ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے اور ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ میں ہم قربانی کے گوشت میں نمک لگا کر رکھ دیتے تھے اور پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی پیش کرتے تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھایا کرو۔ یہ حکم ضروری نہیں تھا بلکہ آپ کا منشا یہ تھا کہ ہم قربانی کا گوشت (ان لوگوں کو بھی جن کے یہاں قربانی نہ ہوئی ہو) کھلائیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5570]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5570
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عابس بن ربیعہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع فرمایا تھا؟ تو آپ نے فرمایا: ”صرف ایک سال یہ پابندی عائد کی تھی، جب قحط کی وجہ سے لوگوں میں بھوک نے ڈیرے ڈال دیے تھے تو آپ نے چاہا کہ مال دار لوگ، غریبوں کو کھلائیں اور ان کی مشقت میں ان کا تعاون کریں۔ “(صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5423) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے غریب لوگوں کی غربت کی وجہ سے تین دن سے زیادہ گوشت کھانے سے منع کیا تھا جو تمہارے پاس محتاج بن کر آئے تھے، اب کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ بھی کرو۔ “(صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 5103 (1971) اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنے والا خود بھی کھائے، دوستوں کو ہدیہ بھی دے اور غریبوں کو بھی کھلائے۔ (فتح الباري: 34/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5570
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 349
´قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھایا جا سکتا ہے` «. . . 309- وعن عبد الله بن أبى بكر عن عبد الله بن واقد أنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أكل لحوم الضحايا بعد ثلاث، فقال عبد الله بن أبى بكر: فذكرت ذلك لعمرة بنت عبد الرحمن فقالت: صدق، سمعت عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم تقول: دف ناس من أهل البادية حضرة الأضحى فى زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ادخروا الثلاث وتصدقوا بما بقي“، قالت: فلما كان بعد ذلك، قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، لقد كان الناس ينتفعون بضحاياهم ويجملون منها الودك ويتخذون منها الأسقية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”وما ذاك؟“، أو كما قال، قالوا: يا رسول الله، نهيت عن إمساك لحوم الضحايا بعد ثلاث، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إنما نهيتكم من أجل الدافة التى دفت عليكم، فكلوا وتصدقوا وادخروا.“ . . .» ”. . . عبداللہ بن واقد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع فرمایا، عبداللہ بن ابی بکر (راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ پھر میں نے اس بات کا ذکر عمرہ بنت عبدالرحمٰن (رحمہا اللہ) سے کیا تو انہوں نے کہا: اُس (عبداللہ بن واقد) نے سچ کہا:، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کے وقت کچھ (خانہ بدوش) لوگ مدینہ آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن (گوشت کا) ذخیرہ کرو اور باقی صدقہ کر دو۔“ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: یا رسول اللہ! لوگ اپنی قربانیوں سے فائدہ اٹھاتے تھے، چربی پگھلاتے اور (کھالوں کی) مشکیں بناتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے تین دنوں سے زیادہ قربانیوں کا گوشت روکے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں ان لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو تمہارے پاس (مدینہ میں) آئے تھے۔ پس (اب) کھاؤ، صدقہ کرو اور ذخیرہ کرو . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 349]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1971، من حديث مالك به ● وفي روايته يحيي بن يحيي: ”للثلاث“] ۔ تفقه ➊ علماء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تین دنوں سے زیادہ، قربانی کا گوشت کھانے اور ذخیر کرنے سے ممانعت والا حکم منسوخ ہے دیکھئے [التمهيد 216/3] ۔ ➋ حافظ ابن عبد البر نے فرمایا کہ جس طرح قرآن میں ناسخ و منسوخ ہے اسی طرح حدیث میں بھی ناسخ و منسوخ ہے اور یہ اوامر ونواہی (احکام) میں تخفیف و مصالح وغیرہما کے لئے ہوتا ہے۔ اخبار سابقہ میں قطعاً نسخ نہیں ہوتا۔ روافض اور خوارج نے اس کا انکار کرکے یہود کی موافقت کی ہے اور یاد رہے کہ یہ بدأ کہتے ہیں یہ عقیدہ صریحاً کفر ہے۔ ➌ ممانعت کے بعد جو حکم ہوتا ہے وہ اباحت پر محمول ہوتا ہے۔ [التمهيد 217/3] لہٰذا اب یہ جائز ہے کہ ساری قربانی کا گوشت خود کھایا جائے یا سارا صدقہ کر دیا جائے یا پھر ذخیرہ کرلیا جائے۔ بعض علماء اس گوشت کے تین حصے کرنا پسند کرتے تے: ایک تہائی خود کھایا جائے، ایک تہائی صدقہ کردیا جائے اور ایک تہائی ذخیرہ کرلیا جائے لیکن پہلی بات راجح ہے۔ نیز دیکھئے [سورة الحج: 28، 36] ➍ حج کے علاہ دوسرے مقامات مثلاً مدینہ اور ساری زمین پر قربانی کرنا مسنون و مشروع ہے لہٰذ بعض منکرین حدیث کا یہ دعویٰ کہ قربانی حج کے ساتھ مخصوص ہے، غلط ہے۔ ➎ بات کی تصدیق یا تحقیق کے لئے کسی دوسرے کے سامنے بیان کرنا نہ صرف جائز بلکہ بہتر امر ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 309
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4436
´قربانی کے گوشت کی ذخیرہ اندوزی کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اعرابیوں (دیہاتیوں) کی ایک جماعت عید الاضحی کے دن مدینے آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ اور تین دن تک ذخیرہ کر کے رکھو“، اس کے بعد لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! لوگ اپنی قربانی سے فائدہ اٹھاتے تھے، ان کی چربی اٹھا کر رکھ لیتے اور ان کی کھالوں سے مشکیں بناتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تو اب کیا ہوا؟“ وہ بولا: جو آپ نے قربانی کے گوشت جمع کر کے رکھنے سے روک دیا، آپ نے فرمایا: ”میں [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4436]
اردو حاشہ: گویا پہلے سال آپ کا روکنا مخصوص حالات کی وجہ سے تھا جو اس قافلے کی آمد سے پیدا ہوئے تھے ورنہ اصولی طور پر قربانی کی ہر چیز، مثلاً: گوشت، چربی اور چمڑے وغیرہ سے دیر تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، البتہ فقراء اور سائلین کو دینا بھی ضروری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4436
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1570
´قبروں کی زیارت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1570]
اردو حاشہ: فائده: اجازت کا لفظ اسی لئے فرمایا ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے پہلے قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا بعد میں اجازت دے دی جیسے کہ اگلی حدیث میں آرہا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1570
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5103
عبداللہ بن واقد نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا، (ابن واقد کے شاگرد) عبداللہ بن ابی بکر کہتے ہیں، میں نے اس حدیث کا تذکرہ حضرت عمرہ سے کیا، تو اس نے کہا، اس نے سچ کہا، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بیان کرتے سنا، عید الاضحیٰ کے دن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کچھ بادیہ نشین گھرانے آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن کے لیے ذخیرہ کر لو اور باقی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5103]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: الدافة: شہر میں آنے والی بادیہ نشین جماعت۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ممانعت کا حکم قانونی حکم نہیں تھا، یہ تو محض ایک وقتی اور عارضی ضرورت کے تحت اس مصلحت کی خاطر تھا کہ باہر سے آنے والے ضرورتمندوں کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے، اس لیے آپ نے صحابہ کرام کے اس سوال پر کہ ہم قربانیوں سے مشکیں بناتے تھے اور چربی پگھلاتے تھے، تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، ”ما ذاك“ اب اس میں کیا حرج ہے یا پھر کیا ہوا، اس لیے یہاں نسخ کا سوال نہیں ہے، کیونکہ یہ فقہی یا قانونی حکم نہیں تھا، ایک وقتی مصلحت کا تقاضا تھا اور اب بھی یہ مصلحت ہو، کسی علاقہ یا شہر اور بستی میں قربانیوں کی تعداد کم ہو اور محتاج و ضرورت مند زیادہ ہوں، تو اب بھی لوگوں کا اخلاقی فرض یہی ہو گا کہ زیادہ سے زیادہ گوشت صدقہ کیا جائے، جمہور کے نزدیک صدقہ کرنے کا حکم استحبابی ہے، جیسا کہ کھانے کا حکم استحبابی ہے، اگرچہ بعض ائمہ کے نزدیک قربانی کے گوشت کا کچھ حصہ صدقہ کرنا فرض ہے اور کھانا بھی فرض ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5103
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5423
5423. سیدنا عابس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: صرف ایک سال منع تھا جس سال لوگ (قحط کے سبب) بھوکے تھے۔ آپ ﷺ نے ارادہ کیا کہ مال دار لوگ غریبوں کو گوشت کھلا دیں۔ ہم پائے رکھ لیتے تھے اور انہیں پندرہ دن کے بعد کھاتے تھے ان سے دریافت کیا گیا ایسا کرنے میں کیا مجبوری تھی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سوال پر ہنس پڑیں اور فرمایا کہ سیدنا محمد ﷺ کی آل اولاد نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی مسلسل تین دن تک کبھی نہیں کھائی تھی حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔ ابن کثیر نے کہا: ہمیں سفیان نے بتایا کہ ان سے عبدالرحمن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5423]
حدیث حاشیہ: اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ غرض ہے کہ سفیان کا سماع عبدالرحمن سے ثابت ہو جائے۔ ابن کثیر کی روایت کو طبرانی نے وصل کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5423
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5423
5423. سیدنا عابس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: صرف ایک سال منع تھا جس سال لوگ (قحط کے سبب) بھوکے تھے۔ آپ ﷺ نے ارادہ کیا کہ مال دار لوگ غریبوں کو گوشت کھلا دیں۔ ہم پائے رکھ لیتے تھے اور انہیں پندرہ دن کے بعد کھاتے تھے ان سے دریافت کیا گیا ایسا کرنے میں کیا مجبوری تھی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سوال پر ہنس پڑیں اور فرمایا کہ سیدنا محمد ﷺ کی آل اولاد نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی مسلسل تین دن تک کبھی نہیں کھائی تھی حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔ ابن کثیر نے کہا: ہمیں سفیان نے بتایا کہ ان سے عبدالرحمن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5423]
حدیث حاشیہ: (1) طعام سے ہر وہ چیز مراد ہے جو کھائی جاتی ہو۔ اس حدیث میں پائے ذخیرہ کرنے کا بیان ہے۔ (2) عنوان سے مناسبت واضح ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ تھا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا تاکہ مال دار لوگ غرباء و مساکین کو گوشت کھلائیں۔ اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ (3) سائل کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہنس پڑنا بطور تعجب تھا کہ آل رسول کی معیشت میں وسعت نہ تھی اور کئی کئی روز فاقے سے گزر جاتے تو مجبوری کا سبب دریافت باعث تعجب ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5423