فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1383
´جمعہ کے لیے اچھا لباس پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (ریشم کا) ایک جوڑا (بکتے) دیکھا، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ اسے خرید لیتے، اور جمعہ کے دن، اور باہر کے وفود کے لیے جب وہ آپ سے ملنے آئیں پہنتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تو وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے کچھ جوڑے آئے، آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے اسے پہننے کے لیے دیا ہے حالانکہ عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے ایسا ایسا کہا تھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے یہ جوڑا تمہیں اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم خود پہنو“، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1383]
1383۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث سے بالواسطہ یہ پہلو نکلتا ہے کہ جمعے کے دن اچھا لباس (طاقت کے مطابق) پہننا چاہیے، اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مذکورہ مشورہ دیا تھا، آپ نے اس کی نفی نہیں فرمائی بلکہ اس لباس کو نہ خریدنے کی وجہ یہ بتلائی کہ وہ ریشمی ہے اور ریشمی لباس مردوں کے لیے حرام ہے۔
➋ ”جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کا لباس کافر لوگ پہنتے ہیں، مسلمان نہیں پہنتے، یعنی مسلمانوں کو ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے کیونکہ انہیں ریشمی لباس آخرت میں ملے گا۔
➌ ”مشرک بھائی“ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ماں کی طرف سے یا رضاعی بھائی تھا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1383
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1561
´عیدین کے لیے زیب و زینت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بازار میں موٹے ریشمی کپڑے کا ایک جوڑا (بکتے ہوئے) پایا، تو اسے لیا، اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اسے خرید لیں، اور عید کے لیے اور وفود سے ملتے وقت اسے پہنیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو گا، یا اسے تو وہی پہنے گا جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو گا“، تو عمر رضی اللہ عنہ ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس باریک ریشمی کپڑے کا ایک جبہ بھیجا، تو وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تھا کہ یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں، پھر آپ نے اسے میرے پاس بھیج دیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بیچ دو، اور اس سے اپنی ضرورت پوری کرو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1561]
1561۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جبہ نہیں خریدا اس کی وجہ اس کا ریشمی ہونا تھا، نہ کہ زیب و زینت ہونا، لہٰذا مصنف رحمہ اللہ کا باب پر اس روایت سے استدلال صحیح ہے۔
➋ جس چیز کا استعمال بعض افراد کے لیے جائز ہو اور بعض کے لیے ناجائز، اسے کسی کو بھی بطور تحفہ دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود استعمال نہ کرے گا تو دوسرے کو دے دے گا یا بیچ ڈالے گا۔ ایسی چیز کی تجارت بھی جائز ہے، جیسے ریشم وغیرہ، البتہ جو چیز مطلقاً حرام ہے وہ نہ کسی کو تحفے میں دی جا سکتی ہے اور نہ اس کی تجارت جائز ہے، جیسے شراب اور خنزیر وغیرہ۔
➌ ”یہ ان کا لباس ہے۔۔۔ الخ“ اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ ریشم پہنتے ہیں، مسلمان نہیں پہنتے بلکہ انہیں آخرت میں بطور اکرام ملے گا۔
➍ ”جوریشم پہنے، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں“ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کافر ہے کیونکہ ریشم پہننا گناہ ہے، کفر نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پر مؤاخذہ ہو سکتا ہے اگر اس نے توبہ نہ کی۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1561
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5297
´سیراء چادر پہننے کی ممانعت کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسجد کے دروازے کے پاس میں نے ایک ریشمی دھاری والا جوڑا بکتے دیکھا، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے جمعہ کے دن کے لیے اور اس وقت کے لیے جب آپ کے پاس وفود آئیں خرید لیتے (تو اچھا ہوتا) ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سب وہ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ پھر اس میں کے کئی جوڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو ان میں سے آپ نے ایک جوڑا مجھے دے دیا، میں نے کہا: الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5297]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تجمل اور خوبصورتی اختیار کرنا بالخصوص خاص موقعوں پر پسندیدہ ہے۔
(2) مسجد کے دروازے پر خرید وفروخت کرنا جائز ہے نیز فضلاء اور عظماء اہل علم اور نیک لوگوں کا منڈی میں جانا شرعاً درست ہے خواہ وہ خرید وفروخت کے لیے ہو یا ویسے ہی جائزہ لینے کے لیے ہو۔
(3) ریشمی کپڑا کا کاروبار جائز ہے۔
(4) کافر قرابت دار کےساتھ صلہ رحمی کرنا نیز اسے ہدیہ وغیرہ دینا بھی شرعاً جائز ہے۔ اس کا مقصد اگر تالیف قلب اور اسے اسلام کے قریب کرنا ہو تو یہ سونے پر سہاگا ہے۔
(5) ایسا حلہ دھاریوں کی وجہ سے ممنوع نہیں بلکہ ریشمی دھاریون کی وجہ سے ممنوع ہے۔
(6) ”کوئی حصہ نہیں“ مراد کفار ہیں یعنی اس قسم کے کپڑے تو کافر پہنتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جوشخص ایسے کپڑے پہنے گا وہ کافر بن جائے گا کیونکہ ریشم پہننا کبیرہ گناہ ضرور ہے کفر نہیں اور اگر ریشم پہننے سےمقصود دوسرے لوگوں کی تحقیر کرنا ہو یا ازراہ تکبر ریشم پہنا جائے تو گناہ کی قباحت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
(7) ”بھائی کو دے دیا“ جوچیز کچھ افراد کے لیے حلال ہو کچھ کے لیے حرام، اس کا لین دین، خرید وفروخت، تحفہ و عطیہ وغیرہ سب کچھ جائز ہے مثلاً: ریشم اور سونا وغیرہ البتہ جوچیز سب کےلیے حرام ہے اس کا کاروبار لین دین خرید وفروخت تحفہ عطیہ وغیرہ سب کچھ حرام ہے مثلا: شراب اوربت وغیرہ۔
(8) یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ریشم صرف مردوں کےلیے ناجائز اور حرام ہے عورتوں کو ہر قسم کا ریشم پہننے کی مطلقاً اجازت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5297
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5301
´استبرق نامی ریشم پہننا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نکلے تو دیکھا بازار میں استبرق کی چادر بک رہی ہے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! اسے خرید لیجئے اور اسے جمعہ کے دن اور جب کوئی وفد آپ کے پاس آئے تو پہنئے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو وہ پہنتے ہیں جن کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں ہوتا“، پھر آپ کے پاس تین چادریں لائی گئیں تو آپ نے ایک عمر رضی اللہ عنہ کو دی، ایک علی رضی اللہ عنہ کو اور ایک اسامہ رضی اللہ عنہ کو د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5301]
اردو حاشہ:
(1) ”اپنی عورتوں“ مراد صرف بیویاں نہیں بلکہ بیویاں، بہنیں، مائیں سب مراد ہیں۔
(2) ”استبراق“ ریشم کی ایک قسم ہے۔ یہ موٹا اور کھردرا سا ریشم ہوتا ہے۔ اس کو فارسی میں استر کہتے ہیں۔ اسی لفظ کو عربوں نے استبراق بنا دیا۔ ریشم میں سونے کی تاریں بنی جائیں تب بھی اسے استبراق کہہ دیتے ہیں۔
(3) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ باوجود انتہائی ذہین اور مجتہد ہونے کے نبی اکرم ﷺ کے مقصود کو نہ سمجھ سکے۔ ا س میں ان لوگوں کے لیے عبرت ہے جو بعض ائمہ کے استنباطات اور اجتہادات کو بلا چون وچرا قبول کرلیتے اور انہیں حدیث پر ترجیح دیتے ہیں کہ وہ بڑے فقیہ تھے اور حدیث کا راوی صحابی فقیہ نہیں۔ معاذاللہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5301
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5302
´استبرق نامی سبز اطلس قسم کے ریشمی کپڑے کا بیان۔`
یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ سالم نے پوچھا: استبرق کیا ہے؟ میں نے کہا: ایک قسم کا ریشم ہے جو سخت ہوتا ہے، وہ بولے: میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کے پاس ایک جوڑا سندس کا دیکھا، اسے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اسے خرید لیجئیے … پھر پوری روایت بیان کی۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5302]
اردو حاشہ:
”سندس“ باریک ریشم کو کہتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5302
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5308
´ریشم پہننے کی سخت ممانعت اور یہ بیان کہ اسے دنیا میں پہننے والا آخرت میں نہیں پہنے گا۔`
عمران بن حطان سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ریشم پہننے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ لو، چنانچہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو وہ بولیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھ لو، میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے کہا: مجھ سے ابوحفص (عمر) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5308]
اردو حاشہ:
(1) ”عمران بن حطان“ معتبر راوی ہیں۔ خارجی مذہب رکھتے تھے۔ بقول بعض بعد میں تائب ہو گئے۔ بالفرض تائب نہ بھی ہوئے ہوں تو بھی سچے آدمی کی بات معتبر ہونی ہے چاہے کسی عقیدے پر ہو بشرطیکہ اپنے مخصوص عقیدے کی حمایت میں بیان نہ کرے۔
(2) صحابہ کا سائل کو ایک دوسرے کے پاس بھیجنا اس حسن ظن کی بنا پر ہے کہ دوسرا صحابی مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور یہ حسن ظن علم کی دلیل ہے ورنہ علم پندار (غرور) بسا اوقات عالم کولے ڈوبتا ہے۔ أعاذنا اللہ منه.
(3) ”ابو حفص“ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے جو ان کی بڑی بیٹی حضرت حفصہ ؓ ام المومنین کی نسبت سے مشہور ہوئی۔ عرب میں کنیت سے ذکرکرنا احترام کی علامت ہوتا تھا۔
(4) ”کوئی حصہ نہیں“ یہ الفاظ بطور زجر و توبیح اور ڈانٹ کےہیں۔ ظاہر الفاظ مقصود نہیں ہوتے۔ دیگر احادیث اس تاویل کی تائید کرتی ہیں۔ کسی ایک حدیث کو باقی احادیث سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسئلے کے بارے میں آنے والی تمام روایات کوملا کر نتیجہ نکالاجاتا ہے۔ (مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے، احادیث:5297، 5306)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5308
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5309
´ریشم پہننے کی سخت ممانعت اور یہ بیان کہ اسے دنیا میں پہننے والا آخرت میں نہیں پہنے گا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حریر نامی ریشم تو وہی پہنتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5309]
اردو حاشہ:
دیکھیے، حدیث:5297۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5309
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1076
´جمعہ کے لباس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں، اسے پہنا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کچھ جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تو عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو“، چنانچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لیے دے دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1076]
1076۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ، عید اور خاص مواقع پر عمدہ لباس کا اہتمام مسنون و مستحب ہے۔
➋ ریشمی لباس مردوں کے لئے حرام مگر عورتوں کے لئے مباح ہے جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
➌ کافر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک اسلامی اخلاق و آداب کا حصہ ہے نیز ان کوتحفہ یا ہدیہ دینا بھی جائز ہے۔ جبکہ دینی قلبی محبت اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہی کا حق ہے۔
➍ ریشم فی نفسہ جائز اور حلال ہے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لئے اس کا استعمال بھی درست ہے۔ مردوں کے لئے حرمت کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جو صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی وارد ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري۔ حديث: 886، وصحيح مسلم، حديث: 2068]
یہ حدیث قرآن مقدس کی اس آیت کی مخصص ہے۔ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِه» [الأعراف: 32]
”اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! کہہ دیجیے جو زینت اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں وہ کس نے حرام کی ہیں؟“ اس سے معلوم ہوا کہ صحیح حدیث سے عموم قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ «والله أعلم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1076
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4040
´حریر (ریشم) پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک دھاری دار ریشمی جوڑا بکتا ہوا دیکھا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس کو خرید لیتے اور جمعہ کے روز اور وفود سے ملاقات کے وقت اسے زیب تن فرماتے (تو اچھا ہوتا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں“ پھر انہیں میں سے کچھ جوڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے اس میں سے ایک جوڑا عمر بن خطاب کو دیا، تو عمر کہنے لگے: اللہ کے رسول! یہ آپ مجھے پہنا رہے ہیں حالانکہ آپ عطارد کے جوڑوں کے سلسلہ میں ایسا ایس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4040]
فوائد ومسائل:
1: جمعہ، عید، استقبال وفود اور دیگر اہم تقریبات میں عمدہ لباس پہننا مستحب ہے۔
2: اصلی ریشم مردوں کے لے حرام ہے، مصنوعی ہو تو مباح ہے۔
3: کفار کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
4: ریشم اور سونا وغیرہ جو ایک اعتبارسے حلال اور دوسرے اعتبار سے حرام ہیں، ان چیزوں کا ہدیے میں لینا دینا اور تجارت کرنا حلال ہے۔
5غیر مسلم رشتہ داروں سے بھی صلہ رحمی کا معاملہ رکھنا چاہیے، مگر خالص محبت اہل ایمان کا ہی حق ہے۔
6: حضرت عمر رضی اللہ عنه کے اس بھائی کا نام عثمان بن حکیم آیا ہے جو ان کا ماں جایا بھائی تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4040
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5401
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کے دروازہ کے پاس ایک ریشمی دھاری دار جوڑا دیکھا تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اے کاش، آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن لوگوں کے لیے اور وفد کے لیے جب وہ آپ کے پاس آئیں پہن لیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو تو بس وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، یعنی کافر“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5401]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
حلة:
جوڑا،
تہبند اور چادر جب ایک ہی کپڑے کے ہوں۔
(2)
سيراء:
ریشمی دھاریوں والا،
اہل تحقیق اور ماہر عربی دان حلة سيراء کو مرکب اضافی پڑھتے ہیں،
اگرچہ امام قرطبی اور امام خطابی اس کو مرکب توصیغی حلة سيراء قرار دیتے ہیں۔
(3)
لا خلاق له:
اس کا کوئی حصہ نہیں ہے،
یعنی آخرت کو جسے یہ نصیب ہوگا،
کفر کی وجہ سے یا مسلمان ہونے کی صورت میں دنیا میں ہمیشہ پہننے کی وجہ سے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن اچھے اور عمدہ کپڑے زیب تن کرنا چاہیے اور وفود کے سامنے خوش پوشی کا اظہار ہو سکتا ہے،
نیز مسلمان اپنے کافر عزیز و اقارب کو تحفہ تحائف دے سکتا ہے اور ان سے حسن سلوک کر سکتا ہے اور مردوں کو ریشمی لباس تحفہ میں دیا جا سکتا ہے،
کیونکہ وہ اسے اپنی عورتوں کو پہنا سکتے ہیں،
یا بیچ سکتے ہیں،
کافر اگرچہ شوافع کے نزدیک احکام شرعیہ کے مکلف ہیں،
لیکن وہ اس کی پابندی نہیں کرتے،
اور اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے ہیں اور احناف کے نزدیک،
احکام شرعیہ کے مخاطب نہیں ہیں،
لیکن ایک مسلمان غلط کاموں میں ان کا تعاون نہیں کر سکتا،
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تحفہ خود پہننے کے لیے نہیں دیا تھا،
بلکہ اس لیے دیا تھا کہ وہ اپنی عورتوں میں سے کسی کو دے دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5401
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5403
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطارد تیمی کو دیکھا، بازار میں ایک ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت کر رہا ہے، وہ ایسا آدمی تھا، جو بادشاہوں کے پاس جاتا اور ان سے انعام پاتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے عطارد کو دیکھا ہے، وہ بازار میں ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت کرنا چاہتا ہے، اے کاش! آپ اسے خرید لیں اور عربی وفود جب آپ کے پاس آئیں تو اسے پہن لیں اور میرے خیال میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5403]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يقيم في السوق:
بازار میں بیچ رہا ہے۔
(2)
خمر:
خمار کی جمع ہے،
دوپٹہ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5403
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 886
886. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے خرید لیں تو اچھا ہے تاکہ جمعہ اور سفیروں کی آمد کے وقت اسے زیب تن فر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے تو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“ اس کے بعد کہیں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے ریشمی جوڑے آ گئے۔ ان میں سے آپ نے ایک جوڑا عمر ؓ کو بھی دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے، حالانکہ آپ خود ہی حلہ عطارد کے متعلق کچھ فرما چکے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ اس لیے نہیں دیا کہ اسے خود پہنو۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے مشرک بھائی کو پہنچا دیا جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:886]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
عطارد بن حاجب بن زرارہ تمیمی ؓ کپڑے کے بیوپاری یہ چادریں فروخت کر رہے تھے، اس لیے اس کو ان کی طرف منسوب کیا گیا یہ وفد بنی تمیم میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔
ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت شریف میں حضرت عمر ؓ نے جمعہ کے دن عمدہ کپڑے پہننے کی درخواست پیش کی آنحضرت ﷺ نے اس جوڑے کو اس لیے ناپسند فرمایا کہ وہ ریشمی تھا اور مرد کے لیے خالص ریشم کا استعمال کرنا حرام ہے۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے مشرک بھائی کو اسے بطور ہدیہ دے دیا اس سے معلوم ہوا کہ کافر مشرک جب تک اسلام قبول نہ کریں وہ فروعات اسلام کے مکلف نہیں ہوتے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے مشرک کافروں رشتہ داروں کے ساتھ احسان سلوک کرنا منع نہیں ہے بلکہ ممکن ہو تو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے تاکہ ان کو اسلام میں رغبت پیدا ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 886
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 948
948. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی جبہ لیا جو بازار میں فروخت ہو رہا تھا، پھر اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ عید کے دن اور وفود کی آمد کے وقت زیب تن فر کر خود کو آراستہ کیا کریں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ حضرت عمر ؓ، جس قدر اللہ کو منظور تھا، ٹھہرے رہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجا۔ حضرت عمر ؓ اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو فرمایا تھا: ”یہ ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ اس کے باوجود آپ نے یہ جبہ میرے ہاں بھیج دیا؟ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: ”اسے فروخت کر کے اپنی کوئی ضرورت پوری کر لو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:948]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ہے کہ آنحضور ﷺ سے حضرت عمر ؓ نے کہا کہ یہ جبہ آپ عید کے دن پہنا کیجئے اسی طرح وفود آتے رہتے ہیں ان سے ملاقات کے لیے بھی آپ اس کا استعمال کیجئے۔
لیکن وہ جبہ ریشمی تھا اس لیے آنحضرت ﷺ نے اس سے انکار فرمایا کہ ریشم مردوں کے لیے حرام ہے۔
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ عید کے دن جائز لباسوں کے ساتھ آرائش کرنی چاہیے اس سلسلے میں دوسری احادیث بھی آئی ہیں۔
مولانا وحید الزماں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ! اسلام کی بھی کیا عمدہ تعلیم ہے کہ مردوں کو جھوٹا موٹا سوتی اونی کپڑا کافی ہے ریشمی اور باریک کپڑے یہ عورتوں کو سزاوار ہیں۔
اسلام نے مسلمانوں کو مضبوط محنتی جفا کش سپاہی بننے کی تعلیم دی نہ عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار اور نازک بدن بننے کی۔
اسلام نے عیش وعشرت کا ناجائز اسباب مثلا نشہ شراب خوری وغیرہ بالکل بند کر دیا لیکن مسلمان اپنے پیغمبر کی تعلیم چھوڑ کر نشہ اور رنڈی بازی میں مشغول ہوئے اور عورتوں کی طرح چکن اور ململ اور گوٹا کناری کے کپڑے پہننے لگے۔
ہاتھوں میں کڑے اور پاؤں میں مہندی، آخر اللہ تعالیٰ نے ان سے حکومت چھین لی اور دوسری مردانہ قوم کو عطاءفرمائی ایسے زنانے مسلمانوں کو ڈوب مرنا چاہیے بے غیرت بے حیا کم بخت (وحیدی)
مولانا کا اشارہ ان مغل شہزادوں کی طرف ہے جو عیش وآرام میں پڑ کر زوال کاسبب بنے، آج کل مسلمانوں کے کالج زدہ نوجوانوں کا کیا حال ہے جو زنانہ بننے میں شاید مغل شہزادوں سے بھی آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جن کا حال یہ ہے نہ پڑھتے تو کھاتے سو طرح کما کروہ کھوئے گئے الٹے تعلیم پا کر
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 948
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2104
2104. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ریشمی جوڑا عنایت فرمایا۔ پھر ﷺ آپ نےانھیں وہ پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: " میں نے یہ تمھارے پاس اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تم اسے پہن لو بلکہ اسے تو وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کو ئی حصہ نہیں۔ میں نے صرف اس لیے بھیجا تھا کہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ یعنی اسے فروخت کرکے اپنی کوئی غرض پوری کرو۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2104]
حدیث حاشیہ:
بشرطیکہ دوسرا کوئی گو کافر ہی سہی اس سے فائدہ اٹھا سکے یعنی اس چیز کا بیچنا جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے درست نہیں ہے اور راجح قول یہی ہے۔
اب باب میں جو حدیت بیان کی اس میں ریشمی جوڑے کا ذکر ہے۔
وہ مردوں کے لیے مکروہ ہے۔
عورتوں کے لیے مکروہ نہیں ہے۔
اسماعیلی نے اس پر اعتراض کیا اورجواب یہ ہے کہ مردوں کے لیے جو چیز مکروہ ہے اس کے بیچنے کا جواز حدیث سے نکلتا ے تو عورتوں کے لیے جو مکروہ ہے اس کی بیع کا بھی جواز اس پر قیاس کرنے سے نکل آیا۔
یہ کہ ترجمہ باب میں کراہت سے عام مراد ہے تحریمی ہو یا تنزیہی اور ریشمی کپڑے گو عورتوں کے لیے حرام نہیں ہیں مگر تنزیہا ً مکروہ ہیں (وحیدی)
خصوصاً ایسے کپڑے جو آج کل وجود میں آرہے ہیں جن میں عورت کاسارا جسم بالکل عریاں نظر آتا ہے ایسے ہی کپڑے پہننے والی عورتیں ہیںجو قیامت کے دن ننگی اٹھائی جائیں گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2104
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2612
2612. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھاتو عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہی اچھا ہو اگرآپ اسےخرید لیں اور جمعے کے دن، نیز کسی وفد کی آمد کے موقع پر اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسے جوڑے تو وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“ پھر کچھ اور جوڑے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ یہ خلعت مجھے عنائیت فرما رہے ہیں، حالانکہ آپ نے حلہ عطارد کے متعلق تو جو کچھ فرماناتھا، فرماچکے ہیں۔ (یعنی آپ نے ان کے متعلق تو بہت سخت وعید سنائی تھی۔)آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے یہ خلعت تمھیں پہننے کے لیے نہیں دی۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2612]
حدیث حاشیہ:
عطارد بن حاجب بن زرارہ بن عدس بنی تمیم کا بھیجا ہوا ایک شخص تھا۔
پہلا جوڑا جس کے خریدنے کی حضرت عمر ؓ نے رائے دی تھی، وہی لایا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے ریشمی حلے کا ہدیہ حضرت عمر ؓ کو پیش فرمایا جس کا خود استعمال کرنا حضرت عمر ؓ کے لیے جائز نہ تھا۔
تفصیل معلوم کرنے کے بعد حضرت عمر ؓ نے وہ حلہ اپنے ایک غیرمسلم سگے بھائی کو دے دیا۔
اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اپنے عزیز اگر غیرمسلم یا بد دین ہیں تب بھی ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک کرنا چاہئے کیوں کہ یہ انسانیت کا تقاضا ہے۔
اور مقام انسانیت بہر حال ارفع و اعلیٰ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2612
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5981
5981. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ جمعہ کے دن اور وفود کی آمد پر اسے زیب تن کیا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے تو صرف وہ پہننا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس اس طرح کے کئی ریشمی جوڑے آئے تو آپ نے ایک جوڑا حضرت عمر بن خطاب ؓ کو بھیج دیا۔ انہوں نے کہا: میں اسے کیونکر پہن سکتا ہوں جبکہ آپ نے قبل ازیں اس کے متعلق فرمایا تھا وہ فرمایا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے یہ تمہیں پہننے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تم اسے بازار میں فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔“ چنانچہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ مکرمہ میں رہتا تھا، اور ابھی تک وہ مسلمان نہیں ہوا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5981]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو وہ حلہ بھیج دیا۔
اس سے باب کا مطلب نکلتا ہے کہ مشرک بھائی کے ساتھ بھی صلہ رحمی کی جا سکتی ہے۔
اسلام نیکی میں عمومیت کا سبق دیتا ہے جو اس کے دین فطرت ہونے کی دلیل ہے وہ جانوروں تک کے ساتھ بھی نیکی کی تعلیم دیتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5981
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6081
6081. حضرت یحیٰی بن ابی اسحاق سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت سالم بن عبداللہ نے پوچھا کہ استبرق کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: دیبا سے بنا ہوا موٹا اور خوبصورت کپڑا۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا انہوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک شخص کو استبرق کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا تو نبی ﷺ کی خدمت میں اسے لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں اور جب لوگوں کے وفد آپ کے پاس آئیں تو اسے زیب تن کر لیا کریں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے تو صرف وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ اس کے بعد کچھ مدت گزری تو نبی ﷺ نے خود انہیں ایک ریشمی جوڑا بھیجا چنانچہ وہ اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے یہ جوڑا میرے لیے بھیجا ہے حالانکہ چنانچہ آپ اسے کے متعلق جو ارشاد فرمانا تھا وہ فرما۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6081]
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6081
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2619
2619. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک شخص کو ریشمی حلہ فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: آپ اس حلے کو خرید لیں۔ تاکہ جمعے کے دن، نیز جب آپ کے پاس وفد آئے تو اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا لباس وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ پھر (ایسا ہوا) کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے چند حلے لائے گئے تو آپ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: میں اس کو کیونکر پہن سکتا ہوں جبکہ آپ نے اس کے متعلق جو کچھ فرمانا تھا، فر چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے یہ تمھیں پہننے کے لیے نہیں دیا۔ بلکہ تم اسے فروخت کر کے اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ یا کسی اور کو پہنادو۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ حلہ اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2619]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ مشرکین کو ہدیہ دیا بھی جاسکتا ہے۔
اسلام نے دنیاوی معاملات میں اپنوں اور غیروں کے ساتھ ہمیشہ رواداری و اشتراک باہمی کا ثبوت دیا ہے۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ سے عیاں ہے کہ مسلمان جس ملک میں گئے، تمدن اور معاشرت میں وہاں کی قوموں میں خلط ملط ہوگئے۔
جس زمین پر جاکر بسے اس کو گل و گلزار بنادیا۔
کاش! معاندین اسلام ان حقائق پر غور کریں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2619
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:886
886. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے خرید لیں تو اچھا ہے تاکہ جمعہ اور سفیروں کی آمد کے وقت اسے زیب تن فر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے تو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“ اس کے بعد کہیں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے ریشمی جوڑے آ گئے۔ ان میں سے آپ نے ایک جوڑا عمر ؓ کو بھی دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے، حالانکہ آپ خود ہی حلہ عطارد کے متعلق کچھ فرما چکے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ اس لیے نہیں دیا کہ اسے خود پہنو۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے مشرک بھائی کو پہنچا دیا جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:886]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی دھاری دار جوڑا خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ رسول اللہ ﷺ اسے جمعے کے دن زیب تن کیا کریں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن اچھا لباس پہننا رائج تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس خواہش پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔
چونکہ وہ ریشم کا تھا، اس لیے آپ اس کے خریدنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
دوسری حدیث سے جمعے کے دن اچھا لباس پہننے کی رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعے کے دن رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
”کتنا اچھا ہو اگر تم لوگ محنت و مزدوری کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے دو کپڑے اور خرید لو۔
“ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1078) (2)
حضرت عمر ؓ نے اپنے مادری بھائی عثمان بن حکیم کو ریشمی حلہ بطور تحفہ دیا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کافر و مشرک کو ریشمی لباس بطور ہدیہ دیا جا سکتا ہے، نیز اس سے پتہ چلتا ہے کہ کفار فروعی احکام کے مکلف نہیں ہیں۔
اس کے متعلق علمائے امت کے تین اقوال ہیں:
٭ کفار فروعی احکام کی ادائیگی و اعتقاد کے لحاظ سے مکلف ہیں اور انہیں قیامت کے دن ترک ایمان و عمل کی وجہ سے عذاب ہو گا۔
٭ فروعی مسائل کے اعتقاد اور ادائیگی کے لحاظ سے مخاطب نہیں ہیں۔
قیامت کے دن انہیں صرف ترک ایمان کی وجہ سے سزا دی جائے گی۔
٭ اعتقاد مخاطب ہیں، ادائیگی کے لحاظ سے مکلف نہیں ہیں۔
قیامت کے دن انہیں جو عذاب دیا جائے گا وہ ترک ایمان اور فروعات کے متعلق ترک اعتقاد کے باعث ہو گا۔
محدثین کے نزدیک کفار ایمان کے علاوہ فروعی مسائل کے بھی اداء و اعتقاد مکلف ہیں۔
(3)
اس حدیث میں ہے کہ ریشمی لباس پہننے والا قیامت کے دن اس سے محروم ہو گا۔
یہ محرومی اس اعتبار سے ہو گی کہ انہیں ریشمی لباس پہننے کا خیال تو آئے گا لیکن انہیں اس سے محروم ہونا پڑے گا، یعنی وہ اس کی خواہش نہیں کریں گے اور جنت میں ہر چیز ملنے کا وعدہ اہل جنت کی خواہش پر موقوف ہو گا، جس طرح اہل جنت اپنے سے اعلیٰ مراتب والوں کے مرتبہ و مقام کی طلب و خواہش نہیں کریں گے۔
قرآن پاک میں ہے:
﴿وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾ (حٰم السجدة: 31: 41)
”اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ)
ہے جو تمہارے جی چاہیں گے اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ)
ہے جو تم مانگو گے۔
“ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی محرومی کو بعض حضرات نے حقیقت پر محمول کیا ہے، خواہ انہوں نے توبہ ہی کیوں نہ کر لی ہو مگر اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر انسان توبہ کرنے کے بعد فوت ہو گا تو جنت میں اس قسم کی نعمتوں سے محروم نہیں رہے گا۔
(عمدة القاري: 29/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 886
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:948
948. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی جبہ لیا جو بازار میں فروخت ہو رہا تھا، پھر اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ عید کے دن اور وفود کی آمد کے وقت زیب تن فر کر خود کو آراستہ کیا کریں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ حضرت عمر ؓ، جس قدر اللہ کو منظور تھا، ٹھہرے رہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجا۔ حضرت عمر ؓ اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو فرمایا تھا: ”یہ ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ اس کے باوجود آپ نے یہ جبہ میرے ہاں بھیج دیا؟ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: ”اسے فروخت کر کے اپنی کوئی ضرورت پوری کر لو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:948]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ حضرت عمر ٍ نے ایک ریشمی جبہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تاکہ آپ عید کے دن زیب تن فرما کر خود کو آراستہ کریں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عیدین کے موقع پر اچھا لباس پہننا رائج تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کی اس خواہش پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔
چونکہ وہ ریشم کا تھا، اس لیے آپ اسے لینے پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ فرمایا کہ ایسا لباس وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
دوسری احادیث سے عیدین کے موقع پر بہترین لباس پہننے کے متعلق رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین اور جمعہ کے دین سرخ دھاری دار جوڑا زیب تن فرماتے تھے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 280/3)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی عیدین کے موقع پر بہترین لباس استعمال کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ عیدین کے دن بہترین لباس پہنا کرتے تھے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 281/3) (2)
امام بخاری ؒ نے کتاب الجمعة میں اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا تھا:
(باب يلبس أحسن ما يجد)
”جمعہ کے لیے حسب توفیق بہترین لباس پہننا“ لیکن کتاب العیدین میں اس حدیث پر جو عنوان قائم کیا ہے اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جمعہ کے دن نئے کپڑے ہونا ضروری نہیں بلکہ صاف ستھرے ہونے چاہئیں لیکن اگر عیدین کے موقع پر نیا لباس بنا لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
واضح رہے کہ کتاب الجمعة میں اس حدیث کے الفاظ تھے کہ اسے آپ جمعہ کے لیے زیب تن کیا کریں جبکہ اس روایت میں عیدین کے موقع پر پہننے کا ذکر ہے، وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے عیدین اور جمعہ سے متعلق دونوں الفاظ مروی ہیں، البتہ حضرت سالم نے عید کے الفاظ جبکہ حضرت نافع نے جمعہ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔
(فتح الباری: 567/2)
علامہ کرمانی ؒ نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ قصہ تو ایک ہی ہے، چونکہ جمعہ بھی اہل اسلام کے لیے عید کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے ان الفاظ میں کوئی تعارض نہیں۔
(عمدة القاري: 152/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 948
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2104
2104. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ریشمی جوڑا عنایت فرمایا۔ پھر ﷺ آپ نےانھیں وہ پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: " میں نے یہ تمھارے پاس اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تم اسے پہن لو بلکہ اسے تو وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کو ئی حصہ نہیں۔ میں نے صرف اس لیے بھیجا تھا کہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ یعنی اسے فروخت کرکے اپنی کوئی غرض پوری کرو۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2104]
حدیث حاشیہ:
اگر ایک چیز کا استعمال کسی شخص کے لیے مکروہ ہے لیکن کسی دوسرے کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے تو ایسی چیز کی خریدوفروخت جائز ہے۔
اور اگر شرعی طور پر قابل انتفاع نہیں تو اس کی خریدوفروخت جائز نہیں۔
مذکورہ حدیث میں ریشمی جوڑے کا ذکر ہے جس کا استعمال مردوں کے لیے مکروہ ہے،البتہ عورتوں کے لیے اس کا پہننا جائز ہے، اس لیے ریشمی جوڑوں کی خریدوفروخت جائز ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ ریشمی جوڑا اپنے مشرک بھائی کو دے دیا جو مکے میں رہتا تھا۔
(صحیح البخاری،الجمعۃ،حدیث: 886) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2104
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2612
2612. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھاتو عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہی اچھا ہو اگرآپ اسےخرید لیں اور جمعے کے دن، نیز کسی وفد کی آمد کے موقع پر اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسے جوڑے تو وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“ پھر کچھ اور جوڑے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ یہ خلعت مجھے عنائیت فرما رہے ہیں، حالانکہ آپ نے حلہ عطارد کے متعلق تو جو کچھ فرماناتھا، فرماچکے ہیں۔ (یعنی آپ نے ان کے متعلق تو بہت سخت وعید سنائی تھی۔)آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے یہ خلعت تمھیں پہننے کے لیے نہیں دی۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2612]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض چیزیں ذاتی طور پر مکروہ ہوتی ہیں، مثلاً:
سڑا ہوا یا باسی سالن وغیرہ، ایسی اشیاء کا تحفہ تو حماقت ہے اور کچھ چیزوں میں کراہت اضافی ہوتی ہے، مثلاً:
ریشمی لباس، یہ مردوں کے لیے جائز نہیں، البتہ عورتیں اسے پہن سکتی ہیں۔
ایسی اشیاء بطور تحفہ دی جا سکتی ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
کراہت سے مراد عام ہے، خواہ تحریمی ہو یا تنزیہی، یعنی جس لباس کا پہننا مردوں کے لیے ناجائز ہو اس کا ہدیہ جائز ہے کیونکہ اس کا مالک اس میں تصرف کر سکتا ہے، البتہ جن چیزوں کا استعمال مردوں اور عورتوں کے لیے منع ہے، مثلاً:
سونے چاندی کے برتن تو ایسا ہدیہ ممنوع ہے۔
(فتح الباري: 281/5) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق ان برتنوں کا استعمال ممنوع ہے، البتہ انہیں فروخت کر کے ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، لہذا ایسی چیز کا تحفہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے مشرک بھائی کو مکے میں تحفہ بھیجا تھا، البتہ جو چیزیں ذاتی طور پر حرام ہیں ان کا تحفہ بھی حرام ہے جیسا کہ آلات موسیقی کا تحفہ وغیرہ۔
اس سے معلوم ہوا کہ شادی بیاہ کے موقع پر ٹی وی کا تحفہ بھی ناجائز ہے جو ہم اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2612
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2619
2619. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک شخص کو ریشمی حلہ فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: آپ اس حلے کو خرید لیں۔ تاکہ جمعے کے دن، نیز جب آپ کے پاس وفد آئے تو اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا لباس وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ پھر (ایسا ہوا) کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے چند حلے لائے گئے تو آپ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: میں اس کو کیونکر پہن سکتا ہوں جبکہ آپ نے اس کے متعلق جو کچھ فرمانا تھا، فر چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے یہ تمھیں پہننے کے لیے نہیں دیا۔ بلکہ تم اسے فروخت کر کے اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ یا کسی اور کو پہنادو۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ حلہ اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2619]
حدیث حاشیہ:
(1)
حلہ، قمیص، چادر اور تہ بند پر مشتمل ہوتا ہے۔
اگر کسی چیز میں ذاتی برائی نہیں ہے تو وہ مطلق طور پر حرام نہیں ہوتی۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر مشرکین کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں تو انہیں تحفہ دینے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی حلہ اپنے مشرک اخیافی یا رضاعی بھائی کو بطور تحفہ بھیجا تاکہ اس میں اسلام کے متعلق کوئی رغبت پیدا ہو اور وہ کفر و شرک کی غلاظت سے پاک ہو جائے، چنانچہ روایات میں ہے کہ وہ اس کے بعد مسلمان ہو گیا تھا، اس کا نام عثمان بن حکیم اور اس کی ماں کا نام خیثمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا جو لعین ابو جہل کے چچا کی بیٹی تھی۔
(فتح الباري: 287/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2619
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3054
3054. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی جوڑا بازار میں فروخت ہوتا پایا تو وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ یہ جوڑا خریدلیں تاکہ عید اور وفودکی آمد پر اسے زیب تن کیا کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ لباس تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ یا (فرمایا:)”یہ تو وہی لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے جتنے دن چاہا حضرت عمر ؓ خاموش رہے آخر ایک دن نبی ﷺ نے ایک ریشمی جبہ حضرت عمر ؓ کے پاس بھیجا تو حضرت عمر ؓ اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ نے فرمایاتھا: "یہ ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا یا اسے وہ لوگ پہنتے ہیں۔ جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ "اس کے باوجود آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3054]
حدیث حاشیہ:
1۔
چادر اور تہبند پر مشتمل ریشمی لباس کو حلہ کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ریشمی ہونے کی وجہ سے اسے زیب تن کرنے سے کراہت کا اظہار کیا اور اس قسم کے لباس سے آرائش و زیبائش کو منع فرمایا:
اس سے ذاتی طور پر تجمل اور آراستہ ہونے کا جواز ثابت ہوا بصورت دیگر آپ اس سے بھی منع کر دیتے۔
2۔
اس سے معلوم ہوا کہ جمعۃ المبارک عیدین اور وفد وغیرہ کی آمد پر نفیس اور عمدہ لباس پہننا چاہیے نیز ریشمی لباس مردوں کے لیے منع ہے البتہ دوران جنگ میں یا خارش کی وجہ سے بوقت ضرورت پہنا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3054
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5841
5841. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک دھاری داد ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ وفود سے ملاقات کے وقت اور جمع کے دن اسے زیب تن کیا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ اس کے بعد خود نبی ﷺ نے ایک دھاری دار ریشمی جوڑا حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس بطور ہدیہ بھیجا حضرت عمر بن خطاب ؓنے عرض کیا: آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے حالانکہ میں خود آپ سے اس کے متعلق وہ بات سن چکا ہوں جو آپ نے فرمائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے تجھے یہ جوڑا اس لیے دیا ہے کہ تم اسے فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5841]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو ریشمی جوڑا ملا تھا وہ خالص ریشم کا تھا، اس میں سوت وغیرہ کی ملاوٹ نہ تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس قسم کے جوڑے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دھاری دار ریشمی جوڑے آئے تو آپ نے حضرت عمر، حضرت اسامہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو ایک ایک جوڑا دیا۔
(صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5403 (2068) (2)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کے لیے ریشمی لباس جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ اسے فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔
جب مردوں پر یہ حرام ہے تو اس کا مطلب صرف عورتوں کو پہنانے کا حکم ہے۔
اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:
”میں نے تجھے پہننے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے دیا تھا کہ تم اپنی عورتوں کو پہناؤ۔
“ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5420 (2071)
، و فتح الباري: 370/10)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5841
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5981
5981. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ جمعہ کے دن اور وفود کی آمد پر اسے زیب تن کیا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے تو صرف وہ پہننا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس اس طرح کے کئی ریشمی جوڑے آئے تو آپ نے ایک جوڑا حضرت عمر بن خطاب ؓ کو بھیج دیا۔ انہوں نے کہا: میں اسے کیونکر پہن سکتا ہوں جبکہ آپ نے قبل ازیں اس کے متعلق فرمایا تھا وہ فرمایا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے یہ تمہیں پہننے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تم اسے بازار میں فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔“ چنانچہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ مکرمہ میں رہتا تھا، اور ابھی تک وہ مسلمان نہیں ہوا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5981]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکے میں رہنے والا یہ بھائی عثمان بن حکیم ہے۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حقیقی بھائی نہیں بلکہ وہ ان کے مادر زاد بھائی حضرت زید بن خطاب کا بھائی تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ ریشمی جوڑا اپنے مشرک بھائی کو بھیج دیا تھا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی اپنے مشرک بھائی سے بھی کی جا سکتی ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کیا ہے۔
بہر حال اسلام ایک دین فطرت ہے اور اس میں جانوروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کی تلقین ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5981
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6081
6081. حضرت یحیٰی بن ابی اسحاق سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت سالم بن عبداللہ نے پوچھا کہ استبرق کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: دیبا سے بنا ہوا موٹا اور خوبصورت کپڑا۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا انہوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک شخص کو استبرق کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا تو نبی ﷺ کی خدمت میں اسے لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں اور جب لوگوں کے وفد آپ کے پاس آئیں تو اسے زیب تن کر لیا کریں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے تو صرف وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ اس کے بعد کچھ مدت گزری تو نبی ﷺ نے خود انہیں ایک ریشمی جوڑا بھیجا چنانچہ وہ اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے یہ جوڑا میرے لیے بھیجا ہے حالانکہ چنانچہ آپ اسے کے متعلق جو ارشاد فرمانا تھا وہ فرما۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6081]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کی بنیاد وہ الفاظ ہیں جو دوسری روایات میں آئے ہیں، کہ آپ اس ریشمی جوڑے کو خرید لیں تاکہ عید اور وفود کے آمد کے موقع پر خود اس سے آراستہ کر لیا کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کا انکار نہیں کیا، بلکہ یہ فرمایا:
اس قسم کےریشمی لباس تو وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا، مطلق طور پر وفد کی آمد پر زیبائش کا انکار نہیں کیا۔
علماء نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ وفود کی آمد پر نفیس تر لباس زیب تن کرنا چاہیے، اس سے انسان کا وقار واحترام دوبالا ہو جاتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6081