ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں یحییٰ بن عروہ بن زبیر نے، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے متعلق پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! بعض اوقات وہ ہمیں ایسی چیزیں بھی بتاتے ہیں جو صحیح ہو جاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمہ حق ہوتا ہے۔ اسے کاہن کسی جننی سے سن لیتا ہے وہ جننی اپنے دوست کاہن کے کان میں ڈال جاتا ہے اور پھر یہ کاہن اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر بیان کرتے ہیں۔ علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ عبدالرزاق اس کلمہ «تلك الكلمة من الحق» کو مرسلاً روایت کرتے تھے پھر انہوں نے کہا مجھ کو یہ خبر پہنچی کہ عبدالرزاق اس کے بعد اس کو مسنداً عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 5762]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5762
حدیث حاشیہ: قسطلانی نے کہا یہ کہانت یعنی شیطان جو آسمان پر جاکر فرشتوں کی بات اڑا لیتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے موقوف ہو گئی اب آسمان پر اتنا شدید پہرہ ہے کہ شیطان وہاں پھٹکے نہیں پاتے نہ اب ویسے کاہن موجودہیں جو شیطان سے تعلق رکھتے تھے ہمارے زمانے کے کاہن محض اٹکل پچو بات کرتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5762
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5762
حدیث حاشیہ: پہلے شیاطین آسمان پر جا کر فرشتوں کی بات اڑا لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کہانت کی یہ قسم موقوف ہو گئی۔ اب آسمان پر اتنا شدید پہرہ ہے کہ شیطان وہاں پھٹکنے نہیں پاتے۔ اب ایسے کاہن بھی موجود نہیں جو شیطان سے اس قسم کا تعلق رکھتے ہوں کہ وہ انہیں غیب کی خبریں بتائیں۔ اس دور کے نجومی اور کاہن محض اٹکل اور اندازے سے بات کرتے ہیں۔ اگر ان کی کوئی بات اتفاق سے صحیح نکل آئے تو اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے بلکہ اس کی پرزور تردید کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام الناس ان کے جال میں نہ پھنسیں اور غلط عقائد کا شکار نہ ہوں، ان کے علم کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ یہ لوگ گندے اور پلید رہنے کی وجہ سے جہالت میں غرق رہتے ہیں۔ واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5762
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7561
7561. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کچھ لوگوں نے نبی ﷺ سے کاہنوں کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ لوگ بعض اوقات ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ نبی ﷺ نے (وضاحت کرتے ہوئے) فرمایا: ”ان کی صحیح بات وہ ہوتی ہے جو شیطان، (فرشتوں سے سن کر) یاد کرلیتا ہے، پھر وہ مرغی کے کٹ کٹ کرنے کی طرح اپنے دوست (کاہن) کے کان میں ڈال دیتا ہے اور وہ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ بھی ملا دیتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7561]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ کاہن کبھی شیطان کے ذریعہ سےاللہ کا کلام اڑا لیتا ہے لیکن اس کا بیان کرنا یعنی تلاوت کرنا برا ہے منافق کی تلاوت کی طرح اسی طرح شیطان کا تلاوت کرنا حالانکہ فرشتے جو اس کلام کی تلاوت کرتے ہیں وہ اچھی ہے تو معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن سے مغائر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7561
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3210
3210. ام المومنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”فرشتے ابر (بادلوں) میں آتے ہیں اور اس کام کا ذکر کرتے ہیں جس کا فیصلہ آسمانوں میں ہوچکا ہوتا ہے تو شیاطین چپکے سے فرشتوں کی باتیں اڑالیتے ہیں اور کاہنوں کو بتادیتے ہیں اور وہ کم بخت سچی بات میں اپنی طرف سے جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ (پھر اسے اپنے مریدوں میں بیان کرتے ہیں)۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3210]
حدیث حاشیہ: 1۔ کاہن وہ ہوتا ہے جو کائنات کے اسرار و رموز کا دعویٰ کرے اور مستقبل کی خبریں دے۔ جب سے رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے ہیں آسمانوں پر سخت پہرا بٹھا دیاگیا ہے۔ اس بنا پر کہانت باطل ہے۔ 2۔ اس حدیث میں ان فنکاروں کی شعبدہ بازی سے پردہ اٹھاگیا گیا ہے جوآئے روز ضعیف الاعتقاد لوگوں کی گمراہی کا باعث بنتے ہیں، نیز اس میں قضا و قدر کے فرشتوں کا ذکر ہے جو کائنات میں اوامر الٰہیہ کو نافذ کرنے کے لیے زمین پر اترتے ہیں۔ اس سے صرف فرشتوں کا وجود ثابت کرنا مقصود ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3210
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6213
6213. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”وہ کوئی شے نہیں۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! بعض اوقات یہ کاہن ایسی باتیں بتاتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ باتیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں انہیں کوئی جن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے۔ پھر اپنے دوست کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے، پھر اس سچی بات کاہن سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6213]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہنوں کے متعلق فرمایا: وہ کچھ بھی نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی باتیں قابل اعتماد نہیں ہیں جیسا کہ ہم کسی بدکردار شخص کو کہتے ہیں کہ وہ انسان نہیں ہے۔ اس کے انسان ہونے کی نفی سے مراد ذات کی نفی نہیں بلکہ کردار کی نفی ہے، یعنی اس میں انسانیت نہیں ہے۔ اسی طرح ہم اس شخص کو کہتے ہیں جس نے مضبوط کام نہ کیا ہو، تو نے کچھ نہیں کیا، حالانکہ اس نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہوتا ہے۔ کام کی نفی سے مراد قابل اعتماد اور مضبوط کام کی نفی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6213
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7561
7561. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کچھ لوگوں نے نبی ﷺ سے کاہنوں کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ لوگ بعض اوقات ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ نبی ﷺ نے (وضاحت کرتے ہوئے) فرمایا: ”ان کی صحیح بات وہ ہوتی ہے جو شیطان، (فرشتوں سے سن کر) یاد کرلیتا ہے، پھر وہ مرغی کے کٹ کٹ کرنے کی طرح اپنے دوست (کاہن) کے کان میں ڈال دیتا ہے اور وہ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ بھی ملا دیتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7561]
حدیث حاشیہ: 1۔ کاہن زمانہ مستقبل کی خبریں دینے کا دعوی کرتے ہیں اور غیب جاننے کے مدعی ہوتے ہیں حدیث میں اس کی نفی مقصود ہے۔ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ کاہن کبھی شیطان نے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا کلام اڑا لیتا ہے لیکن اس کا بیان کرنا یعنی اسے تلاوت کرنا منافق کی طرح بہت برا ہے۔ اسی طرح شیاطین جب اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھ کر کاہن کے کان میں ڈالتے ہیں تو ان کا کردار انتہائی گھناؤنا ہوتا ہے جبکہ فرشتوں کی تلاوت بہت اچھی اور قابل تعریف ہے اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت بندوں کا فعل ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور تلاوت قرآن سے مختلف ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ منافق کی تلاوت بھی مومن کی تلاوت کی طرح ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے دونوں میں بہت فرق ہے حالانکہ متلو یعنی قرآن کریم تو ایک ہے۔ اگر تلاوت اور متلو، یعنی قرآن پاک ایک ہوتا تو اس قدر فرق نہ ہوتا۔ اسی طرح کاہن کا معاملہ ہے کہ شیاطین فرشتے سے اللہ تعالیٰ کا کلام چھین کر اسے سناتے ہیں اب فرشتے کے پڑھنے میں بہت فرق ہے اس اعتبار سے بھی تلاوت اور قرآن دو مختلف حقیقتیں ہیں۔ (فتح الباري: 668/13، 669) ہم اس بات کو ذرا آگے بڑھاتے ہیں کہ مذکورہ فرق اس امر کی دلیل ہے کہ تلاوت کرنا ان کا ایک عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7561