386]
حدیث حاشیہ:

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر گئے توتادبافرمان الٰہی صادر ہوا:
﴿ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾ بلا شبہ میں تمھارا رب ہوں، یقیناً (اس وقت)
تم مقدس وادی میں ہو، لہٰذا اپنے جوتے اتارلو۔
(فتح الباري: 640/1)
یہود نے اس حکم کو مطلق طور پر ممانعت پر محمول کیا جس کی بنا پر ان کے نزدیک کسی بھی صورت میں جوتوں سمیت نماز درست نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے یہود کی اس شدت کی اصلاح کرتے ہوئے مطلق جواز کو باقی رکھا اور فرمایا کہ یہود کی مخالفت کرو۔
اور جوتوں میں نماز پڑھو۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 652)
لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ جوتے پاک ہوں، کیونکہ ناپاکی کی صورت میں انھیں پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔
اگر انھیں نجاست لگی ہوتو دھونے کے بجائے صرف پاک مٹی سے صاف کر لینا ہی کافی ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ جوتوں سمیت نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک دوران نماز میں انھیں اتار دیا۔
آپ کی اتباع میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی جوتے اتار دیے۔
جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے جوتے اتارنے کی وجہ دریافت فرمائی۔
انھوں نے عرض کیا کہ ہم نے تو آپ کی اتباع میں اتارے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
مجھے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے بتایا تھا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے، اس لیے میں نے انھیں اتار دیا، لہٰذا تم میں سے جب کوئی نماز کے لیے مسجد میں آئے تو اپنے جوتوں کو دیکھ لے۔
اگر نجاست آلود ہوں تو انہیں صاف کرکے ان میں نماز پڑھ لے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 650)

جوتے پہن کر نمازپڑھنے کی رخصت ضرور ہے، لیکن اسے درجہ استحباب دے کر دید ہ دانستہ صاف ستھری مساجد میں جوتوں سمیت نماز ادا کرنے پر اصرار انتہا پسندی ہے۔
ہمارے بعض شدت پسند نوجوان اسے مردہ سنت خیال کرکے اس کے احیا کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس فکری غلطی کی اصلاح بہت ضروری ہے۔
شریعت نے اس عمل کو صرف جائز قراردیا ہے۔
بذات خود یہ مطلوب نہیں۔
صرف یہود کے عمل سے اختلاف ظاہر کرنے کی صورت میں اسے استحباب کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ یہ عمل رخصت ضرور ہے، لیکن اسے مستحب نہیں قراردیا جا سکتا، کیونکہ نماز کے لیے یہ عمل بذات خود مطلوب نہیں، جوتے پہننا اگرچہ ملا بس زینت سے ہے، لیکن زمین پر چلتے وقت ان کے نجاست آلود ہونے کی وجہ سے انھیں رتبہ مطلوب حاصل نہیں ہو سکا اور جب مصلحت تحسین اور ازالہ نجاست کا تعارض ہو تو ازالہ نجاست کی رعایت کرتے ہوئے انھیں جلب مصالح کے بجائے دفع مفاسد ہی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
ہاں اگر کوئی خاص دلیل آجائے جس کے پیش نظر اس کا تحمل راجح قرار پائے تو اس قیاس کا ترک صحیح ہو سکتا ہے۔
البتہ مخالفت یہود کے پیش نظر اسے استحباب پر محمول کیا جاسکتا ہے۔
بصورت دیگر یہ عمل صرف مباح اور جواز کی حد تک صحیح ہے۔
(فتح الباري: 640/1)
عہد نبوی میں مساجد کی حالت اور اس وقت کے جوتوں کی نوعیت اور ہمارے دور کی بودو باش اور طرز معاشرت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
امام بخاریؒ نے مستقل ایک عنوان قائم کیا کہ حالات و ظروف کے پیش نظر بعض اوقات اپنے کسی پسندیدہ عمل کو ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔
(صحیح البخاري، کتاب العلم، باب: 48)

حافظ ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں حضرت انس ؓ سے مرفوعاً ایک روایت نقل کی ہے کہ ﴿ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ کی تفسیر یہ ہے کہ جوتوں سمیت نماز پڑھو لیکن روایت ذکر کرنے کے بعد اس کی صحت کو محل نظر قراردیا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کی سند انتہائی کمزور ہے۔
(فتح الباري: 640/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 386