ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”چھوت لگ جانے کی کوئی اصل نہیں اور نہ بدشگونی کی کوئی اصل ہے اور مجھے اچھی فال پسند ہے۔“ یعنی کوئی کلمہ خیر اور نیک بات جو کسی کے منہ سے سنی جائے (جیسا کہ اوپر بیان ہوا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 5756]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5756
حدیث حاشیہ: حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بد شگونی کا ذکر آیا توآپ نے فرمایا کہ فَإذا رَأى أحَدُكُمْ ما يَكْرَه فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ لا يَأتي بالحَسَناتِ إلا أنتَ، وَلا يَدْفَعُ السَّيِّئاتِ إلا أنْتَ، وَلا حوْلَ وَلا قُوَّةَ إلا بِكَ (فتح) یعنی اگر تم میں سے کوئی ایسی مکروہ چیز دیکھے تو کہے یا اللہ! تمام بھلائیاں لانے والا تو ہی ہے اور برائیوں کا دفع کرنے والا بھی تیرے سوا کوئی نہیں ہے گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت اور ان کا سر چشمہ اے اللہ! تو ہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5756
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5756
حدیث حاشیہ: (1) بدشگونی کو اس لیے بے اصل قرار دیا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے متعلق بدگمانی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتماد اٹھ جاتا ہے اور اچھی فال سے اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن پیدا ہوتا ہے جس کا ایک مومن کو حکم دیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ضرورت کے لیے نکلتے تو آپ کو یہ امر پسند ہوتا تھا کہ آپ يا راشد اور يا نجيح کے الفاظ سنیں۔ (جامع الترمذي، السیر، حدیث: 1616)(2) اسی طرح بیمار آدمی جب سلامتی اور تندرستی کا سنے تو خوش ہوتا ہے، نیز لڑائی کے لیے جانے والا شخص راستے میں کسی ایسے شخص سے ملے جس کا نام فتح خاں ہو، اس سے اچھی فال لی جا سکتی ہے کہ اس جنگ میں ہماری فتح ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے طبعی طور پر انسان کے دل میں اچھی چیز کی محبت پیدا کی ہے جیسا کہ اچھی چیز دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور صاف پانی دیکھ کر سرور آتا ہے اگرچہ اسے پینے یا استعمال کرنے کی ہمت نہ ہو۔ (3) بہرحال جائز فال صرف اسی قدر ہے کہ قصد و ارادے کے بغیر کوئی اچھا لفظ کان میں پڑ جائے تو انسان اسے سن کر اللہ تعالیٰ سے اچھی امید وابستہ کرے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5756
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3915
´بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، اور نہ بد شگونی کوئی چیز ہے، اور فال نیک سے مجھے خوشی ہوتی ہے اور فال نیک بھلی بات ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3915]
فوائد ومسائل: نیک فال جیسے کہ نبی ﷺ نے صلح حدیبیہ کے مو قع پر اہلِ مکہ کے نمائیدہ سہیل بن عمرو کی آمد پر فرمایا تھا، اب تمھارا معاملہ سہل ہو گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث2732-2731)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3915
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3537
´نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوت چھات اور بدشگونی کوئی چیز نہیں، اور میں فال نیک کو پسند کرتا ہوں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3537]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) اہل عرب کسی کام کے لئے جاتے تو راستے میں بیٹھے ہوئے کسی پرندے یا ہرن وغیرہ کو کنکر مارتے اور وہ دیکھتے کہ وہ کس طرف جاتا ہے۔ اگر وہ دایئں طرف جاتا ہے تو کہتے کام ہوجائے گا۔ اگر بایئں طرف جاتا تو کہتے یہ کام نہیں ہوگا۔ یا اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اور کام کئے بغیر واپس ہوجاتے۔
(2) اس انداز سے فال لیناشرعا منع ہے۔
(3) ہندسوں اور حرفوں پر انگلی رکھنا، طوطے سے فال نکلوانا اور ااس قسم کے مختلف طریقوں سے فال نکالنا سب منع ہے۔
(4) جائز فال صرف اس قدر ہے کہ بلا ارادہ کوئی اچھا لفظ کان میں پڑے اور انسان اس کی وجہ یہ امید رکھے کہ اللہ مجھے میرے مقصد میں کامیاب کردے گا۔ اس میں سننے والے کے قصد و ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3537
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1615
´بدشگونی اور بدفالی کا بیان۔` انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جانے اور بدفالی و بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۱؎ اور مجھ کو فال نیک پسند ہے“، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! فال نیک کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اچھی بات۔“[سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1615]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: چھوت چھات یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی، بلکہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر پرہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1615
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5776
5776. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”چھوت لگنا کوئی چیز نہیں اور بد شگونی کی بھی کوئی حیثیت نہیں البتہ نیک فال مجھے پسند ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: نیک فال کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کسی سے اچھی بات کہنا یا سننا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5776]
حدیث حاشیہ: کوئی کلمہ خیر سن پانا جس سے کسی خیر کو مراد لیا جاسکتا ہو یہ نیک فالی ہے جس کی ممانعت نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5776
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5776
5776. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”چھوت لگنا کوئی چیز نہیں اور بد شگونی کی بھی کوئی حیثیت نہیں البتہ نیک فال مجھے پسند ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: نیک فال کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کسی سے اچھی بات کہنا یا سننا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5776]
حدیث حاشیہ: شریعت نے مطلق طور پر متعدی امراض کی نفی کی ہے اگرچہ اطباء حضرات اسے نہیں مانتے، بلکہ اس کی عقلی طور پر مختلف توجیہیں کرتے ہیں کہ بیماری جراثیم کے ذریعے سے پھیلتی ہے لیکن یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جراثیم کا اثر بھی اس وقت ہوتا ہے جب جسم میں موجود قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے، گویا اصل سبب جراثیم کا وجود نہیں بلکہ جسم کے حفاظتی نظام کی کمزوری ہے۔ یہ حضرات کان کو الٹی جانب سے پکڑتے ہیں۔ خاموشی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی حقیقت کو تسلیم کریں اور اسے اپنے دل میں جگہ دیں۔ اسی میں عافیت ہے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5776