ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی ہو وہ دوبارہ قربانی کرے۔ اس پر ایک صحابی اٹھے اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) اس دن گوشت کی لوگوں کو خواہش زیادہ ہوتی ہے پھر انہوں نے اپنے پڑوسیوں کی محتاجی کا ذکر کیا جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر قبول کر لیا ہو (انہوں نے یہ بھی کہا کہ) میرے پاس ایک سال کا ایک بچہ ہے اور بکریوں سے بھی اچھا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کے قربانی کی اجازت دے دی لیکن مجھے اس کا علم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کو بھی تھی یا نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کی مراد یہ تھی کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کیا پھر لوگ بکریوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ذبح کیا۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5561]
من ذبح قبل الصلاة فليعد فقال رجل هذا يوم يشتهى فيه اللحم وذكر هنة من جيرانه فكأن النبي عذره وعندي جذعة خير من شاتين فرخص له النبي فلا أدري بلغت الرخصة أم لا ثم انكفأ إلى كبشين يعني فذبحهما ثم انكفأ الناس إلى غنيمة فذب
من ذبح قبل الصلاة فليعد فقام رجل فقال هذا يوم يشتهى فيه اللحم وذكر من جيرانه فكأن النبي صدقه قال وعندي جذعة أحب إلي من شاتي لحم فرخص له النبي فلا أدري أبلغت الرخصة من سواه أم لا
من كان ذبح قبل الصلاة فليعد فقام رجل فقال يا رسول الله إن هذا يوم يشتهى فيه اللحم وذكر جيرانه وعندي جذعة خير من شاتي لحم فرخص له في ذلك فلا أدري بلغت الرخصة من سواه أم لا ثم انكفأ النبي إلى كبشين فذبحهما وقام الناس إلى غنيمة فتوزعوها أو
من كان ذبح قبل الصلاة فليعد فقام رجل فقال يا رسول الله هذا يوم يشتهى فيه اللحم وذكر هنة من جيرانه كأن رسول الله صدقه قال وعندي جذعة هي أحب إلي من شاتي لحم أفأذبحها قال فرخص له فقال لا أدري أبلغت رخصته من سواه أم لا قال وانكفأ رسول الله
من كان ذبح قبل الصلاة فليعد فقام رجل فقال يا رسول الله هذا يوم يشتهى فيه اللحم فذكر هنة من جيرانه كأن رسول الله صدقه قال عندي جذعة هي أحب إلي من شاتي لحم فرخص له فلا أدري أبلغت رخصته من سواه أم لا ثم انكفأ إلى كبشين فذبحهما
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5561
حدیث حاشیہ: جذعۃ پانچواں سال میں جو اونٹ لگا ہو اور دوسرے برس میں جو گائے بکری لگی ہو بھیڑ جو برس بھر کی ہو گئی ہو آٹھ ماہ کی بھیڑ بھی جذعة ہے۔ (لغات الحدیث)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5561
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4401
´امام سے پہلے قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہے، اسے چاہیئے کہ پھر سے قربانی کرے“، ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ جس میں ہر ایک کی گوشت کی خواہش ہوتی ہے، اور پھر انہوں نے پڑوسیوں کا حال بیان کیا، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی۔ انہوں نے کہا: میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے زیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4401]
اردو حاشہ: (1) عنوان کے ساتھ حدیث کی مناسبت بظاہر تو معلوم نہیں ہوتی۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے غالباََ رسول اللہ ﷺ کے فرمان: [مَن ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاةِ، فليُعِدِ ]”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی، وہ دوبارہ قربانی ذبح کرے۔“ کو امام کے ذبح کرنے پر محمول کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور بعض دیگر اہل علم کا یہی قول ہے۔ لیکن راجح بات یہی ہے کہ امام کے ذبح کرنے سے پہلے بھی قربانی ذبح کی جا سکتی ہے بشر طیکہ نماز عید کے بعد ہو۔ ظاہراََ تو حدیث مبارکہ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ والله أعلم (2) افضل یہ ہے کہ انسان اپنی قربانی کا جانور خود، اپنے ہاتھوں ہی سے ذبح کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں مینڈھے خود ہی ذبح کیے تھے۔ اس پراجماع ہے، تاہم اگر کوئی دوسرا شخص بھی ذبح کر دے تو قربانی جائز ہوگی۔ (3) پورے گھرانے کی طرف ایک جانور(بھیڑ، بکری، چھترا، چھتری اور مینڈھے وغیرہ) قربانی کفایت کر جاتی ہے، تا ہم دو یا زیادہ جانور ذبح کرنا افضل اور پسندیدہ عمل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4401
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3151
´نماز عید سے پہلے قربانی کی ممانعت۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے قربانی کے دن قربانی کر لی یعنی نماز عید سے پہلے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3151]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نماز سے مراد عید کی نماز ہے۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانھوں نے فرمایا: عیدالاضحی کے دن نبیﷺ باہر (عید گاہ میں) تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز عید ادا فرمائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اس دن ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ پہلے نمازپڑھیں پھر (عیدگاہ سے) واپس جاکر جانور ذبح کریں۔ (صحیح البخاری، العیدین، باب استقبال الإمام الناس فی خطبة العید، حدیث: 976)
(2) عید کی نماز سے پہلے کی گئی قربانی کی حیثیت عام گوشت کی ہے۔ ایسے شخص کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا۔
(3) ثواب کا دارومدار عمل کے سنت کے مطابق ہونے پر ہے۔
(4) کوئی شخص غلطی سے نماز سے پہلے قربانی کرلے تو دوسرا جانور میسر ہونے کی صورت میں اسے نماز عید کے بعد دوسرا جانور قربان کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3151
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5079
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی ہے، وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا، اے اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے، (جس کے آغاز میں) گوشت کی طلب و خواہش ہوتی ہے اور اس نے پڑوسیوں کی ضرورت کا تذکرہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچا مان لیا، اس نے کہا، میرے پاس ایک جَذَعة [صحيح مسلم، حديث نمبر:5079]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: تَوَزَّعُوا يا تَجَزَّعُوا: دونوں ہم معنی لفظ ہیں، مقصد یہ ہےکہ انہوں نے ریوڑ کی بکریاں آپس میں بانٹ کر ذبح کرلیں۔ فوائد ومسائل: ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق، جَذَعه بکری کی قربانی حضرت ابوبردہ کے لیے خاص تھی اور کوئی انسان جَذَعه بکری قربانی کی صورت میں ذبح نہیں کر سکتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5079
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 954
954. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا:”جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی کو ذبح کر لیا وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا کہ آج کے دن گوشت کی بہت خواہش ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کا تذکرہ کیا، نبی ﷺ نے اس کی باتوں پر مہر تصدیق ثبت فرمائی۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ نبی ﷺ نے اسے ذبح کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ راوی کہتا ہے کہ اب مجھے پتہ نہیں کہ یہ اجازت اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی ہے یا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:954]
حدیث حاشیہ: یہ اجازت خاص ابو بردہ کے لیے تھی۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے حضرت انس ؓ کو ان کی خبر نہیں ہوئی، اس لیے انہوں نے ایسا کہا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 954
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5549
5549. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کی وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا۔ اللہ کے رسول! اس دن گوشت کی خواہش کی جاتی ہے اور اس نے اپنے ہمسایوں کی غربت کا ذکر کیا، اب تو میرے پاس یکسالہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے آپ ﷺ نے اس کو رخصت دی کہ وہی ذبح کر دے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں؟ اس نے بعد نبی ﷺ دو میںڈھوں کی طرف مائل ہوئے اور انہیں ذبح کیا اور لوگ بھی بکریوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں تقسیم کر کے ذبح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5549]
حدیث حاشیہ: حضرت محمد بن سیرین حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ ہیں۔ یہ فقیہ عالم عابد و زاہد و متقی ومشہور محدث تھے۔ لوگ ان کو دیکھتے تو اللہ یاد آ جاتا تھا۔ موت کے ذکر سے ان کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ مشہور جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔ سنہ110ھ میں بعمر 77سال وفات پائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5549
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5546
5546. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی، اس نے صرف اپنی ذات کے لیے اسے ذبح کیا۔ اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5546]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ نماز سے پہلے قربانی کے جانور پر ہاتھ ڈالنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5546
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:954
954. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا:”جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی کو ذبح کر لیا وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا کہ آج کے دن گوشت کی بہت خواہش ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کا تذکرہ کیا، نبی ﷺ نے اس کی باتوں پر مہر تصدیق ثبت فرمائی۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ نبی ﷺ نے اسے ذبح کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ راوی کہتا ہے کہ اب مجھے پتہ نہیں کہ یہ اجازت اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی ہے یا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:954]
حدیث حاشیہ: ایک روایت کے مطابق اس شخص نے اپنے پڑوسیوں کی بھوک اور تنگ دستی کا ذکر کیا۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 984) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب اس نے اپنے ہمسائے کی محتاجی کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے معذور خیال فرمایا۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث: 5581) دیگر روایات میں صراحت ہے کہ وہ شخص ابو بردہ بن نیار تھے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے قربانی کے لیے یک سالہ بکری کا بچہ ذبح کرنے کی اجازت دی اور فرمایا کہ یہ رخصت صرف تیرے لیے ہے، کسی دوسرے کو اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث: 5560) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں عید الاضحیٰ کے دن کھانا تناول کرنے کو کسی وقت کے ساتھ مشروط نہیں کیا جیسا کہ عید الفطر کے دن نماز سے پہلے کے ساتھ مقید کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک عیدالاضحیٰ کے دن کھانے کے متعلق کوئی پابندی نہیں، خواہ قربانی ذبح کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں، چنانچہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ جب اس شخص نے اپنی قربانی نماز سے پہلے ذبح کر ڈالی اور عرض کیا کہ اس دن گوشت کھانے کی ہر ایک کو چاہت ہوتی ہے تو آپ نے قبل از وقت قربانی ذبح کرنے پر تو انکار کیا لیکن نماز عید سے پہلے گوشت کھانے پر سکوت فرما کر اس عمل کو برقرار رکھا، شاید اس انداز سے امام بخاری ؒ نے ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر کھانے کے متعلق فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن اس وقت تک نہ نکلے جب تک کچھ کھا نہ لیتے اور عید الاضحیٰ میں اس وقت تک کچھ نہ کھاتے جب تک نماز نہ پڑھ لیتے۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث: 542) اس قسم کی دیگر احادیث کے متعلق بھی محدثین نے کلام کیا ہے۔ (فتح الباري: 578/2) اگرچہ محدثین نے ان روایات پر کلام کیا ہے، تاہم راجح بات یہی ہے کہ یہ روایات صحیح اور حسن درجے کی ہیں۔ جیسا کہ شیخ البانی ؒ اور دیگر کئی محققین نے اس کی صراحت کی ہے، اس لیے عیدالاضحیٰ کے روز عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا ہی سنت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 954
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5546
5546. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی، اس نے صرف اپنی ذات کے لیے اسے ذبح کیا۔ اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5546]
حدیث حاشیہ: (1) کتاب و سنت کے دلائل سے قربانی کا سنت ہونا ہی ثابت ہے بلکہ قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے لیکن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ یہ حضرات واجب کہنے والوں کے قول سے کراہت کرتے ہوئے قربانی نہیں کرتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 265/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5546
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5549
5549. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کی وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا۔ اللہ کے رسول! اس دن گوشت کی خواہش کی جاتی ہے اور اس نے اپنے ہمسایوں کی غربت کا ذکر کیا، اب تو میرے پاس یکسالہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے آپ ﷺ نے اس کو رخصت دی کہ وہی ذبح کر دے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں؟ اس نے بعد نبی ﷺ دو میںڈھوں کی طرف مائل ہوئے اور انہیں ذبح کیا اور لوگ بھی بکریوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں تقسیم کر کے ذبح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5549]
حدیث حاشیہ: (1) عید کے دن گوشت کی خواہش رکھنا خلوص اور للہیت کے منافی نہیں، لیکن اس خواہش اور چاہت کو پورا کرنے کے لیے شریعت کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اپنے پڑوسیوں کی غربت و محتاجی کا خیال رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے لیکن شریعت کے اندر رہتے ہوئے ان سے غم گساری کی جائے۔ (2) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں، یہ رخصت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں جبکہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ ایک سالہ بکری کے بچے کی قربانی حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کے لیے تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا تھا: ”تیرے بعد ایسا کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہو گا۔ “(صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث: 5556) شاید حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشاد نہ سن سکے ہوں۔ (فتح الباري: 10/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5549