ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز دیر سے پڑھی۔ یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک باہر تشریف نہیں لائے جب تک عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہ فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 566]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 566
� تشریح: یعنی اس وقت تک مدینہ کے سوا اور کہیں مسلمان نہ تھے، یا یہ کہ ایسی شان والی نماز کے انتظار کا ثواب اللہ نے صرف امت محمدیہ ہی کی قسمت میں رکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 566
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:566
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس روایت سے نماز عشاء کے متعلق کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہوتی،البتہ انتظار عشاء کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ اس صورت میں مضاف حذف ہوگا، یعنی عنوان میں نماز عشاء کی فضیلت کے بجائے نماز عشاءکے انتظار کی فضیلت ہونا چاہیے۔ (فتح الباري: 67/2) واضح رہے کہ انتظار کی فضیلت بیان کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے آئندہ ایک مستقل عنوان قائم کیا ہےکہ جو شخص مسجد میں نماز کے انتطار میں بیٹھا رہتا ہے۔ (الأذان، باب: 36) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ حسب ارشاد نبوی یہ وقت اس امت کے ساتھ مخصوص ہے، لہٰذا یہی نماز عشاء کی فضیلت ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ انتطار مسجد نبوی میں نماز پڑھنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ مخصوص ہو کیونکہ یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا اور مدینے میں چند ایک مقامات پر نماز پڑھی جاتی تھی اور وہ شفق غائب ہونے کے بعد اول وقت میں پڑھ کرسوجاتے تھے، لیکن عنوان کے ساتھ پہلی توجیہ زیادہ موزوں ہے۔ (شرح تراجم بخاري) علاوہ ازیں انتظار کی فضیلت تو ہر ایک نماز کے لیے ہے، اس میں نماز عشاء کی الگ کوئی خصوصیت نہیں۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”روئے زمین پر تمھارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کررہا۔ “ اس حصر کے متعلق مختلف توجیہات حسب ذیل ہیں: ٭ یہ حصر اہل کتاب کے اعتبار سے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تم ایسی نماز کے منتظر ہوکہ تمھارے علاوہ اور کسی دین والے اس کے منتظر نہیں ہیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1446(639) ٭یہ حصر مدینہ منورہ کے اطراف کے اعتبار سے ہے، کیونکہ مکہ مکرمہ میں لوگ چھپ کر نمازیں پڑھتے تھے اور مدینے کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی اسلام پھیلا نہیں تھا، یعنی اس مخصوص ہیئت کے ساتھ صرف مدینہ منورہ میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ ٭یہ حصر مسجد نبوی اعتبار سے ہے کہ دوسری مساجد میں نماز عشاء بلاتاخیر اول وقت میں ہوجاتی تھی، صرف مسجد نبوی میں مخصوص حالات کے پیش نظر تاخیر سے ادا کی جاتی تھی۔ (3) ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء کے لیے غیر معمولی تاخیر فرمائی تو حضرت عمر ؓ بآواز بلند کہنے لگے کہ نماز کےلیے جو بچے اور عورتیں حاضر ہیں انھیں نیند آنے لگی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ انداز پسند نہ آیا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ تمھیں رسول اللہ ﷺ سے اس طرح اصرار نہیں کرنا چاہیے، گویا تاخیر کسی مجبوری یا مصلحت کی بنا پر تھی۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1443(638) الغرض اس نماز کی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر مسلمانوں کو اس نماز سے مشرف فرمایا ہے، اس کا وقت بڑا وسیع ہے، مصروفیات سے فراغت اور خلوت کے خصوصی مواقع میسر فرمائے ہیں، گویا اہل اسلام کی خصوصیت اور ان کی امتیازی علامت ہے، اس لیے انھیں اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 566
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 536
´عشاء کے اخیر وقت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء میں تاخیر کی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، اور فرمایا: ”تمہارے سوا اس نماز کا کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے“۱؎، اور (اس وقت) صرف مدینہ ہی میں نماز پڑھی جا رہی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے شفق غائب ہونے سے لے کر تہائی رات تک پڑھو۔“ اور اس حدیث کے الفاظ ابن حمیر کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 536]
536 ۔ اردو حاشیہ: ➊عشاء کا افضل وقت تہائی رات، وقتِ جواز نصف رات اور وقت اضطرار طلوع فجر تک رہتا ہے۔ (مزید فوائد کے لیے دیکھیے حدیث نمبر: 483، 528، 532) ➋چھوٹا بڑے کو کسی کام پر تنبیہ کر سکتا ہے۔ ➌صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس قدر شوق سے جماعت میں حاضر ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے بچے بھی باجماعت نماز کے لیے حاضر ہوتے۔ یہ چیز ان کی اعمال صالحہ پر شدید حرص اور اشتیاق پر دلالت کرتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 536